عمران خان نے انیس سو انتالیس کے میونخ کا حوالہ کیوں دیا؟


اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں وزیرِاعظم پاکستان کی تقریر کے باقی مندرجات پر تو پاکستانیوں کا ردِعمل ملا جلا رہا لیکن کشمیر کے مسئلہ پر ہم ہوئے، تم ہوئے کہ میر ہوئے، کپتان کی تقریر کے سب اسیر ہوئے۔ تقریر کے آخری دس منٹ بہت اہم تھے جس میں انہوں نے کشمیر کے مسئلہ پر عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کی ایک شاندار کوشش کی۔ اس تقریر میں عمران خان نے سنہ انیس سو انتالیس کے میونخ کا حوالہ دیا۔ یہ ایک بہت اہم حوالہ ہے اور اس کا سیاق و سباق جاننا ضروری ہے۔ عمران خان کے الفاظ یہ تھے :

I feel we are back in 1939; Munich. Czechslovakia has been taken. Will the world community appease a fascist or will it stand up for justice and humanity?

ترجمہ: ”مجھے لگتا ہے کہ ہم 1939 کے میونخ میں ہیں۔ چیکوسلواکیا لیا جا چکا ہے۔ کیا عالمی برادی ایک جابر کو خوش کرے گی یا انصاف اور انسانیت کا ساتھ دے گی“۔

انیس سو انتالیس کے میونخ میں کیا ہوا تھا، چیکوسلواکیا کس نے لے لیا تھا، فاشسٹ کو خوش کرنے سے کیا مراد ہے اور اَسی سال پرانے اس قصے کا آج کے کشمیر سے کیا تعلق ہے؟

پہلی جنگِ عظیم جیتنے کے بعد اتحادی افواج نے ٹریٹی آف ورسائیلز میں جرمنی پر بہت سخت پابندیاں عائد کیں تا کہ اسے جنگ سے باز رکھا جا سکے اور جنگ میں اتحادی ممالک کو جو مالی نقصانات ہوئے، ان کا ازالہ کیا جا سکے۔ لیگ آف نیشنز کا قیام بھی عمل میں لایا گیا تا کہ باہمی جھگڑے بیٹھ کر حل کیے جا سکیں۔ لیگ آف نیشنز شروع میں تو بہت فعال رہی اور کئی عالمی تنازعات حل کیے لیکن آہستہ آہستہ یہ غیر فعال ہوتی گئی حتیٰ کہ انیس سو تیس کی دہائی میں یہ بالکل ہی غیر اہم رہ گئی۔

جاپان نے چین کے علاقہ منچوریا پر قبضہ کیا، دنیا خاموش رہی کیونکہ جاپان اس وقت ایک سپر پاور تھا اور کوئی ملک اس سے لڑنا نہیں چاہتا تھا۔ مسولینی کا ایتھوپیا کے ساتھ پھڈا چل رہا تھا اس پر فرانس اور برطانیہ نے ایک خفیہ معاہدہ کیا کہ ایتھوپیا کا دو تہائی حصہ اٹلی کو دے دیا جائے۔ حالانکہ مسولینی ایک فاشسٹ حکمران تھا لیکن فرانس کو خدشہ تھا کہ کہیں مسولینی ہٹلر سے نہ جا ملے تو اسے خوش رکھ کر اپنا اتحادی بنایا جائے۔

تیسرا رہائین لینڈ کا مسئلہ تھا۔ یہ فرانس اور جرمنی کے درمیان ایک علاقہ ہے اور ٹریٹی آف ورسائیلز میں یہ طے ہوا تھا کہ اس علاقہ میں کوئی ملک اپنی فوج نہیں بھیجے گا تاکہ دونوں ملکوں کی فوجیں ایک دوسرے سے دور رہیں۔ لیکن مختلف حیلوں بہانوں سے ہٹلر نے ادھر بھی فوجیں اتار دیں۔ اس پر بھی لیگ آف نیشنز اور اس وقت کی سپر پاورز نے صرف زبانی جمع خرچ سے کام لیا اور ہٹلر کا راستہ روکنے کے لیے عملی طور پر کوئی ٹھوس قدم نہ اٹھایا ہٹلر کے حوصلے بڑھ گئے۔ آسٹریا نامی ایک ملک تھا اور جنگِ عظیم اول کے فاتحین نے پابندی لگائی تھی کہ آسٹریا اور جرمنی آپس میں اتحاد نہیں کر سکتے۔ اس معاہدے کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے ہٹلر نے فوجیں آسٹریا میں اتار دیں اور قبضہ کر لیا۔ اس پر بھی لیگ آف نیشنز اور عالمی طاقتوں نے فقط مذمت پر اکتفا کیا۔

اب آتے ہیں چیکوسلواکیا اور میونخ کی طرف۔ سوڈٹن لینڈ نامی علاقہ جو کہ چیکوسلواکیا کا حصہ تھا، ادھر بہت کثیر تعداد میں جرمن آباد تھے۔ ہٹلر کی بڑھتی ہوئی طاقت سے متاثر ہو کر سوڈٹن لینڈ کے نازیوں نے خودمختاری کا اعلان کر دیا۔ برطانیہ اور فرانس نے چیکوسلواکیا کو مشورہ دیا کہ اس سے جان چھڑاؤ اور یہ علاقہ دے دو ہٹلر کو۔ چیک حکومت نہ مانی یوں ایک جھگڑا کھڑا ہو گیا۔ ہٹلر نے سخت بیانات دیے، جنگ وغیرہ کی دھمکی دی۔ قصہ مختصر، برطانوی و فرانسیسی وزرائے اعظم نے میونخ میں ہٹلر سے ملاقات کی اور اسے کہا کہ بھائی یہ علاقہ تمہی رکھ لو بس ہم سے جنگ نہ کرنا۔ سال انیس سو اڑتیس ہے، مہینہ یہی ستمبر اور تاریخ یہی اٹھائیس۔ چھ مہینوں بعد، مارچ انیس سو انتالیس میں ہٹلر نے باقی ماندہ چیکوسلواکیا پر بھی قبضہ کر لیا۔

اوپر بیان کیے گئے جو واقعات ہیں وہ تاریخ میں برطانوی وزیراعظم کی پالیسی آف اپیزمنٹ یعنی ہٹلر کو خوش کرنے کی پالیسی کے طور پر، اور دوسری جنگ عظیم کی سب سے بڑی وجہ کے طور پر بیان کیے جاتے ہیں۔ چیمبرلین سمیت اس وقت کے دوسرے عالمی لیڈرز ہٹلر کو ایک ضدی بچے کی طرح بہلاتے رہے۔ ٹافی مانگی تو دے دی۔ ٹھنڈ میں آئس کریم کی فرمائش کی تو اس شرط پر لے دی کہ اب کسی بازاری چیز کو ہاتھ نہیں لگانا۔ بچے نے تھوڑی دیر بعد یخ کوک مانگ لی تو یہ سوچ کر لے دی کہ اگر نہ پلائی تو کمبخت گھر کے برتن توڑ دے گا۔

اس پالیسی کا مقصد کیا تھا؟ چیمبرلین جنگ نہیں چاہتا تھا اور اس کا خیال تھا کہ شاید تھوڑا بہت دے دلا کر ہٹلر اور مسولینی کی پیاس بجھائی جا سکتی ہے۔ اس لیے اس نے نہ صرف خود ہٹلر کی زیادتیوں سے صرفِ نظر کیا بلکہ اپنے حلیف ممالک، مثلا فرانس اور امریکہ، کو بھی مجبور کیا کہ وہ بھی ہٹلر کے خلاف کوئی عملی قدم نہ اٹھائیں۔ لیکن اس پالیسی کی وجہ سے ہٹلر کے منہ کو خون لگ گیا اور وہ سمجھ گیا کہ میں جو مرضی کر لوں، مجھے کچھ نہیں کہا جائے گا۔ اسی زعم میں اس نے پولینڈ پر حملہ کر کے انسانی تاریخ کی سب سے ہولناک جنگ کا آغاز کر دیا جس میں کروڑوں لوگ لقمہ اجل بن گئے۔ مورخین کہتے ہیں کہ اگر شروع میں ہی ہٹلر کی زیادتیوں پر سختی سے ردِعمل دیا جاتا تو شاید دوسری جنگِ عظیم روکی جا سکتی تھی۔

عمران خان نے دنیا کے سب سے بڑے فورم پردنیا بھر سے آئے مندوبین کو یاد دلایا ہے کہ یہ سنہ دو ہزار انیس کا امریکہ انیس سو انتالیس کا میونخ ہے۔ مودی نے پانچ اگست کوآج کے کشمیر یا اَسی سال پہلے کہ چیکوسلواکیا پر قبضہ کر لیا ہے لیکن عالمی طاقتیں یہ سوچ کر خاموش ہیں کہ شاید بات یہیں رک جائے۔ چیمبرلین (ٹرمپ) ہاؤڈی مودی جلسہ میں شرکت کرتا ہے۔ بل گیٹس فاؤنڈیشن مودی کو ایوارڈ دے رہی ہے۔ کیا اقوامِ متحدہ کی طرف سے کشمیر، فلسطین، یمن اور روہنگیا کو یہی پیغام دیا جا رہا ہے کہ دنیا کا سب سے قابلِ عزت ادارہ، انیس سو تیس کی دہائی کی لیگ آف نیشنز کی طرح اب غیر اہم ہو چکا ہے؟ عالمی تنازعات کیا باہمی گفت و شنید کی بجائے ظلم اور جبر سے طے کیے جانا ہی رواج پکڑے گا؟ دو ایٹمی طاقتیں ہیں، ایک تنازعہ ہے۔ عمران خان کے الفاظ میں : یہ ایک دھمکی نہیں بلکہ ڈر ہے کہ حالات کس نہج پہ جا رہے ہیں۔

ظلم رہے اور امن بھی ہو؟
کیا ممکن ہے، تم ہی کہو؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).