اقوام متحدہ: موسمیاتی تبدیلی سے زمین انتہائی خطرے میں


مونگے

سمندری حیات کو بھی ماحولیاتی تبدیلیوں سے خطرہ ہے

اقوام متحدہ کی ایک تازہ میں خبردار کیا گیا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے سمندر اور منجمد خطوں کو اس دور میں جتنا نقصان ہو رہا اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا۔

اقوام متحدہ کے سائنسدانوں کے ایک پینل کے مطابق سمندروں کی سطح بلند ہو رہی ہے، برف پگھل رہی ہے اور انسانوں کی سرگرمیاں اور نقل و حرکت کے بڑھ جانے سے بہت سی جنگلی حیات اپنے مسکن تبدیل کرنے پر مجبور ہے۔

مستقل طور پر منجمد خطوں کے پگھلنے سے زیادہ کاربن ڈائی آکسائڈ گیس کے اخراج کا خطرہ ہے جس سے یہ عمل تیز سے تیز تر ہوتا جائے گا۔

بڑی مہوم سی امید یہ بھی ہے کہ اگر کاربن ڈائی آکسائڈ کے اخراج کو تیزی سے کم کر دیا جائے تو ماحولیاتی تبدیلیوں کے نقصان کو کم کیا جا سکتا ہے۔

اس موضوع پر اقوام متحدہ کے ’انٹر گورنمنٹل پینل آن کلائمیٹ چینج‘ کی طرف سے گزشتہ بارہ ماہ میں مرتب کردہ یہ تیسری رپورٹ ہے۔

سائنسدانوں نے گزشتہ رپورٹوں میں اس بات کا جائزہ لیا تھا کہ اگر دنیا کا درجہ حرارت ایک اعشاریہ پانچ سینٹی گریڈ تک بڑھ جائے تو اس کا کیا اثر پڑے گا اور دنیا اس سے کیسے نمٹے سکے گی۔ انھوں نے رپورٹ میں درجہ حرارت کے بڑھنے سے زمین پر پڑنے والے اثرات کی تفصیل سے وضاحت کی تھی۔

تاہم یہ تازہ رپورٹ جس میں بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے سمندروں اور مجمد خطوں پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لیا گیا سب سے زیادہ مایوس کن اور خطرناک ہے۔

Infographic

کیا پتہ چلا ہے اور یہ کتنا خوفناک ہے؟

اگر مختصر طور پر بیان کیا جائے تو یہ کہا جائے گا کہ سمندروں کا پانی گرم سے گرم تر ہو رہا ہے، دنیا بھر میں برفانی خطے تیزی سے پگھل رہے ہیں اور اس کے اثرات دنیا میں بسنے والی ہر مخلوق پر پڑیں گے۔

رپورٹ مرتب کرنے والے پینل کے ایک اہم رکن ڈاکٹر ژان پیگی گٹسو نے کہا کہ نیل گوں سیارہ اس وقت حقیقی خطرات سے دوچار ہے جن کی سنگینی مختلف نوعیت کی ہے اور سب انسان کے پیدا کردہ ہیں۔

سمندر

نشیبی علاقے زیر آب آ جائیں گے

سائنسدانوں کو اب اس بارے میں کوئی شک نہیں ہے کہ دنیا کے سمندر سنہ 1970 سے اب تک لگاتار گرم ہو رہے ہیں۔

انسانی سرگرمیوں سے پیدا ہونے والی حدت کا نوے فیصد سمندر کے پانیوں نے جذب کر لیا ہے اور سمندر کا پانی جس رفتار سے گرم ہوا ہے وہ سنہ 1993 کے بعد سے دگنی ہو گئی ہے۔

آئی پی سی سی کے مطابق سمندر کی سطح اب گرین لینڈ اور قطب جنوبی پرجمی برف کی تہ پگھلنے سے ہو رہی ہے۔

قطب شمالی اور قطب جنوبی پر جمی برف سنہ 2007 اور 2016 کے درمیان اس سے پہلے کے دس سالوں کے مقابلے میں تین گنا زیادہ رفتار سے پگھلی ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ اکیسویں صدی اور اس سے آگے یہ سلسلہ اس طرح جاری رہے گا۔

دنیا کے دیگر علاقوں میں گلیشیئروں کے بارے میں یہ اندازہ ہے کہ اس صدی کے آخر تک ان کا اسی فیصد حصہ پگھل جائے گا۔ اس کے اثرات کروڑوں لوگوں پر پڑیں گے۔

گلیشیئر

دنیا بھر میں گلیشیئر تیزی سے پگھل رہے ہیں

پگھلتی ہوئی برف کے کیا اثرات ہوں گے

برف کے پگھلنے سے بننے والا اضافی پانی سمندر میں مسلسل داخل ہو رہا ہے جس سے سمندروں کی سطح اونچی ہو رہی ہے اور یہ سلسلہ اگلی کئی دہائیوں تک جاری رہنے کا خطرہ ہے۔

اقوام متحدہ کی تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فرض کریں کہ صورت حال اسی تیزی سے خراب ہوتی رہتی ہے تو سنہ 2100 تک سمندروں کی سطح میں ایک اعشاریہ ایک میٹر کا اضافہ ہو جائے گا۔

یہ ماضی میں لگائے گئے آئی پی سی سی کے اندازوں سے دس سینٹی میٹر زیادہ ہے جس کی وجہ قطب شمالی میں برف کا تیزی سے پگھلنا ہے۔

ڈاکٹر ژان پیگی گٹسو نے کہا کہ وہ اس بات سے پریشان ہیں کہ سمندر کی سطح بلند ہونے کے بارے میں جو انتہائی اندازے لگائے گئے تھے تازہ رپورٹ میں وہ اس سے ایک اعشاریہ ایک میڑ زیادہ دکھائے گئے ہیں۔

اس صورت حال کے ساحلی اور سمندر کے ساتھ نشیبی علاقوں میں بسنے والے کم سے کم ستر کروڑ افراد کے لیے انتہائی تباہ کن تنائج برآمد ہوں گے۔

گرین لینڈ میں پگھلتی برف

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کچھ جزائرہ اور ساحلی علاقے سنہ 2100 تک انسانی آبادی کے قابل نہیں رہیں گے۔

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ان علاقوں سے لوگوں کو نکال کر متبادل جگہوں پر منتقل کرنے کے بارے میں غور شروع کر دینا چاہیے۔

ان تبدیلیوں کا آپ پر کیا اثر پڑنے والا ہے؟

ایک پریشان کن پیغام جو ہمیں مل رہا ہے وہ یہ ہے کہ سمندروں کا گرم ہونا اور برفانی خطوں کا پگھلنا ایک ہی سلسلے کی کڑی ہیں جس سے مستقبل میں سینکڑوں لوگ متاثر ہوں گے۔

گیسوں کے اخراج کے انتہائی اندازوں کے مطابق نیویارک اور شنگھائی جیسے بڑے اور امیر شہر اور گرم علاقوں کے بڑے زرعی ڈیلٹا مثلاً میکانگ کو بلند ہوتے ہوئے سمندروں سے شدید خطرہ ہو سکتا ہے۔

Infographic

رپورٹ کے مطابق سمندروں کے انتہائی درجہ حرارت کی صورت میں دنیا میں تباہ کن اور خوفناک قدرتی آفات اور سمندری طوفان کے امکانات بہت بڑھ جائیں گے۔

مستقبل میں اگر کاربن کا اخراج کم بھی کر دیا گیا تو بھی سنہ 2050 تک سنمدر دنیا میں کئی مقامات پر ہر سال میں ایک مرتبہ اپنی بلند ترین سطح کو چھوئیں گے جیسا کہ ماضی میں ایک صدی میں صرف ایک مرتبہ ہوا کرتا تھا۔

پروفیسر ڈیبرا رابرٹس جو آئی پی سی سی کی شریک چیئرپرسن ہیں انھوں نے کہا کہ جو ہم آج دیکھ رہے ہیں وہ مستقل اور ایک ایسی تبدیلی ہے جو کس ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔

اگر آپ سمندروں سے دور بھی آباد ہیں تب بھی سمندروں اور برفانی خطوں میں ماحولیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے تغیر سے آپ کی طرز زندگی پر اثر پڑے گا۔

جس طرح یہ سب کچھ انسانی زندگی کو متاثر کرے گا اس کی بہت سے جہتیں ہو سکتی ہیں۔ سیلابوں سے ہونے والے تباہی کی سنگینی کئی گناہ بڑھ سکتی ہے۔ سمندروں میں سی او ٹو سے تیزابیت بڑھے گی اور اگر درجہ حرارت ایک اعشاریہ پانچ ڈگری بھی بڑھا تو سمندروں کے ساحل پر نوے فیصد مونگے ختم ہو جائیں گے۔

مچھلیوں کی مختلف اقسام سمندروں کے درجہ حرارت بڑھنے سے ایک سے دوسری جگہ منتقل ہو جائیں گی۔ سمندری خوراک میں آلودگی اور مضرِ صحت عناصر کے بڑھنے سے انسانوں کو زیادہ خطرہ لاحق ہو جائے گا۔

بجلی کی پیداوار بھی متاثر ہو گی کیونکہ گلیشیئروں کے پگھلنے سے پن بجلی کے لیے کم پانی دستیاب ہو گا۔

پرمافراسٹ

منجمد خطے

سائبیریا اور شمالی کینیڈا جیسے دنیا کے منجمد خطوں میں بے پناہ برف ذخیرہ ہے۔

اگر گیسوں کا اخراج بڑھتا رہا تو ان برف کے ذخائر کا ستر فیصد حصہ پھگلنے لگے گا اور ان منجمد خطوں میں ڈرمائی تبدیلی آئے گی۔

اس میں سب سے زیادہ پریشانی کی بات یہ ہے کہ اس برف کے پگھلنے سے دسیوں ارب سے سینکڑوں ارب تک کارب ڈائی آکسائڈ اور میتھی گیس سنہ 2100 تک ماحول میں شامل ہو جائے گی۔ اس وجہ سے ماحول میں گیسوں کے اخراج کو روکنا ہمارے بس میں نہیں رہے گا۔

طویل المدت میں کیا ہو گا؟

یہ ایک اہم سوال ہے کہ مستقبل قریب میں ہمیں اخراج کو ایک حد میں رکھنے کے لیے کیا کرنا ہو گا۔

رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ کچھ تبدیلیاں آسانی سے واپس نہیں کی جا سکتیں۔ اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ قطب جنوبی کی برف کی چادر میں واپس نہ ہونے والی تبدیلی کے عمل کے آغاز سے چند صدیوں میں سمندر کی سطح کئی میٹر تک بلند ہو جائے گی۔

سفید وہیل


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32485 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp