افغان صدارتی انتخابات میں امیدواروں کی پوزیشن


28 ستمبر 2019 کو افغانستان میں صدارتی انتخابات منعقد ہورہا ہے جسمیں 16 امیدواران اپنے دو معاونین کے ساتھ حصہ لے رہے ہیں۔ موجودہ افغان صدر اشرف غنی بھی اس معرکہ میں شامل ہیں۔ 2014 کے صدارتی انتخابات میں اشرف غنی کے حریف اور موجودہ افغان چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ اس انتخابات میں بھی اشرف غنی کے مقابلے میں سب سے مضبوط امیدواروں میں شمار ہوتے ہیں۔ اس دفعہ عبداللہ عبداللہ کو مشہور ازبک کمانڈر جنرل دوستم کی پارٹی جنبش اسلامی، ہزارہ لیڈر عبدالکریم خلیلی کی حزب وحدت اور مشہور ہزارہ رہنما محمد محقق کی بھی حمایت حاصل ہے۔

ان کے دو معاونین عنایت اللہ فرہمند اور اسد اللہ سعادتی کا تعلق بالترتیب جنبش اسلامی پارٹی اور حزب وحدت پارٹی (خلیلی گروپ) سے ہے۔ یاد رہے کہ 2014 کے افغان صدارتی انتخابات میں اشرف غنی کو حزب وحدت پارٹی (خلیلی گروپ) اور جنرل دوستم کی جنبش اسلامی پارٹی کی حمایت حاصل تھی اور ہزارہ رہنما استاد محقق، ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے ساتھ کھڑے تھے۔ اس کے باوجود اشرف غنی نے عبداللہ عبداللہ کو بہت کم مارجن سے شکست دے دی تھی۔

عبداللہ عبداللہ نے 2014 کے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگائے تھے اور انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا۔ بعد میں بین الاقوامی میڈیا، بین الاقوامی مبصرین اور آزاد ذرائع نے بھی 2014 کے انتخابات کو دھاندلی زدہ انتخابات قرار دیا تھا لیکن امریکہ بہادر کی مداخلت سے اقتدار دونوں گروپوں میں ففٹی ففٹی کی بنیاد پر تقسیم کیا گیا اور عبداللہ عبداللہ کو چیف ایگزیکٹو کا عہدہ دیا گیا۔

اس دفعہ اشرف غنی کے معاون اول پاکستان مخالف اور سابقہ افغان انٹیلی جنس چیف امر اللہ صالح اور ہزارہ رہنما اور موجودہ افغان نائب صدر سرور دانش ہیں۔ یہ دونوں معاونین بہت کم عوامی حمایت رکھتے ہیں۔ ان دو امیدواروں کے علاوہ حزب اسلامی کے رہنما گلبدین حکمتیار جسے افغانستان کے عوام ’قصاب کابل‘ کے نام سے جانتے ہے، سابق این ڈی ایس چیف رحمت اللہ نبیل، مشہور تاجک کمانڈر احمد شاہ مسعود مرحوم کے بھائی احمد ولی مسعود اور بعض دوسرے غیر معروف اشخاص بھی صدارتی انتخابات میں میدان میں ہیں۔ لیکن افغان امور کے بین الاقوامی ماہرین کے مطابق اصل مقابلہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی کے درمیان ہوگا۔

افغانستان دنیا کے پیچیدہ ترین ملکوں میں سے ایک ہے۔ یہاں پر دنیا بھر کے ممالک اور انٹیلیجنس ایجنسیوں کی مداخلت صدیوں سے جاری و ساری ہے اس لیے ایسے ملک کے حوالے سے کسی بات کی پیشگوئی کرنا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ لیکن ایک بات واضح ہے کہ افغانستان کے عوام خصوصا ہزارہ، ازبک، تاجک اور پشتون قبائل کی ایک بڑی تعداد اشرف غنی اور امریکہ سے ناراض دکھائی دے رہی ہے۔

اشرف غنی کے گزشتہ 5 سالہ دور میں افغانستان میں سب سے زیادہ دہشت گرد حملے ہوئے۔ ان دہشت گردانہ حملوں سے افغان سیکیورٹی فورسز، عام عوام اور افغانستان کے تقریباً تمام علاقے بہت متاثر ہوئے۔ لیکن سب سے زیادہ متاثر افغانستان کا تیسرا بڑا نسلی گروہ ہزارہ ہوئے، جو تقریباً ہر ہفتے درجنوں لاشیں اٹھاتے احتجاج کرتے رہے تھے لیکن بعد میں نہ صرف ان کے احتجاجی دھرنوں بلکہ مساجد، اسکولز، کھیل کے میدان، حتیٰ کہ شادی ہالوں کو بھی نہیں بخشا گیا جس کی وجہ سے وہ اپنے گھروں میں محصور ہوکر رہ گئے ہیں۔ اس کے علاوہ افغان نائب صدر جنرل دوستم پر بھی کئی قاتلانہ حملے ہوئے لیکن وہ ہر بار ان قاتلانہ حملوں میں بال بال بچتے رہے۔

ہزارہ اور ازبک رہنماء مسلسل یہ الزام لگاتے کہ ان حملوں کے پیچھے اشرف غنی اور این ڈی ایس کا ہاتھ ہے۔ ابھی گزشتہ دنوں ہی افغان صدارتی امیدوار برائے معاون اول اور ریٹائرڈ افغان جنرل مراد علی مراد نے اپنے ایک انتخابی جلسہ میں برملا یہ کہا کہ جنرل دوستم پر قاتلانہ حملوں کی پلاننگ اشرف غنی اور افغان انٹیلی جنس نے کی تھی جسے انہوں نے ناکام بنا کر جنرل دوستم کی جان بچائی تھی۔

اس انتخابات میں ہزارہ، ازبک اور تاجک سیاسی پارٹیاں ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کی حمایت میں بھرپور مہم چلا رہی ہیں۔ مبصرین کا خیال ہے کہ ہزارہ، ازبک اور تاجک آبادی سے اشرف غنی کو 10 % سے بھی کم ووٹ پڑیں گے۔ دوسری طرف پشتونوں میں ووٹ دالنے کی شرح ہمیشہ کم رہی ہیں اور اس بار بھی بہت کم رہنے کی توقع ہے۔ قبائلی روایات کی رو سے ان کے ہاں خواتین میں ووٹ ڈالنے کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کے علاوہ طالبان نے بھی نہ صرف اس الیکشن کے بائیکاٹ بلکہ اسے سبوتاژ کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ طالبان کا زیادہ تر اثر و رسوخ پشتون علاقوں میں ہے اور اس کا برہ راست نقصان، اشرف غنی کو ہوگا۔ اشرف غنی کا مزید ووٹ بنک، گلبدین حکمتیار کے ہاتھوں خراب ہونے کا یقینی خدشہ بھی موجود ہے۔

ان تمام باتوں اور تجزیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ کہنا بعید از قیاس نہیں کہ اگر صاف، شفاف، آزادانہ اور منصفانہ انتخابات منعقد ہوئے تو ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کا پلڑا بھاری رہے گا ورنہ افغانستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ وہاں کچھ بھی ناممکن نہیں۔

کیا یہ انتخابات افغانستان میں امن لا سکتے ہیں؟

اب تقریباً افغانستان کی تیسری اور چوتھی نسل ہے جوجنگ میں پلی بڑھی ہے، شاید ہی کوئی ایسا افغان باقی بچا ہوجو جنگ سے متاثر نہ ہوا ہو یا جنگ و خونریزی کو اپنی آنکھوں کے سامنے نہ دیکھا ہو۔ امن و استحکام تمام افغانوں کی دیرینہ خواہش ہے لیکن ان کی ہمیشہ سے یہ بدقسمتی رہی ہے کہ امن کی چابی ان کے اپنے پاس نہیں رہی۔ جب تک بین الاقوامی اور علاقائی قوتیں ایک دوسرے کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے آپس میں مل بیٹھ کر سنجیدہ اور متفقہ کوششیں نہیں کرتیں اور اقتدار وہاں پر آباد تمام بڑی اقوام میں منصفانہ اور برابری کی بنیاد پر تقسیم نہیں ہوتا تب تک افغانستان اس خانہ جنگی کی آگ میں جلتا رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).