قندیل قتل کیس: مفتی عبدالقوی کا غیرت پر رسالہ لکھنے کا اعلان


مفتی عبدالقوی

صبح آٹھ بجے پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر ملتان کی سیشن کورٹ پہنچی تو سوچا کہ شاید جلدی پہنچ گئی ہوں کیونکہ قندیل قتل کیس کا فیصلہ تو نو بجے آنا تھا۔

پاکستان کی مقتول اداکارہ، ماڈل اور سوشل میڈیا سٹار قندیل بلوچ کے ساتھ سیلفیاں بنانے والے مفتی عبدالقوی 9 بجے سے پہلے ہی عدالت پہنچ گئے۔

جب میں نے انھیں دیکھا تو وہ غالباً کمرہ عدالت جس میں انھیں پیش ہونا تھا، میں اپنی حاضری لگا کر آرہے تھے۔ کچھ صحافیوں نے انھیں گھیر لیا۔

مفتی صاحب نے کہا ’ابھی تمام ملزمان عدالت نہیں پہنچے ہیں اس لیے فیصلہ 9 بجے کی بجائے 11 بجے سنایا جائے گا۔ اس لیے میں واپس جا رہا ہوں‘ اور یہ کہہ کر وہ وہاں سے چلے گئے۔

میں نے ان کا پیچھا کیا اور عدالت کے مرکزی گیٹ کے قریب انھیں روک کر ان سے چند سوالات پوچھے۔

یہ بھی پڑھیے

قندیل بلوچ کے مقدمۂ قتل میں بھائی محمد وسیم کو عمرقید

لوٹ آئی پاکستان کی ‘باغی’ قنديل بلوچ

قندیل بلوچ قتل اور مفتی عبدالقوی: کب کیا ہوا؟

مفتی صاحب خاصے مطمئن دیکھائی دیے۔ ایک سوال کے جواب میں کہا ’آج میں بری ہو جاوں گا تو ایک رسالہ لکھوں گا کہ غیرت کیا ہے؟ غیرت کے نام پر قتل کی شرعی حیثیت کیا؟ پاکستان کے اندر غیرت کے قانوں میں کی جانے والی تبدیلی درست ہے یا نہیں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ کوشش کروں گا کہ تین ماہ کے اندر ہی یہ رسالہ شائع ہو جائے۔

قندیل بلوچ

قندیل کی والدہ سے ملاقات

عدالت میں موجود تقریبا ہر صحافی یہ سوال پوچھ رہا تھا کہ قندیل کے والدین کہاں ہیں؟

میرے ساتھ کھڑی ایک صحافی بولیں ’وہ ادھر ہی عدالت میں کہیں چھپ کر بیٹھے ہیں کسی کو نہیں پتا کہ کہاں ہیں۔‘

کچھ دیر بعد میں کسی کام کے غرض سے عدالت کے گیٹ پر پہنچی تو گیٹ کے قریب قندیل کے فیملی وکیل سید صفدر شاہ ملے۔ وہ مجھے اور ایک میڈیا ٹیم کو قندیل کی والدہ سے ملوانے لے گئے۔

عدالت کی تنگ گلیوں میں سے گزرنے کے بعد ایک وکیل کے چیمبر میں پہنچے تو وہاں قندیل کی والدہ اکیلی بیٹھی تھیں۔ ہماری صحافی دوست نے ان سے حال احوال پوچھا، بات چیت شروع کی اور چند سوالات کیے جن کے جواب قندیل کی والدہ نے تسلی سے دیے۔

قندیل کی والدہ نے اپنے شوہر کی صحت کے بارے میں بتایا کہ وہ ٹھیک نہیں اس لیے آج نہیں آئے ہیں۔

قندیل کی والدہ

ایک سوال کے جواب میں کہنے لگیں کہ میں نے تو دیکھا ہی نہیں کسی کو قندیل کو قتل کرتے ہوئے اس لیے بیٹے کو معاف کررہے ہیں۔ پھر بولیں کہ بیٹی تو چلی گئی میرے بیٹے کو سزا نہ ہو۔

کچھ دیر بعد قندیل کا بھائی (جس کا نام مقدمے میں شامل نہیں) وہ بھی وہاں پہنچا اور اپنی والدہ اور وکیل سے کہنے لگا ’آپ لوگ کیوں ان سے بات کر رہے ہیں؟‘

وکیل صفدر شاہ اور والدہ بولیں کہ یہ تین سال سے آرہے ہیں ان کا ہمارے ساتھ تعلق ہے۔ جس پر قندیل کے بھائی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسی تعلق کی وجہ سے یہ مقدمہ خراب ہوا ہے۔

11 بجنے میں دس منٹ باقی تھے کہ سب لوگ وہاں سے اٹھے اور کمرہ عدالت کی طرف چل دیے۔

کمرہ عدالت کا احوال

کمرہ عدالت کے باہر لوگوں کا ہجوم تھا اور پولیس اہکار اس ہجوم کو کمرہ عدالت میں جانے سے روک رہے تھے۔ میں قندیل کی والدہ کے ہمراہ کمرہ عدالت میں داخل ہو گئی۔

کمرہ عدالت میں وکلا اور عدالتی عملہ موجود تھا۔ میں قندیل کی والدہ کے ساتھ ہی بیٹھ گئی۔ چند ہی لمحوں میں ملزمان کو پیش کر دیا گیا اور مفتی عبدالقوی بھی اپنے وکیل کے ہمراہ پہنچ گئے۔

میں نے قندیل کی والدہ سے گفتگو کی تو وہ بولیں کہ بیٹی کے قتل کا دکھ ہے مگر بیٹے کا بھی دکھ ہے۔

جج عمران شفیق آ کر اپنی کرسی پر بیٹھے تو میں اٹھ کر روسٹرم کے پاس جا کر کھڑی ہو گئی تاکہ فیصلہ سن سکوں۔ مفتی عبدالقوی صاحب پر نظر پڑی تو وہ مسلسل منہ میں کچھ پڑھ رہے تھے۔ شاید کوئی خاص دعا یا تسبیح۔

جج صاحب نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ محمد وسیم کو دفعہ 311 کے تحت عمر قید کی سزا سنائی جاتی ہے جبکہ استغاثہ دیگر ملزمان پر الزامات ثابت کرنے میں ناکام رہی ہے۔

قندیل کا بھائی وسیم

مقدمے کے ملزم محمد عارف کو اشتہاری قرار دے دیا گیا اور قندیل کے بھائی اسلم شاہین اور مفتی عبدالقوی سمیت پانچ ملزمان کو بری کر دیا گیا۔

فیصلہ سنتے ہی قندیل کی والدہ نے رونا شروع کر دیا اور مفتی عبدالقوی صاحب نے شکرالحمداللہ کہا۔

پولیس اہکار وسیم کو اپنے ساتھ کمرہ عدالت سے باہر لے کر جا رہے تھے تو قندیل کی والدہ نے روتے ہوئے کہا ’ہائے میرا وسیم، ہائے میرا بیٹا، مجھے ملوا تو دو میرے بیٹے سے۔‘

پولیس اہکاروں نے وسیم کو والدہ سے ملوایا اور وہ اپنے بیٹے کو گلے لگا کر روتی رہیں۔ چند ہی لمحوں میں پولیس اہکاروں نے وسیم کو اپنی طرف کھینچا اور اپنے ساتھ لے گئے۔

فیصلے کے بعد کے مناظر

قندیل کی والدہ کو ان کا دوسرا بیٹا اپنے ساتھ لے گیا جبکہ مفتی عبدالقوی کے حق میں چند نعرے لگائے گئے۔

کیس سے بری ہونے کے بعد مفتی صاحب کی خوشی دیدنی تھی۔ ان کے دوستوں اور حامیوں نے انھیں ہار پہنائے اور پھولوں کی پتیاں نچھاور کی۔

اس کے بعد مفتی صاحب نے پریس کانفرنس میں کہا ’آج تو وہ زمانہ یاد آ گیا جس میں ہم روہت ہلال کمیٹی کے ممبران چاند کی شہادتیں موصول کرتے ہیں اور شہادت نہ ملنے پر عید نہیں ہوتی۔‘

وسیم کے وکیل سردار محبوب نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حق نواز قندیل کا کزن بھی اس کیس میں شامل تھا لیکن اس کو ان ثبوتوں کی بنیاد پر بری کردیا گیا جن کی بنیاد پر وسیم کو سزا سنائی گئی ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ وہ وسیم کی رہائی کے لیے ہائیکورٹ سے رجوع کریں گے۔ تاہم بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے حق نواز نے کہا کہ انھوں نے قندیل کو قتل نہیں کیا۔

’مجھ پر الزام لگایا گیا کہ میں نے اس کا گلہ دبایا جبکہ میں تو وہاں موجود بھی نہیں تھا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32557 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp