آہ راشد اعظم !



اس سال بلکہ دو ماہ کے دوران شعبہ نعت کے دو ماہ کامل بدلیوں کی گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ڈوب کر ہم سے ہمیشہ کے لئے جدا ہوگئے۔ اور شعبہ نعت کا گلشن ان کے چلے جانے سے بقد سموم کے جھونکوں کی لپیٹ میں آچکا ہے۔ بھائی ذوالفقار علی حسینی کا غم ابھی ہلکا نہیں ہوا تھا کہ ممتاز ثناء خوان راشد اعظم بھی اچانک مختصر علالت کے باعث اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔

راشد اعظم کا شمار وطن عزیز کے سینئر ترین ثناء خوانوں میں ہوتا تھا۔ انھوں نے اپنے کیئریر کا آغاز 1985 میں کیا اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے اپنے مشہور زمانہ کلام آقا آقا بول بندے آقا آقا بول سے مقبولیت کی بلندیوں تک پہنچ گئے۔ اس دوران انھوں نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ملک بھی اپنی مدح سرائی اور اپنے منفرد انداز سے کامیابی اور مقبولیت کے جھنڈے گاڑ دیے۔

ان کے مشہور زمانہ کلام میں

”در پہ بلاؤ مکی مدنی بگڑی بناؤ مکی مدنی“

”آقا آقا بول بندے آقا آقا بول“

نے بہت مقبولیت پائی راشد اعظم نہ صرف سرکار کی بارگاہ مدح سرائی کرتے تھے بلکہ وہ کئی مقبول زمانہ کلام کے خالق بھی خود ہی تھے۔ حال ہی میں ان کے لکھے گئے کلام

”یا سیدہ زہرہ“ نے بہت مقبولیت پائی۔

راشد بھائی سے ہماری شناسائی یوں تو بہت پرانی تھی مگر وطن عزیز کے ممتاز نقیب محفل ہمارے بہت پیارے دوست و بھائی ڈاکٹر فہیم دانش صاحب کی معرفت سے اس شناسائی کو قربت حاصل ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب کی معرفت ہی بھائی راشد اعظم ہماری سالانہ محفل نعت میں تواتر سے شرکت کرکے محفل رونق بنتے رہے۔ اور اپنے منفرد انداز سے محافل کو لوٹتے رہے۔

برسوں سے ہر سال محافل نعت کے انعقاد کی وجہ سے ہمارے شناسائی تقریباً وطن عزیز کے ہر ثناء خواں سے رہی ہے مگر جو عاجزی و انکساری ہم نے بھائی راشد اعظم کی شخصیت میں دیکھی وہ ہمیں کسی دوسرے ثناء خواں میں نظر نہیں آئی۔

ان کی عاجزی و انکساری کا ایک چھوٹا سا واقعہ ہم یہاں بیان کرنا چاہتے ہیں۔ رواں سال فروی میں ہمارے سالانہ محفل نعت میں راشد اعظم نے محفل کے اختتامی لمحات میں اپنے منفرد اور پرجوش انداز سے حاظرین پر ایک سحر طاری کردیا تھا۔ اور اس سحر کی تاثیر یہ تھی کہ سخت ترین سرد رات کے باوجود حاظرین محفل کا اثرار یہ تھا کہ محفل کا اختتام نہ ہو راشد اعظم پڑھتا جائے اور وہ اس کو سنتے اور جھومتے جائیں۔

تقریبا پورے دو گھنٹے مسلسل محفل کو گرماکر راشد اعظم خاموشی سے اسٹیچ سے اترے اور گاڑی میں بیٹھ کر اپنے گھر کو روانہ ہوگئے۔ اور ہم بعد میں ان کو نذرانے کے لئے تلاش ہی کرتے رہے۔ بعد میں ڈاکٹر صاحب کے ذریعے ان کو نذرانے کا لفافہ بھجوایا۔

یہ تھی ان کی عاجزی و انکساری کہ صاحب محفل کی مصروفیات کو دیکھتے ہوئے وہ بغیر کسی تقاضے کے روانہ ہوگئے۔ ورنہ ہم وطن عزیز کے ایسے سینئر ترین ثناء خوانوں کو بھی جانتے ہیں۔ جو تاریخ دیتے وقت ہی لفافہ بھاری کرنے کی شرائط پر اپنی دستیابی دیتے ہیں۔ اور لفافہ ملنے کے بعد اسٹیچ پر ہی کھول کر اپنی تسلی فرماتے ہیں۔

راشد بھائی سے ہماری آخری ملاقات ماہ اگست میں ڈاکٹر فہیم دانش صاحب کی والدہ محترمہ کے چہلم کے موقع پر ہوئی تھی۔ جہاں ہم ان کو دیکھ کر جوں ہی ان سے مصافحہ کرنے آگے بڑھے تو وہ اپنی نشست سے اٹھ کر کھڑے ہوگئے اور سلام دعا کرنے کہ بعد مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ کیسے ہیں نسیم بھائی؟ کہہ کر ہم سے ہمکلام ہوئے۔

راشد اعظم نہ صرف ممتاز ترین ثناء خواں تھا بلکہ وہ ایک بہترین شخصیت کا حامل انسان بھی تھا۔ اس کی نیک نامی اور ہر دلعزیزی بہت مقبول تھی۔

گزشتہ دنوں سینئر نعت خواں جناب یوسف میمن علالت کے باعث اسپتال میں داخل ہوئے تو اس ہی دن راشد اعظم نے اپنی فیس بک آئی ڈی میں ان کی صحت یابی کے لئے نہ صرف خود دعا فرمائی بلکہ اپنے حلقہ احباب سے یوسف بھائی کی صحت یابی کے لئے دعا کی اپیل فرمائی۔

مگر اگلے ہی دن یوسف میمن کی صحتیابی کے لئے دعا فرمانے والا راشد اعظم خود ہی سینے میں تکلیف کی بناہ پر اسپتال میں داخل ہوگیا۔ اور تمام تر ٹیسٹ کے بعد معلوم ہوا کے اس کے دل کے تین وال بند ہیں جس کی وجہ سے اس کا فوری طور پر بائے پاس آپریش کرنا پڑے گا۔ اور آپریشن کی کامیابی کے باوجود بائے پاس کے دوران راشد اعظم کے گردے فیل ہوجاتے ہیں اور وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملتا ہے۔

بلاشعبہ راشد اعظم کی رحلت سے شعبہ نعت اس جلال و جمال سے محروم ہوگیا جو ان کی شخصیت کا لاینفک حصہ تھے۔ ان کا انتقال شعبہ نعت کا ایک ناقابل تلافی خسارہ ہے۔ راشد اعظم نے نے اپنی جادوئی مدح سرائی سے جہاں سامعین کے دلوں کو مسخر کیا وہیں اپنی نعتیہ شاعری کے ذریعے ایک بڑے طبقے کو اپنا اسیر بنایا۔

فیبرک نے کہا تھا کہ موت سب ہی کو آتی ہے لیکن جو اچھے کام کرجاتے ہیں وہ زندہ جاوید ہوجاتے ہیں اور اِس کے ساتھ ہی یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ مرنے کے بعد بھی دنیا آپ کو بھول نہ جائے تو کوئی اہمیت والی کتاب لکھیں یا اہمیت کے حامل ایسے کارنامے سرانجام دیں کہ اِنہیں زیرقلم لایا جاسکے اور اِس میں کوئی شک نہیں کہ بحیثیت انسان اور ایک عظیم لیجنڈ ثناء خواں راشد اعظم میں یہ تمام خوبیاں بدرجہ اتم موجود تھیں۔

دنیا آنی جانی ہے، جو بھی یہاں آیا ہے اسے خالق ومالک کی جانب سے عطاکردہ مدت حیات پوری کرکے دار فانی سے عالم جاودانی کی طرف کوچ کرنا ہے۔ یہی نظام کائنات ہے اور اسی نظام کے تحت لاکھوں برس سے آباد انسانی دنیا میں آمدو رخصت کا سلسلہ جاری و ساری ہے اور قیامت تک خالق کائنات کا بنایا ہوایہ نظام اسی طرح جاری رہے گا۔ مگر بقول شاعر ؂

موت اس کی کرے جس کا زمانہ افسوس
یوں تو دنیا میں سبھی آئے ہیں مرنے کے لئے

اللہ پاک بھائی راشد اعظم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے آمین۔ اور لواحقین اور مداحوں کو صبرو جمیل عطاء فرمائے آمین۔

میں قبر اندھیری میں گھبراؤں گا جب تنہا
امداد میری کرنے آجانا رسول اللہ ﷺﷺﷺ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).