اچھی تقریریں یا اچھی تدبیریں؟


ایک لڑکا کسی سینما میں فلم دیکھنے کے بعد واپس جانے لگا تو راستے میں کتوں نے چیر پھاڑ کر رکھ دیا۔ جب ہوش آیا تو گھر والوں نے پوچھا کتوں نے کیسے کاٹا؟ لڑکا کہنے لگا میں سینما سے فلم دیکھ کر واپس آرہا تھا کہ گلی میں کسی مکان سے کتے نکلے جو مجھ پر ٹوٹ پڑے۔ گھر والے حیرت سے پوچھنے لگے کہ جب کتے تمہاری طرف آرہے تھے تو تم نے بھاگ کر جان کیوں نہیں بچائی؟ وہ لڑکا بولا ہاں! یہ بات درست ہے کتے بہت دور تھے میں بھاگ کر جان بچا سکتا تھا۔ مگر میں تازہ تازہ فلم دیکھ کر آرہا تھا جس میں ہیرو پر غنڈے کتے چھوڑتے ہیں تو ہیرو سینہ تان کر کھڑا ہوجاتا ہے۔ جیسے ہی کتے قریب پہنچتے ہیں ہیرو سب کتوں کے اپنی لاتوں اور مکوں سے منہ توڑ کر رکھ دیتا ہے۔ جب کتے میری طرف آرہے تھے تو میرے اندر کا ہیرو بھی جاگ گیا۔ میں نے بھی سوچا آج کتوں کو لاتوں اور مکوں سے مار مار کر بھگا دوں گا مگر کتے مجھ پر حاوی ہو گئے۔ یہ من گھڑت کہانی نہیں حقیقی واقعہ ہے۔

ہمارے نوجوان بلکہ بوڑھے بچے ، مرد عورت ہر عمر کے لوگ آج کل موٹیویشنل اسپیکرز کو کچھ زیادہ ہی سنا کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے مذہبی انتہاء پسندی بھی عروج پر ہے۔ قوم پرستی کا بیانیہ بھی بے لگام ہوچکا ہے۔ لسانیت بھی لاعلاج مرض کی طرح پھیلتی ہی جارہی ہے۔ کیونکہ یہ سب موٹیویشنل اسپیکرز کا بویا ہوا بیج ہے۔ آپ تجربہ کے طور پر صرف ایک ماہ تک لگاتار چند موٹیویشنل اسپیکرز کی تقریریں سنا کریں تو آپ خود کو اڑتا ہوا محسوس کرے گے۔ بلڈنگ کی چھت پر جاکر دونوں ہاتھ بلند کرکے سمجھنے لگے گے کہ آسمان کو میں نے اپنے ہاتھوں سے تھام رکھا ہے ورنہ آسمان گر جاتا۔ویسے بھی ملک کے آدھے سے زیادہ نوجوان موٹیویشنل اسپیکرز کی وجہ سے بیروزگار ہیں۔

یہ سب بتانے کا مقصد صرف یہی ہے کہ پاکستانی قوم انتہاء درجے کی جذباتی قوم ہے۔ اچھے مقررین ایسی جذباتی قوم کا رخ جس طرف موڑنا چاہیں موڑ سکتے ہیں۔ بڑے بڑے دانشور ، صحافی حضرات ، پروفیسرز اس مرض کا شکار ہیں۔ اوپر سے شخصیت پرستی نے سوچنے ، سمجھنے اور بات کا ہر طرح سے موازنہ کرنے کی صلاحیت سے محروم کر دیا ہے۔ شخصیت پرستی کے مرض میں مبتلا لوگ حقائق تک کبھی نہیں پہنچ سکتے۔ صحیح و غلط میں تفریق کبھی نہیں کرسکتے۔ مثال کے طور پر پی ٹی آئی دھاندلی کی سخت مخالف تھی مگر ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کے حلقے میں دھاندلی نہیں کمال دھاندلا ہوا ہے۔ کسی میں اخلاقی جرات نہیں کہ وہ پی ٹی آئی حکومت کی اس دھاندلی پر معذرت کرلے یا پھر کم از کم مذمت تو کرلے۔

جذباتی عوام قاسم سوری کی ریکارڈ دھاندلی کو یکسر نظرانداز کرکے عمران خان کی تقریر کو سراہتے پھر رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں خان صاحب نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے فورم پر بہت اچھی تقریر کی ہے۔ بہت سے صحافی حضرات عمران خان کی انگریزی کی تعریف کر رہے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے اسی فورم پر مودی نے اپنی زبان میں تقریر کی ہے۔ طیب اردگان اکثر اپنی زبان میں تقریر کرتا ہے۔ جبکہ ہمارے ہاں بہترین تقریر کا معیار اچھی انگریزی ہے۔ حالانکہ اکثر ممالک کے سربراہان بین الاقوامی سطح پر اپنی قومی زبان میں تقریریں کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ خیر قومی زبان کا چورن بیچنے کے بجائے ہم تقریروں سے کتنی تقدیریں بدلی ہیں پر بات کرتے ہیں۔ ایک تقریر ذوالفقار علی بھٹو نے بھی کی تھی۔ اگر اس تقریر کا عمران خان کی تقریر کیساتھ موازنہ کیا جائے تو کشمیر کا موقف جس دلیری سے بھٹو نے اٹھایا تھا عمران خان کے لہجے میں وہ کڑک نہیں تھی۔

اگر دوسرے پہلو پر بات کی جائے تو کیا نریند مودی اپنی اچھی تقریروں کی بدولت دنیا کو قائل کر رکھا ہے؟ حالانکہ بھارت نے کشمیر کی ریاستی حیثیت ختم کردی ، گذشتہ 53 دنوں سے کرفیو نافذ کر رکھا ہے اسکے باوجود دنیا کی سپر پاور طاقتیں بھارت کیساتھ کھڑی ہیں۔ کیا مودی بھی اچھی انگریزی بولتا ہے؟ وہ تو بین الاقوامی سطح پر بھی اپنی قومی زبان ہندی میں تقریر کرتا ہے۔

محض اچھی تقریروں سے تقدیریں اچھی نہیں ہوا کرتیں کچھ بنیادی و ضروری کام بھی کرنا پڑتے ہیں۔اچھی تقریر کا نشہ کسی جذباتی فلم کی طرح زیادہ دیر تک نہیں رہتا۔ اچھی پالیسیاں ہی ملکوں کی تقدیر بدلا کرتی ہیں۔ دنیا کے بڑے ممالک اس بات کو سمجھ چکے ہیں کہ ہمیں اب اچھے مقرر نہیں نہ ہی اچھے سیاستدان ہمیں اچھے مینیجرز چاہیے وہی دور حاضر کے معاشی میدان میں ملک کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔ چین ، روس ، جاپان ، اسرائیل یہ وہ ممالک ہیں جو معاشی اعتبار سے بہت مستحکم ہیں مگر ان ممالک کے سربراہان کا شمار اچھے مقررین میں نہیں ہوتا۔ کشمیر ایشو پر عمران خان کی تقریر قابل تعریف ضرور ہے مگر اس تقریر سے کشمیریوں کی زندگی میں بہتری آئے گی یا بھارت کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال کردے گا محض خواب ہے۔

دوسرا مسئلہ ہمارے حکمرانوں کا دوہرا معیار ہے۔ 2013 کے الیکشن میں دھاندلی ہوئی عمران خان دھاندلی کے خلاف سڑکوں پر نکل آیا مگر جو دھاندلی 2018 کے الیکشن میں ہوئی وہ عمران خان کو دھاندلی نہیں لگتی۔ جس کی تازہ مثال ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کے حلقے میں بدترین دھاندلی کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ عمران خان اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اتنے بڑے پیمانے پر ہونے والی دھاندلی کی مذمت ہی کردیں تو بڑی بات ہے۔ مگر ایسا نہیں ہوگا کیونکہ ہمارے حکمران دوہرے معیار کے مالک ہیں۔

تیسرا مسئلہ معاشی استحکام ہے۔ پی ٹی آئی حکومت کی معاشی پالیسیوں کا دارومدار عوام کے جیب خالی کرکے خزانہ بھرنا ہے۔ حیرت ہوتی ہے جس مہنگائی کے ایٹم بم کے خلاف عمران خان دھرنے دیا کرتے تھے وہی بم خود گرا دیا ہے۔ جس آئی ایم ایف کی طرف جانے کو خودکشی قرار دیا وہی زہر کا پیالہ اپنے ہاتھوں سے پی لیا۔ سو دن تک سابقہ ادوار کی ناکامیوں کی آڑ میں چھپنا بجا تھا۔ چھ ماہ کا وقت مانگنا بھی بنتا تھا۔ ایک سال کا دورانیہ بھی مناسب تھا۔

مگر سوال تو یہ ہے کہ کیا اس پوری مدت میں پی ٹی آئی حکومت سوائے مہنگائی اور آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کے کوئی معاشی پالیسی بھی لاسکی ہے؟ یقینا جواب نفی میں ہے۔ ہمارے سیاستدانوں کا المیہ ہے کہ الیکشن میں کچھ بولتے ہیں اور اقتدار میں آکر کچھ کرتے ہیں۔ شہباز شریف الیکشن کے دنوں زرداری کو لاہور کی سڑکوں پر گھسیٹا کرتے تھے اقتدار میں آنے کے بعد معافیاں مانگتے نظر آئے۔

یہی کچھ عمران خان کر رہا ہے یہ پانچ سال بھی گزر جائینگے۔ مگر یہ پانچ سال عمران خان کیلئے اس لئے بھی انتہائی مناسب ہیں کیونکہ تمام ادارے اور حکومت ایک پیج پر ہیں۔ صرف ایک پیج پر ہی نہیں بلکہ تمام ادارے حکومت کی ہر ممکنہ مدد بھی کر رہے ہیں جبکہ سابقہ ادوار میں حکومتوں کو اداروں کی شدید مخالفت کا سامنا تھا۔ پھر بھی پی ٹی آئی حکومت کا عوام کے جیب خالی کرنا، مہنگائی کے ایٹم بمب گرانا جبکہ معیشت بہتر ہونے کا نام نہیں لے رہی موجودہ حکومت کی اہلیت و صلاحیت پر سوالیہ نشان ہے۔

آخر میں کشمیر ایشو پر اتنا کہنا ہے کہ یقینا جنگیں مسائل کا حل نہیں ہوا کرتیں۔ مگر کچھ مسائل جنگوں سے ہی حل ہوسکتے ہیں۔ یہ وقت اچھی تقریروں کا نہیں ہے اگر پاکستان واقعی کشمیریوں کی مدد کرنا چاہتا ہے تو وزیراعظم کو کشمیریوں کی مدد کیلئے اپنی فوج بھیجنا ہوگی۔ اچھی تقریریں نہیں اب اچھی تدبیریں ہونی چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).