اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس: کشمیر میں خوش امیدی کی وجہ کیا ہے؟


کشمیر

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی آئینی حیثت کے خاتمے کے بعد جہاں گذشتہ 50 روز سے کرفیو، پابندیوں اور قدغنوں کا سلسلہ جاری ہے اور انٹرنیٹ اور ٹیلی فون کا نظام معطل ہے، وہاں کے باسیوں کو 27 ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے بہت توقعات ہیں۔

چاہے وہ کوئی دکاندار ہو، مقامی صحافی، یونیورسٹی طالب علم یا مقامی ہوٹل پر کام کرنے والا بیرا: کسی سے بھی کوئی سوال کریں تو آپ کو یہی جواب سننے کو ملے گا، ’دیکھتے ہیں 27 ستمبر کے بعد کیا ہوتا ہے۔‘

27 ستمبر کو اقوام متحدہ کے اجلاس میں کیا ہوگا؟

27 ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے انڈیا اور پاکستان کے وزرائے اعظم خطاب کریں گے۔ ایک طرف انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی اپنے زیر انتظام کشمیر کی آئینی خصوصی حیثیت کے خاتمے کا دفاع کریں گے تو وہیں پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان اس کے اقدام کے ساتھ ساتھ وہاں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر عالمی رہنماوں کی توجہ مرکوز کرنے کی کوشش کریں گے۔

کئی ہفتوں سے کشمیر کے تقریباً تمام حلقے منتظر ہیں کہ جمعے کے روز اقوام متحدہ کے ایوان میں تقریروں کے بعد کوئی بڑا اعلان ہوگا۔

یہ بھی پڑھیے

کشمیر: ’معمول کی زندگی‘ کے پس پشت پیچیدہ حقائق

انڈیا: مودی اقوام متحدہ میں کشمیر کا ذکر نہیں کریں گے

’پاکستان، انڈیا مسئلہ کشمیر پر مل کر اختلافات دور کریں‘

’کشمیر پر جو کر سکتا ہوں، کرنے کے لیے تیار ہوں‘

ان توقعات نے وادی میں افواہوں اور قیاس آرائیوں کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ کہیں کوئی یہ سوچتا ہے کہ انڈین حکومت آرٹیکل 370 کے خاتمے کا فیصلہ واپس لے گی، تو کہیں یہ گمان ہے کہ پاکستان انڈیا پر حملہ کر سکتا ہے۔ کہیں وادی میں عسکریت پسندی کے کسی واقعے کے رونما ہونے کا خطرہ ہے تو کچھ یہ سوچتے ہیں کہ 27 ستمبر کے بعد کشمیر ‘آزاد’ ہو جائے گا۔ لوگوں نے اپنے سارے اہم کام 27 ستمبر تک ٹال دیے ہیں۔

کشمیر میں صورتحال کیا ہے؟

کشمیر

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں ہر طرف سکیورٹی فورسز اور پولیس اہلکار گشت کرتے دکھائی دیتے ہیں

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی آئینی حیثیت کے خاتمے کو سات ہفتوں سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔

بی بی سی کے نامہ نگار ونیت کھارے نے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کا دورہ کیا اور جانا کہ وادی کے بیشتر حصوں میں تاحال زندگی معمول کی جانب نہیں آ سکی۔

کئی ہفتوں کی سخت قدغنوں اور بندشوں کے بعد اب یہ بندشیں انٹرنیٹ اور موبائل فون پر پابندی تک محدود ہوگئی ہیں، لیکن لوگوں کی طرف سے ایک خاموش احتجاج جاری ہے۔ تجارتی اور تعلیمی سرگرمیاں معطل ہیں اور مواصلاتی سہولیات معطل رہنے کی وجہ سے معمولات زندگی ٹھپ ہیں۔

انٹرنیٹ اور ٹیلی فون کی بندش نے وادی کو بیرونی دنیا سے کاٹ کر رکھ دیا ہے جس سے سب سے زیادہ متاثر وادی میں ابھرتی آئی ٹی کمپنیاں ہیں، جن کا انحصار انٹرنیٹ پر ہے۔

کشمیر کی معیشت کا زیادہ تر انحصار سیاحت، باغبانی، قالین سازی اور چٹائی بنانے کی چھوٹی صنعت پر ہے۔ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں آمد ورفت اور داخلے کی محدود اجازت نے سیاحت کی شعبے کو بھی متاثر کیا ہے۔

کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے اعداد و شمار کے مطابق 5 اگست سے کشمیر کی معیشت کو 10000 کروڑ کا نقصان ہوا ہے۔ 50 روز سے جاری ہڑتال کے باعث کاروباری زندگی معطل ہے۔ دستیاب اعداد و شمار کے مطابق بِہار یا دیگر انڈین ریاستوں سے کشمیر میں آ کر کام کرنے والے تقریباً تین سے چار لاکھ افراد کشمیر سے واپس جا چکے ہیں۔ یہ افراد یہاں بال کاٹنے، کارپینٹری، مصوری، الیکٹریشن، پیکنگ، بیوٹی پارلروں میں کام کرتے تھے۔

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں ہر طرف سکیورٹی فورسز اور پولیس اہلکار گشت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ سیاسی رہنماؤں کو گرفتار یا نظربند کیا گیا ہے۔

کشمیر

وادی کے بیشتر علاقوں میں پبلک ٹرانسپورٹ بھی چلتی دکھائی نہیں دیتی۔ تعلیمی سرگرمیاں بند ہیں۔ سکول و کالجوں میں حاضری نہ ہونے کے برابر ہے۔

یہ جاننے کے لیے کہ کشمیر میں گذشتہ 50 دن کیسے گزرے ہیں، میں نے سری نگر کے علاوہ شمالی اور جنوبی کشمیر کے بہت سے دور دراز علاقوں اور دیہاتوں کا دورہ کیا۔ اور یہ جانا کہ لوگوں میں غم و غصہ، صدمہ، غیر یقینی کی صورتحال اور خوف برقرار ہے۔

انڈین میڈیا پر کیے جانے والے ‘سب کچھ ٹھیک ہے’ کے دعوے درحقیقت ‘جھوٹ کا پلندہ’ ہیں جو حقیقت ظاہر نہیں کرتے۔

کشمیر کے عوام کیا سوچتے ہیں؟

اس کہانی کا آغاز 3 اگست، جمعے کی سہ پہر سے ہوا جب سری نگر کے ریڈیسن ہوٹل کے مالک، مشتاق چائی، اپنے ہوٹل میں تھے اور حکومت جموں و کشمیر کے امور وزارت داخلہ کی جانب سے جاری کردہ ‘سکیورٹی ایڈوائزری’ ان کے پاس پہنچی۔

اس مراسلے میں امرناتھ یاترا اور امرناتھ یاتریوں کو انتہائی خطرے کی بات کی گئی تھی اور سیاحوں کو فوری طور پر وادی چھوڑنے کا مشورہ دیا گیا تھا۔

کشمیر

کشمیر ہوٹل ایسوسی ایشن کے سربراہ مشتاق چائی

کشمیر ہوٹل ایسوسی ایشن کے سربراہ مشتاق چائی نے بتایا کہ یہ پہلا موقع ہے جب وادی کی معیشت کے لیے اہم سمجھے جانے والے مسافروں اور سیاحوں کو وادی چھوڑنے کا کہا گیا۔

مشتاق چائی بتاتے ہیں کہ ‘اس صورتحال سے قطع نظر مہمان پریشان ہوئے اور یہ سن کر ناراض ہوئے کہ انھیں ہوٹل چھوڑنا ہے۔ (ہم نے ان سے کہا) جلدی جاؤ۔ برائے مہربانی. لوگ مجھ سے فون پر سونارمگ ، گلمرگ ، پہلگام سے پوچھ رہے تھے کہ انھیں کیا کرنا چاہیے۔ لوگوں کو (مہمانوں) کو واپس بھیجنا پڑا ۔ اگلے دن ہوٹل خالی تھے۔’

ایک دکاندار نے مجھے بتایا کہ ‘لوگ یہاں خاموش ہیں۔ کچھ ردعمل نہیں آرہا، یہ تشویش کی بات ہے۔’

ایک مقامی شہری کے مطابق ‘انتظامیہ اور متاثرہ لوگوں کے مابین کوئی رابطہ نہیں ہے، مذاکرات نہیں ہو رہے ہیں، لہذا ہمیں سمجھ نہیں آرہی ہے کہ آگے کا راستہ کیا ہے۔’

کشمیر

اسی طرح کشمیر صنعت و تجارت چیمبر کے سربراہ اور قالین کی صنعت سے وابستہ شیخ عاشق کا کہنا ہے کہ ‘جولائی اگست اور ستمبر وہ وقت ہوتا ہے جب ہمیں ایکسپورٹ آرڈر ملتے ہیں تاکہ ہم کرسمس یا نئے سال تک سپلائی کرسکیں۔ بند انٹرنیٹ اور موبائل فون کی وجہ سے ہم اپنے درآمد کنندگان کی تلاش کر رہے ہیں اور کاریگروں سے رابطہ نہیں کر سکتے ہیں۔’

یہ بھی پڑھیے

سید علی گیلانی کی پریس کانفرنس پولیس نے روک دی

’انڈین حکومت کشمیر میں جلد از جلد عام حالات بحال کرے’

کشمیر: پاکستان اور انڈیا اپنے اپنے بیانیے کے اسیر

بارہ مولہ کے بند بازار میں آدھے شٹر کھلی حجام کی دکان پر بیٹھے ایک گاہک نے مجھ سے پوچھا، ‘میں بھی تمہارا شہری ہوں۔ جس طرح سے امرناتھ یاتری، سیاحوں سے کہاگیا تھا کہ آپ یہاں سے چلے جاؤ، کیا ہم ان کے شہری بنیں گے؟ ہم ان کے شہری نہیں تھے؟ کیا اب ہمیں بھی یہ کہنا چاہیے تھا کہ ہمیں یہ قدم اٹھانا ہوگا۔’

سکیورٹی فورسز پر کئی سو نوجوانوں کو گھروں سے اٹھانے اور رات گئے انھیں تشدد کا نشانہ بنانے کے سنگین الزامات کے پیش نظر کشمیر کی مشہور ڈل جھیل میں شکارہ بھی خالی ہو گیے ہیں۔

کشمیر

سری نگر کی ڈل جھیل، نگین جھیل، جہلم جھیل اور چنار باغ جھیل میں تقریباً 950 شکارہ ہیں۔ آج وہ سب خالی ہیں

سری نگر کی ڈل جھیل، نگین جھیل، جہلم جھیل اور چنار باغ جھیل میں تقریباً 950 شکارہ ہیں۔ آج وہ سب خالی ہیں۔ اس کام کی وجہ سے لگ بھگ ایک لاکھ افراد کا روزگار چلتا تھا۔ اگست کے بعد سے ان شکارہوں کے مالکان کو200 کروڑ سے زیادہ کا مجموعی نقصان ہوچکا ہے۔

سری نگر کے علاقے نشاط میں واقع اپنے گھر میں شکارہ مالکان ایسوسی ایشن کے حمید وانگو کا کہنا ہے کہ ‘شکارہ چلانے والے خاندانوں کا واحد ذریعہ معاش یہی ہے۔ آج بہت سے خاندان بھوک کا شکار ہیں۔ لکڑی سے بنے شکارہ انتہائی نازک ہیں ، ہر ایک شکارہ کی سالانہ دیکھ بھال تین سے پانچ لاکھ روپے ہے۔ اب ان کا مستقبل غیر یقینی ہے۔’

کشمیر

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی ڈل جھیل کا ایک منظر

جنوبی کشمیر کے علاقے شوپیاں کے ایک گاؤں میں ایک سرد دوپہر کو میں نے کچھ بچوں کو ایک سرکاری مڈل سکول کے باہر سایہ دار درختوں کے نیچے کھیلتا ہوا پایا۔ اسکول بند تھا۔

میں ساتویں جماعت کے بچے سے بات کر رہا تھا جب وہاں سے گزرنے والے ایک کار ڈرائیور نے کار روکی اور کہا ‘یہ بچے خوش ہیں کہ آج چھٹی ہے۔ انھیں نہیں معلوم کہ ان کے مستقبل کا کیا ہوگا۔ بچے سارا دن گھومتے پھرتے ہیں۔ انڈیا چاہتا ہے کہ یہ بچے نہ پڑھیں۔’

اس وقت کشمیر میں والدین کے سامنے یہ چیلنج ہے کہ بچوں کو گھروں میں کس طرح مصروف رکھا جائے تاکہ ان کی تعلیم کو نقصان نہ پہنچے۔ بورڈ کے امتحانات، گیٹ، آئی آئی ٹی وغیرہ کے امتحانات قریب ہیں اور ٹیوشن سینٹرز بھی بند ہیں۔

بند سکولوں کی جانب سے بچوں کو اسائنمنٹس اور کام فوٹو سٹیٹ کر کے دیا جا رہا ہے تاکہ وہ گھر پر بیٹھ کر آنے والے امتحانات کی تیاری کر سکے۔

میں نے ایک ایسے ہی سکول کا دورہ کیا جہاں ایک کمرے میں موجود دو فوٹو سٹیٹ مشینوں پر دھڑا دھڑ مختلف مضامین کے نوٹس اور اسائمنٹس کے پرنٹ نکالے جا رہے تھے۔

کشمیر

وادی میں بند سکولوں کی جانب سے بچوں کو اسائنمنٹس اور کام فوٹو سٹیٹ کر کے دیا جا رہا ہے تاکہ وہ گھر پر بیٹھ کر آنے والے امتحانات کی تیاری کر سکیں

اساتذہ بچوں کے لیے سبق کو ویڈیو میں ریکارڈ کر رہے ہیں تاکہ وہ گھر پر انھیں دیکھ کر پڑھ سکے جبکہ ایک سرکاری اہلکار نے مجھے بتایا کہ 5 اگست سے ابتک ہم نے تقریباً ایک ٹرک سے زیادہ کاغذات کو پرنٹنگ مقاصد کے لیے استعمال کر لیا ہے لیکن تعلیم کے حصول کے لیے سکول اور بچوں کے درمیان خلا کو پر کرنا ممکن نہیں ہے۔

ایک ناراض والد جو ساتویں جماعت میں تعلیم حاصل کرنے والی اپنی بیٹی کے لیے اسائنمنٹ لینے آئے تھے نے مجھ سے کہا ‘ایسا لگتا ہے کہ ہم 60 کی دہائی میں ہیں۔۔۔ اگر میں تعلیم یافتہ ہوں تو میں اپنے بچوں کی مدد کرسکتا ہوں۔ ان کے بارے میں سوچو کہ وہ زیادہ تعلیم یافتہ نہیں ہیں۔

وہ سائنس، ریاضی کس طرح پڑھائیں گے؟ اعلی طبقاتی تعلیم کو سمجھنا بھی ناممکن ہے۔ بعض اوقات ہم کچھ لوگوں کو ساتھ بلاتے ہیں تاکہ وہ ایک ساتھ پڑھ سکیں۔ یہاں صرف کاغذ پر جمہوریت جاری ہے۔’

اسی طرح مسابقتی امتحانات کا فارم بھرنے والے طلباء کی پریشانی بھی کم نہیں ہیں۔ سری نگر کے وسط میں واقع سیاحوں کے استقبالیہ مرکز کے ایک بڑے ہال میں فارم بھرنے کے لیے پانچ کمپیوٹرز رکھے گیے تھے۔

یہ وہ پانچ کمپیوٹر ہیں جن پر پورے شہر کے طلباء کے لیے انٹرنیٹ کی سہولت میسر ہیں۔

یہاں اپنا فارم جمع کروانے آئی 23 سالہ سعیدہ کا کہنا ہے ‘جب میں کتاب کھولتی ہوں، تو میرے ذہن میں یہ آتا ہے کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ اب ہم دلی، بنگلور کے طلباء سے مقابلہ کر رہے ہیں۔ وہ آگے بڑھیں گے۔ جبکہ ہم پیچھے رہ گئے ہیں۔’

کشمیر

سری نگر کے وسط میں واقع سیاحوں کے استقبالیہ مرکز کے ایک بڑے ہال میں فارم بھرنے کے لیے پانچ کمپیوٹرز رکھے گیے تھے

بی بی سی کے نامہ نگار ریاض مسرور نے بھی انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کا دورہ کیا اور ان کے مطابق سات ہفتوں سے زائد عرصے سے جاری ہڑتال اور تعطل کے بارے میں یہاں کے لوگوں کو یقین ہے کہ 27 ستمبر کے اقوام متحدہ کے اجلاس کے بعد صورتحال بدل جائے گی۔

ریاض مسرور کے مطابق انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کا شمالی قصبہ سوپور ہو یا جنوب میں شوپیاں اور پلوامہ کے اضلاع سیب کی کاشت کرنے والے کشمیری بھی جمعے کے ہی منتظر ہیں۔

سوپور کے پھل کے کاشتکار علی محمد کہتے ہیں کہ ‘فصل تو تیار ہے لیکن ہم روایتی جوش کے ساتھ سیب نہیں اُتار رہے ہیں۔ سب کچھ 27 ستمبر کے بعد ہی ہوگا۔’

علی محمد کو یقین ہے کہ عالمی برادری اس بار کشمیر کے تعطل کو توڑنے اور زندگی بحال کرنے میں سنجیدہ پہل کرے گی۔

تاہم بعض حساس حلقے اقوام متحدہ کے اجلاس سے متعلق خوش امیدیوں کو کشمیریوں کی اجتماعی بے بسی سے تعبیر کرتے ہیں۔

کشمیر

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں سیب کی فصل تیار ہے لیکن کاشتکار فصل توڑنے کو تیار نہیں ہیں

تجزیہ کاروں کے رائے

نئی دلی میں مقیم صحافی سمیدہ پال کئی ہفتوں سے کشمیر کے سبھی اضلاع میں لوگوں سے ملاقات کرتی رہی ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کے نامہ نگار ریاض مسرور کو بتایا کہ لوگوں کو پختہ یقین ہے کہ جمعے کو کشمیریوں کے درد کو اقوام متحدہ کے ایوان میں عالمی رہنما محسوس کریں گے۔

کشمیر

ئی دلی میں مقیم صحافی سمیدہ پال

وہ کہتی ہیں کہ ‘لوگوں کی توقعات بے وجہ نہیں ہیں۔ جمعے کو انڈیا اور پاکستان کے وزرائے اعظم دلی یا اسلام آباد میں تقریر نہیں کر رہے ہیں، وہ اقوام متحدہ میں ہوں گے۔ اقوام متحدہ سے کشمیریوں کی دیرینہ توقعات ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ عالمی سطح پر ایک ذمہ دار اور غیرجانبدار ادارے میں دونوں وزرائے اعظم خود کو زیادہ جواب دہ سمجھیں گے اور ہوسکتا ہے کہ دونوں کو عالمی برادری کشمیر کے دیرینہ مسئلے کو حل کرنے پر مجبور کریں۔’

اس بارے میں مزید پڑھیے

کشمیر میں خطوط اور لینڈ لائن فون کی واپسی

’کشمیر میں کرفیو کے خاتمے کے بعد قتل عام کا خدشہ ہے‘

آرٹیکل 370 کا خاتمہ: کیا مسئلہ کشمیر حل ہو چکا ہے؟

سری نگر کے رہائیشی اور سماجی رضاکار محمد اسلم قریشی کا کہنا ہے کہ’تیس سال سے لوگوں نے اپنے دیرینہ سیاسی خواہشات کی تکمیل کے لیے بے شمار قربانیاں دیں۔ کشمیریوں نے مسلح مزاحمت کو بھی آزمایا اور غیرمسلح مظاہروں کو بھی۔ اُنھیں کچھ نہیں ملا۔ اب ساری اُمیدیں اقوام متحدہ کے ساتھ وابستہ ہوگئی ہیں۔اور یہ پہلا موقعہ ہے کہ اس قدر کشیدہ حالات میں بھی کشمیر پر خوش امیدی کی فضا چھائی ہوئی ہے۔’

تاہم اسلم قریشی کہتے ہیں کہ ذاتی طور پر انھیں اقوام متحدہ میں جمعے کے مخصوص اجلاس سے کوئی خاص توقع نہیں ہے۔

‘اقوام متحدہ نے آج تک کون سا مسئلہ حل کیا ہے؟ فلسطین اور دوسرے عالمی مسائل پر یہ ادارہ رسمی بیان بازی تک محدود رہا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اقوام متحدہ کی بدولت عمران خان اور نریندر مودی آپسی رقابت چھوڑ کر بات چیت پر آمادہ ہوتے ہیں تو بڑی بات ہوگی۔’

کشمیر

سری نگر کے رہائشی اور سماجی رضاکار محمد اسلم قریشی کا کہنا ہے کہ’تیس سال سے لوگوں نے اپنے دیرینہ سیاسی خواہشات کی تکمیل کے لیے بے شمار قربانیاں دیں‘

قابل ذکر امر یہ ہے کہ سری نگر کے سوناوار علاقے میں سات دہائیوں سے قائم اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین کا دفتر کشمیریوں کے اجتماعی مطالبات کی علامت رہا ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں تحریری یادداشتیں اسی دفتر میں جمع کروائی گئی ہیں۔

گزشتہ تیس برس کے دوران جب بھی کوئی علیحدگی پسند گروپ ‘یو این چلو’ کی کال دیتا تو اس دفتر کے گردونواح میں ناکہ بندی کر دی جاتی تھی۔

موجودہ حالات کے دوران بھی جب جگہ جگہ پوسٹر چسپاں ہوئے کہ 16 اگست کو لوگ اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین کے دفتر کی طرف مارچ کریں گے تو وادی بھر میں سخت ترین کرفیو نافذ کیا گیا۔

جنوبی ایشیائی امور کے ماہر سید تصدق حسین کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کے اجلاس کے دوران کوئی بڑا اعلان تو نہیں ہو گا۔

تاہم وہ کہتے ہیں کہ موجودہ حالات نے کشمیر کو اقوام متحدہ کے سلامتی کونسل کے ایجنڈے میں نمایاں طور پر شامل کردیا ہے۔

تصدق حسین کے مطابق ‘قانون کی دو قسمیں ہیں۔ قومی قانون اور بین الاقوامی قانون۔ قومی قانون کے تحت انڈین حکومت نے جموں و کشمیر کا جغرافیہ اور سیاسی حیثیت تبدیل تو کردی، لیکن بین الاقوامی قانون میں لائن آف کنٹرول اور کشمیر میں اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین کی موجودگی اس بات کی دلیل ہے کہ اس فیصلے سے مسئلہ کشمیر کی قانونی حیثیت پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ اور پھر خود انڈین حکومت نے کہہ دیا کہ آرٹیکل 370 کے خاتمے سے لائن آف کنٹرول کی حیثیت بدل نہیں جائے گی۔’

کشمیر

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین کے دفتر کا بیرونی منظر

حسین کا کہنا ہے کہ اگر کسی ملک کے کسی خطے میں بین الاقوامی سرحد ہی نہیں ہو اور اس کی جگہ لائن آف کنٹرول ہو تو دنیا اس کا کیا مطلب لے گی؟

انھوں نے کہا کہ ‘یہ جو کچھ بھی ہوا ہے، اس سے مسئلہ کشمیر سرد خانہ سے خودبخود باہر آگیا ہے۔ اب یہ مسئلہ باقاعدہ عالمی ایجنڈا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کشمیریوں کو جمعہ کے اجلاس سے اس قدر شدید اُمیدیں ہیں۔’

واضح رہے 5 اگست کی صبح انڈین پارلیمنٹ میں وزیرداخلہ امت شاہ نے ‘جموں کشمیر کی تشکیل نو’ کے عنوان سے ایک بل پیش کیا جو دو تہائی اکثریت سے پاس کیا گیا۔ بل کے مطابق جموں کشمیر کو تقسیم کرکے لداخ کو علیحدہ اور جموں و کشمیر کو علیحدہ طور مرکز کے زیرانتظام خطہ قرار دیا گیا اور ریاست میں ستر سال سے نافذ انڈین آئین کی دفعہ 370 کو ختم کرکے ان تمام آئینی اختیارات کو بھی ختم کیا گیا جو کشمیر کو حاصل تھے۔

اب جموں کشمیر محض ایک خطہ ہے جو براہ راست نئی دلی کے اقتصادی اور انتظامی کنٹرول میں ہوگا۔ اس فیصلے کی پیش گوئی طویل عرصے سے کی جارہی تھی کیونکہ حکمران بی جے پی نے اس معاملے کو انتخابی نعرہ بنا کر پورے انڈیا میں یہ مہم چلائی کہ جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ دے کر ملک کے پہلے وزیراعظم جواہرلعل نہرو نے علیحدگی پسند کے بیج بوئے تھے۔

لیکن اس فیصلے کے بعد انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں زبردست بے چینی پھیل گئی ہے۔

کشمیر

جنوبی ایشیائی امور کے ماہر سید تصدق حسین کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کے اجلاس کے دوران کوئی بڑا اعلان تو نہیں ہوگا

کشمیر میں گہری نظر رکھنے والے حلقوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ تیس برس کے دوران لوگوں میں اقوام متحدہ سے متعلق اس قدر شدید توقعات نہیں پائے گیے۔

سری نگر کے ایک سکول میں تعینات استاد غلام رسول کہتے ہیں کہ ‘خدا کرے یہ محض خُوش اُمیدی ثابت نہ ہو، کچھ نہ کچھ ایسا ہونا چاہیے جس سے لوگوں کو احساس ہوجائے کہ بے بسی اور بے چینی کے اس عذاب سے فراغت کی کوئی سبیل بھی ہوگی۔’

سکیورٹی کے پیش نظر چند افراد نے نام تبدیل کیے گیے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp