گریٹ گیم میں گوادر کی اہمیت


  منظر یہ ہے کہ اوبار(One Belt,One Road) چین کی معاشی برتری کا خواب ہے جس پر ٹریلین ڈالرز کی لاگت آنی ہے۔ اوبار کا ایک بنیادی جزو سی پیک(CPEC) ہے۔ سی پیک کی بنیاد گوادر پورٹ ہے۔ پہلے گوادر کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر گوادر پورٹ کی اہمیت جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
گوادر کی کہانی یوں توصدیوں پرانی ہے مگر تفہیم کی خاطر ایک مختصر جائزہ لازم ٹھہرتا ہے۔ 1780 کے ابتدائی عشرے میں سلطان مسقط نے اپنے چھوٹے بھائی بوسعید کو ملک بدر کیا تو وہ گرتے پڑتے خان آف قلات میر نصیر خان نوری کے پاس پہنچا۔ نصیر خان نوری نے کسی عسکری امداد کی بجائے بوسعید کو گوادر بندرگاہ کی آمدنی اس شرط پر عطا کی کہ جب تک وہ بلوچستان میں ہے اسی سے گزارہ کر لے۔ بوسعید نے چند سال بعد اپنے بھائی کا تختہ الٹ دیا لیکن گوادر کا قبضہ چھوڑنے کو تیار نہ ہوا۔ کچھ عرصہ بعد میرنصیر نوری نے اپنی بیٹی سلطان خاتون کی شادی لسبیلہ کے سردار جام غلام شاہ سے کی تو گودار بندرگاہ سلطان خاتون کو جہیز میں دے دی۔ جام غلام شاہ نے گوادر بندرگاہ واپس لے لی۔ 1790 کے درمیانی عشرے میں سلطان مسقط نے دوبارہ گوادر پر قبضہ کر لیا۔ یہ قبضہ جام میر خان نے چھڑایا۔ انگریز نے بلوچستان پر قبضہ کرنے کے بعد گوادر بندرگاہ والی مسقط کو ایک بار پھر سونپ دی۔ قیام پاکستان سے لے کر 1958 تک گوادر سلطنت اومان و مسقط کی عملداری میں ہی تھا۔ 8 ستمبر 1958 کو پاکستان کے نے گوادر کو تیس لاکھ ڈالر کے عوض سلطنت اومان و مسقط سے خرید لیا۔ جولائی 1977میں گوادر کو بلوچستان کے ضلع کی حیثیت دے دی گئی۔

بلوچستان کی ساحلی پٹی 778 کلومیٹر طویل ہے جو پاکستان کے ساحل کا 80 فیصد حصہ بنتا ہے۔ یہ پٹی مشرق کی جانب حب سے شروع ہوتی ہے اور مغرب میں ایران کی سرحد تک جاتی ہے۔ اس پٹی پر حب، گڈانی، بیرا، طاق، کلمت، اورماڑہ، بسول ، پسنی، سور، کھپر، ڈامب، بندداری اور جیونی واقع ہیں۔ اس پٹی پر ماہی گیروں کی کم ازکم تیس سے اوپر بستیاں آباد ہیں جن میں کم و بیش چالیس سے پینتالیس ہزار افراد ماہی گیری سے وابستہ ہیں۔ اس پٹی میں گوادر اپنی بندرگاہ کی وجہ سے بہت اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ گوادر کی اپنی صورت حال مگر انتہائی مخدوش ہے۔ آپ کے علم میں ہو گا کہ 1998 کے بعد سے ملک میں مردم شماری نہیں ہوئی جو کہ ہر دس سال بعد ہونی تھی۔ پاکستان بیورو آف اسٹیٹسٹکس کے مطابق 1998 میں گوادر کی کل آبادی 185498 تھی۔ گزشتہ انیس سالوں میں آبادی میں کتنا اضافہ ہوا اس کی تفصیل موجود نہیں ہے۔ سرکاری اعدا و شمار کے سالانہ 1.6 فیصد کی بڑھوتری کا فارمولہ لگایا جائے تو گوادر کی موجودہ آبادی کو 241871 ہونا چاہیے۔ گوادر کا سب سے بڑا مسئلہ پینے کے پانی کا ہے۔ 2012 میں ہی17000 ایکڑپر مشتمل انکرا کور ڈیم، جو گوادر سے پچیس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور پینے کے پانی کا واحد بڑا ذریعہ تھا، خشک ہونے کے قریب تھا جبکہ ایکسپریس ٹریبیون کے 7جولائی 2012 کے شمارے کے مطابق انکرا کور ڈیم خشک ہو چکا تھا۔ 2012 میں پانی کی ضرورت 36 لاکھ گیلن تھی جبکہ فراہمی 13 لاکھ گیلن تھی۔ 2016 کے فروری میں تو صورت حال اتنی ابتر ہو گئی کہ پاکستان نیوی کو باقاعدہ ریلیف بنیادوں پر اپنے جہازوں کے ذریعے کراچی سے گوادر تک دس ہزار ٹن صاف پانی لانا پڑا۔

توانائی کی صورت حال کچھ اس طرح ہے کہ بیشتر آبادی ایندھن کے لئے آج بھی لکڑی اور مٹی کے تیل کا استعمال کرتی ہے جبکہ روشنی کے لئے لالٹین استعمال ہوتے ہیں۔ بجلی محدود آبادی کو میسر ہے۔ گو اس سال وزیراعظم پاکستان نے بتایا کہ 300 میگا واٹ کا ایک کول پاور پلاٹ زیر تعمیر ہے جو گوادر اور بلوچستان کی بجلی کی ضرویات کو پورا کرے گا۔ تعلیم پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ گوادر کی شرح خواندگی کا تناسب(پڑھنا لکھنا جاننا) 25 فیصد ہے۔ خواندگی کو مزید تحلیل کر کے دیکھیں تو صورت حال یوں ہے کہ پرائمری(29.35) فیصد، سیکنڈری(16.62)فیصد، انٹرمیڈیٹ(5.31) فیصد، گریجویٹ(2.90) فیصد، اور پوسٹ گریجویٹ تعلیم یافتہ افراد کی تعداد(0.88) فیصد ہے۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل (25 الف) کے مطابق ریاست کے لئے لازم ہے کہ وہ پانچ سال سے سولہ سال کے بچوں کو مفت اور ضروری تعلیم مہیا کرے۔ اس تناظر میں ذرا ایک نظر سرکاری تعلیمی اداروں پر بھی ڈال لیتے ہیں۔ تحصیل گوادر میں سرکاری پرائمری سکولوں کی کل تعداد 81 ہے (مردانہ58،  زنانہ 23)۔ مڈل سکولوں کی تعداد 8 (مردانہ 4، زنانہ 4)۔ ہائی سکولوں کی تعداد 7 ہے(مردانہ 6، زنانہ 1) جبکہ تحصیل گوادر میں ایک ڈگری کالج اور ایک ٹیکنیکل ٹریننگ کالج ہے۔ اسی سال گوادر یونیورسٹی کا افتتاح ہو چکا ہے اب دیکھتے ہیں کہ صورت حال کب تک بدلتی ہے۔ ویسے تو ہمیں یاد ہے کہ 2006 میں پاکستان ریلوے نے اعلان کیا تھا کہ گوادر کو ریل سے جوڑنے کے لئے ایک منصوبہ موجود ہے جس پر 75 بلین روپے کی لاگت آئے گی۔ معلوم نہیں آج کل شیخ رشید صاحب کے مشاغل کیا ہیں اور جناب شوکت عزیز صاحب کہاں پائے جاتے ہیں۔

صحت کے شعبے کو دیکھا جائے تو پورے ضلع میں اس وقت ایک ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال(DHQ) موجود ہے۔ 23بنیادی مرکز صحت(BHUs) ہیں۔ ایک ٹی بی کلینک، تین زچہ و بچہ مراکز (MCH) ہیں۔ یاد رہے کہ ضلع گوادر پانچ تحصیلوں گوادر، پسنی، اورماڑہ، جیونی اور سنتسار پر مشتمل ہے۔ یاد رکھنے والی بات یہ بھی کہ بلوچستان میں ڈاکٹر اور مریض کا تناسب (1:1000) کا ہے۔ 1996 کے اعداد و شمار کے مطابق ڈاکٹر اور مریض کا تناسب (1:14300) جبکہ اس وقت بنیادی مراکز صحت کی تعداد 17 تھی۔ جبکہ استاد اور شاگرد کا تناسب (1:1980) تھا جبکہ اس وقت پرائمری سکولوں کی تعداد 170 تھی۔ ان اعداد و شمار کے مطابق اب آبادی کو تعلیم اور صحت کے مراکز پر تقسیم کر کے تناسب نکال لیجیے اور اندازہ لگائیے بلکہ ہمیں بتا دیجیے کہ ہمارے حکمران گوادر کی مقامی آبادی کی ترقی کے بارے میں کتنے سنجیدہ ہیں۔

بلوچستان کے باسیوں کا ایک نعرہ’ساحل اور وسائل‘ کو یوں تو ہمارے ارباب اقتدار و مقتدر حلقے’چند سرداروں‘ کی بے جا ضد کا نام دے کر اصل تصویر کو دھول میں اڑانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں مگر تصویر سے گرد صاف کر کے دیکھنے والے جانتے ہیں کہ اصل تصویر کس قدر بھیانک ہے۔ البتہ یہ امیدیں قائم ہیں کہ اگر سی پیک بننا ہے تو گوادر کی صورت حال یہ نہیں رہ سکتی۔ دیکھنا صرف یہ ہو گا کہ ہمارے حکمرانوں کو گوادر پورٹ اورگوادر انڈسٹریل زون سے نکل کر دیہی علاقوں میں عوام کی فلاح و بہبود کا خیال کب آتا ہے؟

اب دیکھتے ہیں کہ گوادر پورٹ اہم کیوں ہے۔ گوادر پورٹ کی سب سے پہلی خصوصیت تو یہ ہے کہ یہ قدرتی طور گہرے پانی(Deep Sea) کی بندرگاہ ہے۔ عام طور پر بندرگاہوں کو سمندر میں نیچے گہرا کرنے کے لئے کھدائی کی جاتی ہے مگر گوادر ان چند بندرگاہوں میں سے ایک ہے جو گہرے پانی میں واقع ہے۔ قریب کی دوسری بندرگاہوں سے اگر مقابلہ کر کے دیکھا جائے تو ان کی سمندر میں گہرائی عموماَ نو یا دس میٹر ہوتی ہے۔ ان میں کراچی (9/10)، چاہ بہار (11)، بندرعباس(9/10)، جبل علی (15/16)، اومان (10)، دمام (9)، دوحہ (11/12) گہرے ہیں جبکہ گوادر (17/18) گہری ہے۔ بندرگاہوں میں دوسری بڑی ضرورت یہ ہوتی ہے کہ اس کے لئے سمندر میں ہتھوڑے کے سرے (Hammerhead) جیسی جگہ مصنوعی طریقے سے بنانی پڑتی ہے تاکہ سمندری پانی کا کٹاﺅ روکا جا سکے جبکہ گوادر میں یہ ہیمر ہیڈ بھی قدرتی طور پر بنا ہوا ہے(جدول نمبر 1)۔ گوادر کی تیسری بڑی خصوصیت اس کا تزویراتی محل وقوع (Geostrategic Location) ہے۔ گوادر خلیج اومان اور خلیج فارس کی تمام بندرگاہوں کے سرے پر واقع ہے۔ اس زون میں اومان، مسقط، دوبئی، عجمان، قطر، بحرین، سعودی،کویت، عراق اور ایران کی کم و بیش ساٹھ بندرگاہیں ہیں جن میں چاہ بہار، بندر عباس، اومان، دوبئی، جبل علی،پورٹ خلیفہ، شاہ عبداللہ ، دمام، ودحہ، شویک اور ام قصر وغیرہ شامل ہیں۔ چین اور مشرقی ایشیا سے مغرب کی طرف جاتے ہوئے گوادر ان تمام بندرگاہوں کے سرے پر واقع ہے۔ (جدول نمبر2)

چین 2001 سے ایک معاشی پالیسی (Go West) پر کاربند ہے۔ چین کے مغربی صوبے شانچی (Shaanxi)، اورمچی (Urumqi)، قورغاس ( Khorgas)، سینکیانک (xinjiang) ایک تو معاشی لحاظ سے بہت پسماندہ تھے ، دوسرے شدت پسندی نے بھی جنم لینا شروع کر دیا تھا اور تیسرے یہ چین کو سینٹرل ایشیا سے ملانے کا راستہ تھا۔ چین نے اپنے مغربی حصے میں 2001 سے تقریباَ 320 بیلین ڈالر کے میگا پراجیکٹس شروع کر رکھے ہیں۔ ، سینکیانک ہی سے چین گوادر تک آئے گا۔ چونکہ سی پیک کی بنیادی اکائی گوادر بندرگاہ ہے اس لئے چین کے لئے یہ ایک (Game Changer) کی حیثیت رکھتا ہے۔ چین تائیوان کے قریب اپنے جنوب مشرقی ساحلوں سے اگر مسقط تک، ملاکا سے ہوتے آتا ہے تو اسے 4600 ناٹیکل میل سے زیادہ کا فاصلہ طے کرنا پڑے گا۔ جبکہ گوادر سے یہ فاصلہ 208 ناٹیکل میل بنتا ہے (جدول نمبر3)۔ ادھر چین کو کاشغر سے گوادر تک 2700 سے 3000 کلومیٹر کا زمینی فاصلہ طے کرنا پڑے گا ۔ اسی راستے کا نام سی پیک ہے۔ مگر سی پیک صرف راستہ نہیں ہے۔ یہ ہائی ویز، موٹرویز، ریل، تیل اور گیس کے پائپ لائنوں کا ایک جال ہے۔ یہ سب کچھ گوادر پورٹ کے گرد گھوم رہا ہے۔ سی پیک 45.69 بلین ڈالر کا منصوبہ تھا۔ جس میں حال ہی میں 5.5 بیلین ڈالر کا مزید اضافہ ہوا ہے جو لاہور، کراچی ریلوے لائن کے لئے ہے۔ 33.79 بیلین ڈالر توانائی کے لئے ہیں۔ 5.9 بیلین ڈالر سڑکوں کے لئے ہیں۔ 3.69 بیلین ڈالر ریلوے لائنزکے لئے ہیں۔ 66 ملین ڈالر گوادر پورٹ کے لئے ہیں۔ 4 ملین ڈالر فائر آپٹکس کے لئے ہیں۔ گوادر پورٹ اور گوادر کول پلانٹ کے علاوہ سی پیک میں گوادر کے لئے کیا ہے؟ اس پر راوی ابھی خاموش ہے۔


مکمل سیریز

سی پیک کیا ہے اور گریٹ گیم کیا ہے؟

گریٹ گیم میں گوادر کی اہمیت

سی پیک منصوبہ: یہ ہاتھی کس کروٹ بیٹھے گا؟

سی پیک کو کالاباغ کون بنا رہا ہے؟

ظفر اللہ خان
Latest posts by ظفر اللہ خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر اللہ خان

ظفر اللہ خان، ید بیضا کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ زیادہ تر عمرانیات اور سیاست پر خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ، فاٹا، بلوچستان اور سرحد کے اس پار لکھا نوشتہ انہیں صاف دکھتا ہے۔ دھیمے سر میں مشکل سے مشکل راگ کا الاپ ان کی خوبی ہے!

zafarullah has 186 posts and counting.See all posts by zafarullah

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments