ساڈے تے نہ رہنا


پانچ اگست کو کشمیر میں بھارتی حکومت کی طرف سے لگایا جانے والا کرفیو تاحال جاری ہے۔ اب تک قریباً چالیس ہزار سے زائد مسلمان گرفتار کیے جا چکے ہیں۔ کاروبار زندگی معطل ہے۔ ذرائع ابلاغ پہ پابندی ہے۔ خوراک کی قلت پیدا ہو چکی ہے۔ اسی لاکھ انسان اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہو گئے ہیں لیکن اقوام عالم چپ ہیں کہیں بے چینی نہیں۔ سات ارب آبادی کی دنیا میں کہیں بھی ہلچل دکھائی نہیں دیتی۔ انسان دوستی کے اہم دعوے دار خاموش ہیں۔

انسان دوستی کا دعوی کرنے والوں کے ہاں تو جانوروں کے حقوق کے لئے بھی کام کیا جاتا ہے تو پھر اسی لاکھ مسلمان قیدی بن کے رہ گئے ہیں لیکن یہ خاموش کیوں ہیں؟ اگر کسی مسلم ریاست میں کسی جانور پر بھی ظلم ہورہا ہوتا تو اب تک اس ملک کے خلاف ایکشن لیا جا چکا ہوتا۔ لیکن چونکہ یہ ظلم بھارتی بنیا کررہا ہے اور ظلم مسلمانوں پر ہو رہا ہے لہٰذا یہ جائز ہے۔ بھارت میں ہندو انتہاپسند جانور کی تو پوجا کرتے ہیں لیکن مسلمانوں سے بغض رکھتے ہوئے یہ لوگ انسانیت کے درجے سے گر گئے ہیں اورمسلمانوں کو جانوروں سے بھی بدتر سمجھ رہے ہیں۔

کبھی وہاں گاؤ ماتا کی رکشا کے نام پر مسلمانوں کو قتل کیا جاتا ہے، کبھی گجرات کے مسلمانوں کو زندہ جلایا جاتا ہے تو کبھی مسلمان ہونے کے جرم میں لوگوں کو گلیوں بازاروں میں گھسیٹا جاتا ہے ان پر تشدد کیا جاتا ہے۔ یہ لوگ امن کا کون سا پیغام دے رہے ہیں؟ کیا یہ دہشت گردی نہیں ہے؟ اگر کسی مسلم ریاست میں کسی ایک غیر مسلم کے ساتھ بھی ایسا ہو جاتا تو سات ارب آبادی رکھنے والے کرہ ارض پر مسلمانوں کی طرف سے ڈھائے جانے والے ظلم پر ہر طرف سے لعن طعن کے نشتر چلتے، اقتصادی پابندیاں لگنے کی دھمکیاں مل چکی ہوتیں بلکہ اس ظلم پر معاشی دروازے بند ہی ہوجاتے۔

عالمی رابطے ختم کر کے اس مسلم ملک کو تنہا کر دیا جاتا۔ ابھی کل کی بات ہے جب پاکستان میں ایک بچی ملالہ پر سکول جاتے حملہ ہوا تھا۔ لیکن اغیار کی انسان دوستی اس قدر اعلیٰ مقام پر تھی کہ انسان دوستی کے علمبرداروں کے جگر چھلنی چھلنی ہو گئے تھے۔ اس بچی کو اس کے اپنے ہی ملک میں غیر محفوظ قرار دے کر اس کو دیار غیر میں محفوظ پناہ دے دی گئی کہ بچی کی جان کو خطرہ ہے۔ عراق کو اپنے دفاع کی خاطر جوہری ہتھیار رکھنے اجازت نہ ملی اور محض شبے میں عراق پر جنگ مسلط کر دی گئی۔

کہ امن والوں کو خدشہ تھا عراق جوہری ہتھیار استعمال کر کے انسانوں کو نقصان نہ پہنچادے۔ نائن الیون کا واقعہ ہوا تو پوری دنیا میں ہاہا کار مچ گئی۔ اور دہشت گردوں کے تعاقب میں افغانستان پر چڑھائی کر دی گئی۔ کسی ملک کی تیل کی تنصیبات پر حملہ ہوتا ہے تو سپر پاور اس ظلم کے خلاف کھڑی ہوجاتی ہے لیکن کشمیر میں اسی لاکھ انسانوں کے بنیادی حقوق پر حملہ ہوتا ہے لیکن انسانی حقوق کا شور ڈالنے والے خاموش دکھائی دیتے ہیں۔

کسی کا کوئی مذمتی بیان تک جاری نہیں ہوتا۔ بے گناہ لوگ مر رہے ہیں، سسک رہے ہیں، عصمتیں لٹ رہی ہیں لیکن سب خاموش تماشائی ہیں۔ کیا کشمیر میں رہنے والے مسلمانوں کو جینے کا کوئی حق نہیں؟ ہماری حکومت نے سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس کا بہت شور ڈالا تھا کہ جی اب تو سب حل ہو جائے گا لیکن کیا ہوا؟ وہی راگ سنادیا گیا جو برسوں سے الاپا جارہا ہے کہ دونوں ممالک اپنے معاہدے کی رو سے مسئلہ کشمیر کا پر امن حل تلاش کریں۔

اب سب کی نظریں اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی کے اجلاس پر ٹکی ہیں۔ اس اجلاس میں کشمیر کے مسئلے پر زیادہ سے زیادہ کچھ نہیں ہوگا۔ مقبوضہ وادی میں پانچ اگست کو شروع ہونے والے ظلم کا نیا سلسلہ کرفیو ابھی تک جاری ہے۔ بھارت سفاکی کی تمام حدیں پار کر چکا ہے۔ مقبوضہ وادی اس وقت دنیا کی سب سے بڑی جیل میں بدل چکی۔ آزادی مانگنے والوں سے ان کے بنیادی حقوق چھین لئے گئے ہیں۔ بچے بھوک سے بلک رہے ہیں ان کے لئے دودھ نہیں۔ بیمار ادویات نہ ملنے کے سبب تڑپ رہے ہیں۔

لیکن ثالثی کی پیش کش کرنے والے ٹرمپ نے کشمیر میں ہوتے مظالم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر چپ سادھ رکھی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھارت سرکار کی سرزنش تک نہیں کی۔ ان عالمی طاقتوں نے اگر کچھ کرنا ہوتا تو کر لیتے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ہم نے اب تک کیا کیاہے سوائے بیانات دینے کے۔ ہم کشمیر کے مسئلے پر بہت اچھے بیانات دے سکتے ہیں لیکن اس سے زیادہ کی توقع نہیں لگانی چاہیے کہ ایٹمی طاقت رکھنے والے واحد اسلامی ملک کے وزیر اعظم بہت دبنگ انداز میں دنیا کے ترلے ڈال رہے ہیں کہ خدا کا واسطہ ہمیں جنگ سے بچالو۔

وہ مہلک ہتھیاروں میں خود کفیل عالمی طاقتوں کو بتارہے ہیں کہ اگر جنگ ہوئی تو نقصان ہو گا۔ وزیر اعظم کا یہ بیان ان کے خوف کی عکاسی کرتا ہے یا پھر یہ وہ ثابت کرنے کی اپنی سی کوشش کر رہے ہیں کہ ہم پر امن لوگ ہیں اور ہم جنگ نہیں چاہتے۔ اگر وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ہم پر امن لوگ ہیں تو پچھلے انیس سالوں سے افغانستان کے خلاف جنگ میں امریکہ کا ساتھ دے کر بھی دنیا پر یہ ثابت نہیں کر سکے ہیں الٹا ہم نے دہشت گرد حملوں کو سہہ کر اس کا خمیازہ بھگتا ہے۔

وجہ جو بھی ہو بات وہی کہ ہم کشمیر کے بارے میں بہت اچھے بیانات دے سکتے ہیں۔ اور مستقبل میں اس سے زیادہ اچھے بیان دیں گے۔ اور ہم بس بیان ہی دے سکتے ہیں۔ وطن عزیز ہر سال پانچ فروری کو ”کشمیر بنے گا پاکستان“ کے فلک شگاف نعروں سے گونجتا ہے۔ سڑکوں پر بڑے بڑے بینرز بھی لگ جاتے ہیں۔ جہاں جہاں ممکن ہوتا ہے ”کشمیر ہمارا ہے“ یہ دیواروں پر لکھا بھی پڑھنے کو مل جاتا ہے۔ لیکن صرف نعرے لگانے سے، بیان دینے اور نیت نیک رکھنے سے کچھ نہیں ہوتا۔

جنگ تباہی ہے حل نہیں۔ لیکن ہمیں یہ بھی تسلیم کر لینا چاہیے کہ ہمارے پاس کوئی بھی حل نہیں ہے نہ جنگ نہ مذاکرات کہ جنگیں ہم کر کے دیکھ چکے۔ جن میں ناکامی کا سامنا رہا اور مذاکرات بھی اب تک کوئی کامیابی حاصل نہ کر سکے۔ مان لیں کہ ہم اس معاملے میں ناکام ہیں۔ اگر کوئی بھی حل ہمارے پاس ہوتا تو اب تک کشمیر آزاد ہو چکا ہوتا۔ خدارا کشمیریوں پہ رحم کریں انھیں اس غلط فہمی سے نکال دیں کہ پاکستان ان کے لئے کچھ کر سکتا ہے۔

پاکستان تو اپنے لئے کچھ نہ کر سکا اور اکہتر میں ملک دو لخت ہوگیا تھا۔ پاکستان اپنے چار صوبے سنبھال لے بڑی بات ہے۔ سو کشمیریوں پہ رحم کرتے ہوئے انھیں یہ بتا دینا چاہیے کہ وہ اپنی آزادی کی جنگ خود لڑیں ہم سے توقعات چھوڑ دیں۔ اس طرح وہ اپنی آزادی کی جنگ بہتر طریقے سے لڑ سکیں گے اور انشاءاللہ جلد کامیاب بھی ہو جائیں گے۔ جاگدے رہنا ساڈے تے نا رہنا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).