اور پھر عذاب ٹل گیا


چنار روڈ پر گاڑیوں کا جم غفیر تھا۔ ٹریفک جام، تیز ہارن اور سڑک پر قیامت کا ریہرسل۔ ہم نے گامی اڈا جانا تھا۔ کچھوے کی سی رفتار سے ہم بند کھو پہنچے تو بری حالت ہو چکی تھی۔ کانوں کی مہیب گہرائی تک پاں پاں کی گونج اتر کر دماغ کا رخ کر چکی تھی۔ وہیں سے ٹرن لیا اور واپس آ کر لنک روڈ پر ہو لیے۔ افراتفری، ہارن، شور غوغا اور قیامت کی تصویر وہیں چھوڑ کر ہم اب ایک گلی میں مڑ چکے تھے۔ وہ جنتی گلی تھی۔ جہاں خوشبوؤں سے معطر ہوا کے دو جھونکے آئے ایک ناک کے نتھنوں سے ٹکراتا ہوا اندر گھس گیا جب کہ دوسرا چہرے پر ٹکرا کر پاش پاش ہو گیا۔

گلی میں دونوں جانب مختلف دکانیں تھیں۔ جہاں زیادہ تر عورتوں کی ضروریات زندگی سے متعلق اشیا تھیں۔ گلی میں زرق برق اوڑھنیاں اوڑھے، مختلف النوع لبادو ں میں دنیاوی حوروں کی کثرت اور انہیں تاڑتے مشٹنڈوں کی بہتات تھی۔ یعنی صنف نازک تو تھیں ہی صنف کرخت بھی وافر مقدار میں موجود تھی۔ پیکر شوخ و چنچل خود سے بے نیاز آنا جانا کر رہے تھے۔ کچھ دعوت نظارہ دے رہے، تو کچھ نظروں کو کھٹا کر رہے تھے۔ کچھ عفیفائیں ایسی بھی تھیں جن پر بورڈ لگا ہونا چاہیے تھا کہ ”ابھی زیر مرمت ہیں۔ “ خیر ہم آگے بڑھتے گئے۔

شام کا وقت تھا۔ روشنی دریچوں سے پھلانگ کر باہر گلی میں رقص کر رہی تھی۔ خوش نما چہرے ان روشنیوں میں اپنی رنگینیاں شامل کر کے اسے خوبصورت بنا رہے تھے۔ ہم نے موٹر بائیک وہیں کھڑی کر کے آگے بڑھنے کا سوچا۔ کوئی جا نظر نہ آرہی تھی جہاں بائیک کے پاؤں لگائیں اور خود مٹر گشت کرتے مطلوبہ مقام تک پہنچیں۔ اچانک گلی کے وسط میں مسجد کے دروازے پر نظر پڑی جہاں باہر لوگوں نے کچھ موٹر سائیکل کھڑے کر رکھے تھے۔ ہم بھی وہاں بائیک کھڑی کرنے بڑھے تو مسجد سے نمازی نکل رہے تھے۔

غالبا نماز عصر کی ادائیگی کے بعد لوگ نکلے تھے۔ ہم بائیک کھڑی کر رہے تھے جب مسجد سے دو لوگ باہر آئے۔ ایک باریش تھے یعنی لمبی ڈاڑھی والے جب کہ دوسرے کے چہرے پر ڈاڑھی کا مقام بالوں سے ڈھکا ہوا تھا، جو گلی میں طائرانہ نگاہ ڈالتے ہوئے اپنے باریش ساتھی کی بات کا جواب ”ہوں ہاں“ میں دے رہے تھے۔ باریش شخص اپنی پشاوری چپل درست کر رہے تھے کہ بولے : توبہ استغفار۔ کیسے لوگ ہیں۔ جہنم جانے کا سامان کر رہے ہیں۔ وہ دیکھو، وہ کیسے عورتوں کو تاڑ رہے ہیں۔ توبہ استغفار۔

وہ اپنی جوتیاں درست کر چکنے کے بعد بولے :چھوٹی سی گلی ہے۔ اس میں عورتوں کا کیا کام؟ پھر بولے :چلو عورتیں تو ضرورت سے آتی ہیں۔ یہ مرد لوگ کا کیا کام۔ یہاں ماؤں بہنوں کو تاڑتے ہیں۔ یہ سب جہنمی ہیں۔ اور وہ دوسرے صاحب اب بھی آنکھوں کو ٹھنڈا کرتے ہوئے ان کی ہاں میں ہاں ملا رہے تھے۔ میں نے چاہا کہ کچھ کہہ دوں۔ پھر خیال گزرا جنتی گلی میں ایک جہنمی، اس جنتی بزرگ کو کیا کہے گا؟ اگر کچھ کہہ بھیدوں تو بھلا اچھا لگے گا؟

انہوں نے مجھ پر ہی فتوی تھونپ دیا تو؟ ہم آگے بڑھنے ہی والے تھے کہ بزرگ کی نظریں ادب سے پر بچھائے راستے پر کھڑی ہوگئیں۔ اسی لمحے ایک خاتون وہاں سے گزریں تو باریش شخص کے لبوں سے ماشا اللہ کا ہیولا نکل کر اڑتا دیکھا۔ ان کی نگاہوں نے گلی کی نکڑ تک اس خاتون کو پہنچایا اور واپس آئیں تو زمین نے ان کے قدم چھوڑ دیے۔ اب وہ چلنے لگے تھے، ہاں چلتے ہوئے انڈر گارمنٹس کی دکانوں کے شوکیس دیکھنا نہ بھولے اور نہ ہی وہاں موجود عورتوں کو دیکھنا اور استغفار کا ورد بھولے۔

اب گناہ گاروں کے بیچ وہ نیک شخص زیر لب کچھ منمناتے، ہاتھ میں پکڑی تسبیح کا دانہ پھیرتے اور ساتھ ہی مسالے کے طور درس بھی دے رہے تھے۔ وہ آگے ہم ان کے پیچھے تھے۔ ان کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ اب وہ بدنظری و بے پردگی پر روشنی ڈال رہے تھے۔ ساتھ والے صنف کرخت، معصوم کلیوں کا سر تا پا جایزہ لیتے ہوئے ان کی ہاں میں ہاں ملا رہے تھے۔ ایسے میں وہ شخص گویا ہوئے : اس مسجد میں آنے والے نیک لوگوں کی وجہ سے یہ گلی بچی ہوئی ہے ورنہ اس پر عذاب آجاتا۔ دیکھا تم نے اس گلی میں کیسی بے پردگی و بے حیائی ہے۔ اس وقت وہ شخص ”نگاہوں کو جھکاؤ“ بھول چکے تھے۔

ہم مسکراتے ہوئے ان سے آگے نکل گئے کہ مبادا یہ نیک شخص گلی سے نکلیں اور اس جنتی گلی میں کسی جنتو کی وجہ سے عذاب آگیا۔ اور ہم یہیں پھنس کر رہ گئے تو؟ ہم نے تیز قدم اٹھاتے نیک شخص کو وہیں چھوڑا اور خود آگے بڑھ گئے۔

اب ہم گامی اڈا کے قریب ایک کمپیوٹر کی دکان میں گھس گئے تھے کہ ہم نے لیپ ٹاپ کی بیٹری خریدنی تھی۔ وہ نیک شخص جنتی گلی سے گزرتے ہوئے ہم جہنمیوں کووہیں چھوڑ کر گاڑیوں اور لوگوں کے جم غفیر میں گم ہو گئے۔ عذاب ٹل چکا تھا۔ کہ نیک لوگ جہاں سے گزریں وہاں سے آفتیں ٹل جایا کرتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).