گلگت بلتستان کے لئے بلدیاتی نظام کا مجوزہ خاکہ


گلگت بلتستان پاکستان کی آئینی حدود سے باہر واقع ہے۔ یہ کوئی باقاعدہ صوبہ تو نہیں مگر یہاں وفاق پاکستان کا نمائندہ گورنر موجود ہے۔ وزیر اعلیٰ بھی ہے اور برائے نام ہی سہی ایک عدد قانون ساز اسمبلی بھی ہے۔ ساتھ ساتھ یہ خطہ ریاست پاکستان کے ماتحت ایک انتظامی یونٹ بھی ہے۔ گلگت بلتستان پاکستان کی 7 انتظامی اکائیوں میں سے ایک یونٹ ہے۔ یہ صوبہ نما انتظامی اکائی 3 ذیلی یونٹس میں تقسیم ہے جنہیں انتظامی اصطلاح میں ڈویژن کہا جاتا ہے۔ 3 ڈویژن کو مزید انتظامی سہولیات کے لئے 10 اضلاع میں تقسیم کر رکھا ہے۔ 10 اضلاع کے اندر 30 سے زائد تحصیلیں اور سب ڈویژن بنے ہوئے ہیں۔ ایک تحصیل سب سے نچلی انتظامی اکائی یعنی مختلف یونین کونسلز پر مشتمل ہوتی ہے۔

2009 میں پیپلز پارٹی حکومت کی جانب سے ایک صدارتی حکم نامے کے تحت یہاں قانونی و انتظامی اصلاحات عمل میں لائی گئیں۔ پہلی دفعہ گورنر، وزیر اعلیٰ کے عہدے تخلیق کیے گئے۔ ناردرن ایریاز کونسل کو قانون ساز اسمبلی کا درجہ دیا گیا۔ تاہم ایک اہم ادارے کی کمی شدت سے محسوس کی جاتی ہے کہ پیپلز پارٹی اور بعد ازاں مسلم لیگ ن کی وفاقی و صوبائی حکومتوں نے یہاں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد میں دلچسپی نہیں دکھائی۔ شہری حکومت جیسے اہم ادارے کی تشکیل دونوں جماعتوں کے سیاسی مزاج کے عین مطابق ان کی ترجیحات میں شامل نہیں رہے۔ یہاں آخری بار مقامی حکومتوں کے الیکشن 2004 میں ہوئے۔ 2008 کے بعد سے بلدیاتی حکومتوں کا وجود نہیں ہے۔

مقامی حکومت کی ضرورت اور اہمیت و افادیت پر گزشتہ اظہاریئے میں تفصیلی روشنی ڈالی گئی تھی۔ گلگت بلتستان چونکہ پورا دیہی علاقہ ہے۔ تمام انتظامی یونٹس یعنی اضلاع دور افتادہ اور دشوار گزار علاقوں پر پھیلے ہوئے ہیں۔ لہٰذا یہاں مقامی حکومتوں کا وجود اور زیادہ ضروری ہو جاتا ہے۔ گلگت بلتستان میں ایک مضبوط اور قابل عمل بلدیاتی سسٹم نا گزیر ہے۔ خطے کے جغرافیہ، مختلف اضلاع و علاقوں میں آبادی کا تناسب، انتظامی حرکیات و ضروریات کے مشاہدے کے بعد ہم نے گلگت بلتستان کے لئے ”مقامی حکومتوں کے نظام کا ایک خاکہ“ وضع کرنے کی کوشش کی ہے۔

اس مقصد کے لئے ہم نے گلگت بلتستان لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2014 (جس کی کوکھ سے آج تک کسی نظام، انتخاب یا مقامی حکومت نے جنم نہیں لیا) کا مطالعہ کیا۔ پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے رواں سال پنجاب میں منظور شدہ پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2019 کو بھی دیکھا جبکہ گلگت بلتستان (ناردرن ایریاز) کے ماضی کے لوکل باڈیز نظام کا بھی بغور مشاہدہ کیا۔ دنیا میں اب گورننس کے ماڈل جدت اختیار کر چکے ہیں۔ ڈیولیشن آف پاور (اختیارات کی تقسیم) جمہوری معاشروں کا ایک مسلمہ اصول بن چکا ہے۔ لہٰذا ہم گلگت بلتستان کے لئے بھی ایک مفید اور متحرک بلدیاتی سسٹم تجویز کرتے ہیں۔

بلدیاتی ادارے اور براہ راست انتخابات:

گلگت اور سکردو شہر میں ”سٹی کونسل“ کی تشکیل کی تجویز ہے۔ ”سٹی میئر“ اس کا سربراہ ہو۔ ضلع گلگت اور ضلع سکردو کے علاوہ دیگر اضلاع میں ہیڈکوارٹر ایریاز کے لئے ایک ایک ”میونسپل کونسل“ کے قیام کی تجویز ہے۔ میونسپل چیرمین (یا ناظم) اس کی قیادت کرے۔ ضلع کونسل اور ڈسٹرکٹ چیرمین کے عہدے ختم کرنے اور تمام اختیارات تحصیل اور یونین کونسل سطح پر منتقل کرنے کی تجویز ہے۔ تحصیل ناظم، تحصیل کونسل، میونسپل چیرمین، میونسپل کونسل اور یو سی چیرمین، یونین کونسل پر آنے والے سطور میں روشنی ڈالی جائے گی۔

یہاں یہ تجویز زور دے کر دوں گا کہ سٹی میئر، میونسپل چیرمین (یا میونسپل ناظم)، تحصیل ناظم (یا چیرمین) اور چیرمین یونین کونسل کا انتخاب براہ راست ہو۔ یعنی سکردو شہر کے باسی اپنے شہر کا نظم و نسق چلانے کے لئے براہ راست میئر چنیں۔ اسی طرح ہر ضلع کے ہیڈکوارٹر ایریا کے باسی اپنے لئے میونسپل چیرمین بلا واسطہ منتخب کریں۔ تحصیل ناظم اور یو سی چیرمین کا انتخاب بھی براہ راست ہو۔ اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ سسٹم سادہ اور فعال ہو گا کیونکہ نظام جتنا پیچیدہ ہو گا اسے چلانے میں دقت پیش آئے گی۔

بلا واسطہ منتخب نمائندہ چونکہ بھرپور عوامی مینڈیٹ کا حامل ہوتا ہے لہٰذا سیاسی طور پر مضبوط ہوتا ہے۔ وہ کسی قسم کی بلیک ملینگ میں نہیں آئے گا، فلور کراسنگ کا مسئلہ ختم ہو گا، اراکین کی بولیاں نہیں لگیں گی۔ منتخب میئر، ناظم اور چیرمین یکسوئی سے اپنا کام کر سکیں گے۔ بلدیہ کے اراکین لابنگ کرنے اور ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کی بجائے اپنی اصل ذمہ داریوں کو دیکھنے پر مجبور ہوں گے کیونکہ بلا واسطہ منتخب سربراہ حکومت (بلدیہ) کے خلاف لابنگ بے سود رہے گی۔

سٹی کونسل اور سٹی میئر:

گلگت بلتستان میں دو شہر آباد ہیں گلگت اور سکردو۔ دونوں کثیر الآبادی شہروں کا نظم و نسق بہتر انداز میں چلانے کے لئے ایک مضبوط بلدیاتی ڈھانچہ نا گزیر ہے۔ چونکہ شہر کا انفراسٹرکچر دیہی علاقوں سے مختلف ہوتا ہے۔ یہاں کے مسائل بھی الگ ہیں اور وسائل بھی جدا۔ لہٰذا ضلعی کونسل اور تحصیل کونسل سے ہٹ کے شہروں کا بلدیاتی نظام تشکیل دیا جاتا ہے۔ گلگت بلتستان کے دونوں شہروں میں بلدیاتی سسٹم کے تحت ”سٹی کونسل“ کا نظام متعارف کرایا جانا چاہیے۔

شہری حکومت ایک میئر کی سربراہی میں شہر کا نظام چلائے۔ ماضی میں بالواسطہ منتخب چیرمین شہر کی بلدیہ کونسل کا سربراہ ہوتا تھا۔ مگر اب پنجاب اور خیبر پختونخوا کے بلدیاتی قوانین کی طرز پر یہاں بھی شہری حکومت کا سربراہ براہ راست عوام کے ووٹوں سے منتخب کیا جانا چاہیے۔ مثال کے طور پر میئر سکردو کو اپنے انتخاب کے لئے دیگر ممبران کا وسیلہ لینا نہ پڑے بلکہ سکردو شہر کے عوام خود اپنے ووٹوں سے براہ راست اپنے شہر کا ایڈمنسٹریٹر چنیں۔ اسی طرح شہر کی حلقہ بندی کرتے ہوئے سٹی کونسل کے وارڈز بنائے جائیں۔ ہر وارڈ سے منتخب ایک ایک رکن شہری حکومت یعنی سٹی کونسل کا حصے بنے۔

میونسپل کونسل اور میونسپل چیرمین:

ضلع گلگت اور سکردو کی ”سٹی کونسل“ کے متبادل کے طور پر دیگر اضلاع کے ہیڈکوارٹر ایریاز کے لئے ”میونسل کونسل“ کے قیام کی تجویز ہے۔ یعنی ضلع گلگت اور ضلع سکردو میں مقامی حکومت کا نظام 3 حصوں پر مشتمل ہو گا۔ سٹی کونسل (شہر کے لئے )، تحصیل کونسل ( سکردو، گلگت شہر کے علاوہ ان ضلعوں کی ہر تحصیل میں ) اور یونین کونسل۔ بعینہ سکردو اور گلگت اضلاع کے علاوہ باقی ضلعوں میں بھی 3 تہہ پر مشتمل مقامی حکومت کا سسٹم تشکیل پائے گا۔ میونسپل کونسل (ہیڈکوارٹر ایریا کے لئے )، تحصیل کونسل (ہیڈکوارٹر ایریا کے علاوہ باقی ہر تحصیل میں ) اور یونین کونسل۔

گلگت اور سکردو کے ٹاؤن ایریاز کے منتظم اعلی میئر کہلائیں گے تو دوسرے اضلاع کے ہیڈکوارٹر ایریاز کے لئے میونسپل چیرمین (بلدیہ ناظم بھی کہہ سکتے ہیں ) منتخب کیے جائیں گے۔ میونسپل چیرمین بھی بلدیاتی علاقے کے عوام کے براہ راست ووٹوں سے منتخب ہو گا۔ ضلعے کے میونسپل ایریا کو مختلف انتخابی وارڈز میں تقسیم کرتے ہوئے میونسپل کونسل کا ”الیکٹورل کالج“ تیار کیا جائے گا۔ یعنی میونسپل ایریا کے ہر وارڈ سے ایک ایک ممبر منتخب ہو کر بلدیہ کونسل میں نشست سنبھالے گا۔ یوں براہ راست عوامی ووٹوں سے منتخب با اختیار میونسپل چیرمین مختلف وارڈز سے منتخب اراکین کونسل کے ساتھ ملکر حکومت چلائے گا۔

تحصیل کونسل اور تحصیل ناظم:

ہماری یہ تجویز ہے کہ ڈسٹرکٹ کونسل کا ادارہ مکمل ختم کیا جائے۔ ڈسٹرکٹ چیرمین کے عہدے کو قصہ پارینہ گردانتے ہوئے تمام اختیارات تحصیل سطح پہ منتقل کیے جائیں۔ اگر ارباب اقتدار لوگوں کے بنیادی مسائل واقعی ان کی دہلیز پر حل کرنا چاہتے ہیں تو اختیارات گراس روٹ لیول تک پہنچانے ہوں گے۔ ایک ضلع کثیر آبادی پر مشتمل اور وسیع رقبے پر پھیلا ہوتا ہے۔ مثلًا شگر کا ضلعی ناظم (یا چیرمین) شگر سینٹر میں بیٹھ کر اروندو کے معاملات کیسے دیکھے گا؟ ضلع ناظم کھرمنگ دیوسائی سے متصل داپا کتیشو سے لے کر بھارت کی سرحد سے متصل گنگنی تک کا انتظام سنبھالے؟ یہ ڈیولیشن آف پاور نہیں کہلا سکتا۔

ضلع گلگت سے قانون ساز اسمبلی کے تو 3 ممبرز منتخب کیے جائیں لیکن پورے ضلع کے بلدیاتی اختیارات کو ایک ہی ڈسٹرکٹ چیرمین (یا ضلع ناظم) کے حوالے کر دیا جائے تو یہ ”اختیارات کی تقسیم“ کے اصول کے برخلاف ہے۔ اختیارات نچلی سطح تک منتقل ہوتے اور استعمال ہوتے نظر آنے چاہئیں۔ پنجاب اور پختونخوا میں بھی یہی سسٹم رائج ہونے جا رہا ہے۔ کیونکہ 5 ارکان قومی اسمبلی اور 14 ارکان صوبائی اسمبلی رکھنے والے ضلع پشاور کا نظم و نسق اور شہری حکومت کی اتھارٹی ایک فرد واحد (ناظم) کو سونپ دینا الٹا اقدام ہوتا۔

تحصیل ناظم کا انتخاب اور تحصیل کونسل کی تشکیل:

ایک ضلعے کے اندر واقع ہر تحصیل (یا سب ڈویژن) کے لئے ایک طاقتور اور با اختیار ناظم کا انتخاب براہ راست کیا جائے۔ یعنی ناظم عوام کے ووٹوں سے بلا واسطہ منتخب ہو، اسے اپنے انتخاب میں کونسل ممبران سے اعتماد کا ووٹ لینے کی حاجت ہی نہ ہو۔ (تحصیل ناظم کو تحصیل چیرمین کا نام بھی دیا جا سکتا ہے ) جہاں تک تحصیل کونسل کے ڈھانچے کی بات ہے تو متعلقہ تحصیل (یا سب ڈویژن) کے تمام یو سی ناظمین پر مشتمل کونسل قائم کی جائے۔

براہ راست عوامی مینڈیٹ لے کر آنے والا تحصیل ناظم تحصیل کونسل کا سربراہ ہو گا۔ اسی تحصیل میں شامل تمام یونین کونسل کے براہ راست منتخب چیرمینز تحصیل کونسل کے ممبران ہوں گے۔ اس طرح تحصیل ناظم تمام اراکین کونسل کے ساتھ ملکر علاقے کی تعمیر و ترقی کے لئے کمر بستہ ہو جائے گا، بجٹ بنا سکے گا اور لوگوں کے مسائل اسی علاقے میں بیٹھ کر حل کرے گا۔ یونین کونسل کے براہ راست منتخب چیرمینز کی تحصیل کونسل کی رکنیت تحصیل اور یونین کونسل میں پل کا کردار ادا کرے گی۔

دونوں مقامی حکومتوں کے درمیان موثر ربط پیدا ہو گا۔ ورکنگ ریلیشن شپ قائم ہو گی۔ چونکہ اس سسٹم میں ڈسٹرکٹ کونسل اور ڈسٹرکٹ چیرمین کا وجود ہی نہیں لھذا علاقے کے انتظامی نظم ونسق کو تحصیل ناظم اور اس کی ٹیم یعنی یونین کونسل کے چیرمین حضرات ملکر چلائیں گے۔ یہ مقامی حکومت کے اختیارات بھرپور طریقے سے انجوائے کر سکیں گے۔ با اختیار منتخب نمائندے ثابت ہوں گے اور مستقبل کے لئے سیاسی قیادت بھی تیار ہو جائے گی۔

یونین کونسل کی تشکیل:

یونین کونسل لوکل گورنمنٹ کا انتہائی گراس روٹ ادارہ ہے۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا کہ چیرمین یونین کونسل کا الیکشن براہ راست ہو۔ ہر یونین کونسل کی آبادی کو مد نظر رکھتے ہوئے 5 سے 8 ممبران منتخب کیے جائیں۔ یو سی ممبران کا انتخاب دو طریقوں سے کیا جا سکتا ہے۔ اول یہ کہ فرض کریں ایک یو سی کونسل 6 ممبران پہ مشتمل ہے تو الیکشن نتائج میں پہلے 6 نمبر پر آنے والے امیدواران ممبر منتخب تصور ہوں گے۔ پوری یو سی سے ڈائریکٹ منتخب چیرمین متعلقہ یونین کونسل کی سربراہی کرے۔

یوں براہ راست منتخب یوسی چیرمین ایک طرف بطور تحصیل ممبر تحصیل کونسل میں اپنی یوسی کی نمائندگی کرے گا تو دوسری جانب اپنی یونین کونسل کے فنڈز کی تقسیم اور منصوبہ بندی یو سی ممبران کے ساتھ ملکر بنائے گا اور ہمہ وقت یونین کے معاملات و مسائل پر نگاہ رکھے گا۔ یوسی ممبران کے انتخاب کا دوسرا طریقہ پینل کا طریقہ ہے۔ یعنی پارٹی یا پینل کی بنیاد پہ الیکشن کرایا جائے۔ ہر پارٹی یا پینل پہلے سے ہی اپنے امیدواروں کی ترجیحی لسٹ الیکشن کمیشن کو دینے کا پابند ہو۔ پارٹی یا پینل کو پڑنے والے ووٹ کے تناسب سے اس کی ترجیحی لسٹ کے مطابق امیدوار منتخب تصور کیے جائیں۔ مگر ہم سمجھتے ہیں کہ اول الذکر طریقہ ء انتخاب بہتر اور عام فہم ہے۔ یعنی ووٹرز پینل یا پارٹی کی بجائے امیدوار کو ووٹ دیں۔

مخصوص نشستیں اور ان کا انتخاب

سٹی کونسل، میونسپل کونسل، تحصیل کونسل اور یونین کونسل تمام ہی اداروں میں خواتین، نوجوانوں اور مزدور/ کسانوں کے لئے ایک ایک نشست مختص کی جانی چاہیے۔ یعنی ہر کونسل میں 3 مخصوص نشستیں ہوں۔ مخصوص سیٹوں پر انتخابات بھی دو طرح سے منعقد کیے جا سکتے ہیں۔ اول براہ راست جداگانہ طریقہ انتخاب، مثلاً سٹی کونسل میں نوجوانوں کی مخصوص ایک سیٹ پر صرف نوجوان امیدوار مقابلہ کریں۔ براہ راست ووٹنگ کے ذریعے مخصوص سیٹ پُر کی جائے یعنی میئر کی مانند مخصوص سیٹ کے لئے بھی پورا شہر حلقہ ء انتخاب ہو۔

اسی طرح خواتین اور مزدور/کسان کی سیٹیں بھی براہ راست مگر جداگانہ طریقے کے تحت پُر کی جائیں۔ دوسرا طریقہ پینل یا پارٹی سسٹم ہے۔ یعنی جس گروپ کو پورے شہر (تمام وارڈز میں مجموعی طور پر) میں پاپولر ووٹ زیادہ ملیں اسی گروپ کی نامزد خاتون، نوجوان اور مزدور/کسان امیدوار کونسل کے لئے منتخب تصور ہوں۔ سٹی کونسل کی طرز پر دیگر کونسلات میں بھی مخصوص نشستوں پر براہ راست یا پینل سسٹم انتخابات ہوں۔

یہ ہم نے گلگت بلتستان میں مقامی حکومتوں کے نظام کا ایک جامع خاکہ تیار کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ پروپوزل گورنر سمیت حکومتی ارکان تک پہنچایا جائے گا۔ پی ٹی آئی سمیت مختلف پارٹی رہنماؤں کے ساتھ گفت ونشت کی جائے گی۔ یہ کوئی حتمی مسودہ نہیں۔ فی الحال ایک پروپوزل ہے۔ بہتری کی گنجائش ہر جگہ ہر چیز میں رہتی ہے۔ 2020 گلگت بلتستان میں صوبائی انتخابات کا سال ہے۔ سیاسی جماعتوں کو بلدیاتی نظام اور انتخاب کو بھی اپنے انتخابی منشور کا حصہ بنانا ہو گا۔ پی ٹی آئی سمیت کوئی بھی سیاسی پارٹی اگر اس پروپوزل کو درخور اعتنا سمجھتی ہے تو لوکل گورنمنٹ سسٹم کا یہ خاکہ حاضر ہے۔ استفادہ کیجئے۔

مقامی حکومتوں کے مجوزہ اختیارات کو ہم اگلے کالم میں قلمبند کریں گے۔

ڈاکٹر سکندر علی زرین

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر سکندر علی زرین

سکندر علی زرین کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے۔ ماس کمیونیکیشن کے پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ گزشتہ دس برس سے جیو نیوز سے بطور ایسوسی ایٹ اسائنمنٹ ایڈیٹر منسلک ہیں۔ گلگت بلتستان کے اخبارات کے لیے رپورٹنگ کرتے ہیں اور کالم بھی لکھتے ہیں۔ سیاست، تاریخ، اردو ادب، ابلاغیات ان کے پسندیدہ میدان ہیں

sikander-ali-zareen has 45 posts and counting.See all posts by sikander-ali-zareen