توہین مذہب اور دیگر سنگین الزامات: کیا پاکستان میں انصاف صرف عدالتِ عظمٰی سے ہی مل سکتا ہے؟


سپریم کورٹ

پاکستان کی عدالتِ عظمٰی نے ماتحت عدالتوں سے توہینِ مذہب کے مقدمے میں موت کی سزا پانے والے شخص وجیہہ الحسن کو حال ہی میں بری کرنے کا حکم دیا ہے۔ وہ 17 برس سے جیل میں تھے اور سپریم کورٹ نے انھیں عدم ثبوت کی بنیاد پر رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔

اس سے قبل مقامی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز رہنے والے مقدمے میں مسیحی خاتون آسیہ بی بی کو بھی عدالتِ عظمٰی ہی نے رواں برس رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس میں بھی ٹھوس شواہد کی عدم موجودگی کو وجہ بتایا گیا تھا۔

ایسے کئی مقدمات سالہا سال سے ماتحت عدالتوں میں زیرِ التوا ہیں۔

بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے ایک استاد جنید حفیظ بھی گذشتہ تقریباً چھ برس سے جیل میں ہیں اور فیصلے کے منتظر ہیں۔ اس دوران ان کا مقدمہ لڑنے والے ایک وکیل قتل ہو چکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

توہینِ مذہب کا ملزم 17 سال بعد ’شواہد نہ ہونے‘ پر بری

آسیہ بی بی کو کیوں بری کیا گیا؟

عدالتوں میں 18 لاکھ سے زائد مقدمات فیصلوں کے منتظر

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس نوعیت کے مقدمات میں تمام ملزمان کو انصاف سپریم کورٹ ہی سے آ کر ملتا ہے؟

اگر اعلٰی عدلیہ انھیں عدم ثبوت پر بری کرتی ہے تو وہی پہلو ماتحت عدالتوں کو نظر کیوں نہیں آتا؟

اور اگر آتا ہے تو محض الزام کی بنیاد پر ان افراد کو زندگی کا ایک بڑا حصہ جیل میں کیوں گزارنا پڑتا ہے؟

آسیہ بی بی

آسیہ بی بی کی رہائی کے فیصلے پر پاکستان میں مذہبی حلقوں کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا تھا

ان سوالات پر پاکستان میں ماہرینِ قوانین کی رائے میں دو بنیادی وجوہات بیان کی جاتی ہیں جس میں ماتحت عدلیہ میں احساسِ عدم تحفظ اور دوسری ریاستی عدم توجہی یا عدم سرپرستی شامل ہیں۔

تاہم ان کے خیال میں یہ تاثر بھی غلط ہے کہ ہر ایسے مقدمے میں انصاف صرف اعلٰی عدلیہ ہی سے ملتا ہے۔

پاکستان کے سابق نگراں وزیرِ قانون بیریسٹر علی ظفر کے مطابق تقریباً چالیس فیصد کے لگ بھگ ایسے مقدمات ماتحت عدلیہ کی سطح پر خارج ہو جاتے ہیں۔

’ملزم کے بری کرنے کے ان کے فیصلوں کو عدالتِ عظمٰی قائم رکھتی ہے۔‘

انصاف عدالتِ عظمٰی ہی سے کیوں ملتا ہے؟

تجربہ کار وکیل اسد جمال اس قسم کے مقدمات پر کام کر چکے ہیں۔ ان کے خیال میں ’بنیادی مسئلہ ججوں میں خوف کا ہے اور پھر ریاست انھیں تحفظ فراہم نھیں کرتی۔‘ توہینِ رسالت جیسے مقدمات میں مذہبی طبقات کی طرف سے دباؤ رہتا ہے۔

ان کے مطابق یہ مقدمات صوبہ پنجاب میں زیادہ سامنے آتے ہیں اور اس میں دوسرا بڑا مسئلہ سیاسی نوعیت کا ہے جس میں ریاستی عدم توجہی نمایاں ہے۔ وہ کہتے ہیں اس قسم کے مقدمات میں استغاثہ کی کارروائی پبلک پراسیکیوشن کرتی ہے جو حکومت کے ماتحت ہے۔

وہ کہتے ہیں ’پبلک پراسیکیوشن ہی ان مقدمات میں استغاثہ ہوتے ہیں۔ ان کو معلوم ہوتا ہے کہ اس مقدمے میں جان نھیں ہے تو وہ ختم کیوں نھیں کر دیتے ہیں؟’

’سپریم کورٹ کے ججوں کو زیادہ تحفظ‘

پاکستان کے سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر جو بذاتِ خود ہائی کورٹ کے جج رہ چکے ہیں وہ بھی اسد جمال سے اتفاق کرتے ہیں۔

ان کے خیال میں ’نچلے درجے کی عدالتوں میں جج اگر اس نوعیت کے مقدمات میں آزادانہ فیصلہ کرنا چاہیں اور اسے شدت پسند عناصر کا بھی سامنا ہو تو وہ ضرور سوچے گا کہ کیا وہ خود محفوظ ہو گا۔‘

تاہم ان کے خیال میں ایسی ماتحت عدالتوں یا ٹرائل کورٹس کے برعکس ہائی کورٹ کے ججوں کو نسبتاً زیادہ تحفظ حاصل ہوتا ہے۔

وہ کہتے ہیں ’سپریم کورٹ میں ججوں کو اس سے بھی زیادہ تحفظ حاصل ہے۔‘ یعنی ان کے لیے فیصلہ کرنا نسبتاً آسان ہوتا ہے۔

سپریم کورٹ

سابق وزیرِ قانون علی ظفر کے مطابق خصوصاً ماتحت عدلیہ میں خوف کا عنصر بھی فیصلوں پر اثر انداز ہوتا ہو گا۔

وہ کہتے ہیں ’وہاں بیٹھے جج یہی سوچتے ہوں گے کہ ہم کر دیتے ہیں اوپر سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ تو بیٹھا ہے نہ، وہ خود ہی درست کر دیں گے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ایسا خصوصاً ان مقدمات میں زیادہ ہوتا ہے جو ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز بن جائیں یا جن میں ایک عوامی رائے قائم ہو جائے۔

’عدلیہ میں مذہبی وابستگی، تعصب موجود ہے‘

سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر اور وکیل اسد جمال دونوں کے خیال میں عدلیہ میں تعصب یا ذاتی پسند نا پسند کا عنصر بھی شامل ہو چکا ہے۔ اسد جمال کے مطابق کئی ججوں کی ذاتی پسند ناپسند مقدمہ پر اثرانداز ہوتی ہے۔

ان کے خیال میں ’یہ ایک محدود پہلو ہے مگر ہے ضرور۔ اور یہ ماتحت اور اعلٰی عدلیہ دونوں میں پایا جاتا ہے۔‘

تاہم عرفان قادر کے مطابق تعصب، مذہبی وابستگی یا ذاتی پسندیدگی عدلیہ میں موجود ہے اور اعلٰی عدلیہ میں زیادہ پائی جاتی ہے۔

انھوں نے بتایا ’ہائی کورٹ ہی کے ایک جج صاحب تھے وہ کھلے عام کہتے تھے کہ لڑکا لڑکی اگر اپنی مرضی سے شادی کر لیتے ہیں تو یہ حرام ہے۔‘

’ایک اور ہائی کورٹ کے سینیئر جج صاحب کو میں نے خود سنا وہ کہتے تھے کہ اگر آپ کدو کو کدو شریف نھیں کہیں گے تو آپ واجب القتل ہیں۔‘

’دو قسم کا تعصب ہے‘

اسد جمال کے مطابق ماتحت عدلیہ کی جانب سے موزوں فیصلہ وقت پر نہ کرنے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اعلٰی عدلیہ صحیح طریقے سے ان کی سرپرستی نھیں کرتی۔

’وہ کوئی فیصلہ لیں تو اعلٰی عدلیہ ان کے پیچھے نھیں کھڑی ہوتی۔ اعلٰی عدلیہ کی جانب سے ماتحت عدالتوں کے ججوں کی من پسند تقرریاں اور تبادلے کر دیے جاتے ہیں۔‘

عرفان قادر کے مطابق عدلیہ میں دو قسم کا تعصب پایا جاتا ہے۔ ’ایک طرف وہ جج ہیں جن کی مذہبی وابستگی واضح نظر آتی ہے تو دوسری طرف ایسے جج ہیں جو خود کو عقلِ کل سمجھتے ہیں اور اپنی ذاتی پسند ناپسند پر فیصلے کردیتے ہیں۔‘

’بے خوف فیصلے بھی ہوتے ہیں، مشہور نھیں ہوتے‘

تجربہ کار وکیل اسد جمال اس قسم کے مقدمات پر کام کر چکے ہیں وہ بھی اس سے اتفاق کرتے ہیں۔ تاہم ان کے خیال میں آج بھی پاکستان میں ماتحت عدالتوں کے جج ’بے خوف اور جرات مندانہ فیصلہ دیتے ہیں لیکن وہ مشہور نھیں ہوتے۔‘

ایسے ہی ایک مقدمے کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ وزیرآباد کے قریب 2011 میں مسیحی خاتون آسیہ بی بی کی نوعیت کا مقدمہ سامنے آیا تھا جسے ٹرائل کورٹ ہی نے چھ ماہ کے اندر اندر ختم کر دیا تھا۔

سابق وزیرِ قانون علی ظفر کے اندازے کے مطابق ایسے مقدمات کی شرح چالیس سے بچاس فیصد ہے جن کا فیصلہ ماتحت عدالتوں ہی سے آ جاتا ہے اور ملزمان کو بری کر دیا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا عدالتی نظام انصاف کے حصول کے لیے تین درجے فراہم کرتا ہے یعنی ماتحت عدالت، ہائی کورٹ اور آخر میں سپریم کورٹ۔

تاہم ’اگر آسیہ بی بی جیسے مقدمات سپریم کورٹ تک پہنچ رہے ہیں تو ماتحت عدلیہ میں کہیں نا انصافی ضرور ہو رہی ہے۔‘

’نظام سے زیادہ مسئلہ تاخیر کا ہے‘

علی ظفر کا استدلال ہے کہ پاکستان میں ایسی نوعیت کے مقدمات میں کسی شخص کو انصاف حاصل کرنے کے لیے سپریم کورٹ تک جانے میں نظام سے زیادہ مسئلہ تاخیر کا ہے۔

’جب تک آپ سپریم کورٹ تک پہنچ جاتے ہیں۔ اگر یہی برق رفتار انصاف کی فراہمی ماتحت عدالتوں میں ہو تو پھر وہ ظلم شاید صرف دو یا تین سال کا ہو، سترہ سال کا نہ ہو۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اگر اعدادوشمار کا جائزہ لیا جائے تو محض الزامات کی بنیاد پر جیلوں میں بند افراد کی تعداد بہت زیادہ ہے۔

وہ کہتے ہیں ’آپ دیکھیں تو جہاں جیل کے ایک سیل میں ایک آدمی ہونا چاہیے وہاں دس دس لوگ سو رہے ہیں۔‘ اس کی وجہ عدالت میں ان کی اپیلوں وغیرہ کے فیصلوں میں تاخیر ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32545 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp