نوآبادیاتی عہد کا گمنام انقلابی سکول


نوآبادیاتی معاشیات، بشریات، تاریخ اور سماجیات جیسے علوم کو ہندوستان میں پھیلانے میں یہاں کے تعلیمی ڈھانچے کو کلیدی حیثیت حاصل رہی۔ یورپی تاریخ، لہجے، اقدار اور انداز سخن سیکھنے کے لیے سول سروس کا حصہ بننے والے ہندوستانی پیش پیش ہوتے۔ فاتحین کی زبان و ثقافت سکھنا اور نوآبادیاتی حکام کی تقلید کے لئے فرنگی تعلیمی اداروں کا کلیدی کردار رہا۔

کوئی بھی وژن، کسی سماجی نظام سے بڑھ کر اپنے حلقہ اثر میں مکمل بالادستی نہیں رکھتا۔ یورپ کی نوآبادیاتی لابیوں نے خفیہ سازش یا پھر مخصوص دیسی افراد کی اس انداز میں تیاری کی جس کے تحت وہ افراد سامراجی خدمت میں آگئے۔ سامراجیت کا تعلق نہ صرف تسلط اور غلبے سے ہے بلکہ یہ ایک مخصوص توسیع پسندانہ آئیڈیالوجی پر بھی کاربند ہے۔

اسی توسیع پسندانہ فلسفے کے تناظر میں جب ہندستانیوں کو محکوم بنانے کا عمل تیز سے تیز تر ہوتا چلا گیا اور یہاں کے معدنی اور مالی وسائل یورپی اقوام کو منتقل کیے جانے لگے تو مزاحمتی فکر کو پنپنے کا موقع میسر آیا۔ انگریز نوآبادکار دیسی ذہن پر یورپی چھاپ لگانے کی پالیسی پر عمل پیرا تھے اس کے لیے تعلیمی اداروں کا چناؤ کیا گیا۔ ان اداروں کے ذریعے سے یورپی تہذیب و تمدن کی افضلیت کا تصور ہندستان کے مخصوس طبقات کے ذہنوں میں راسخ کیا گیا، یہی طبقات بعد ازاں ہندستان کے بالاتر طبقات کا حصہ بنے جنہیں ہم رولنگ کلاس کہہ سکتے ہیں۔

سامراجیت پر مبنی تصورات کے ذیل میں برطانوی منصوبہ سازی پر آزادی پسند ہندستانیوں کی گہری نظر تھی، چنانچہ نوآبادکاروں کے تعلیمی منصوبوں کے خلاف جہاں دار العلوم دیوبند، جامعہ ملیہ اسلامیہ جیسے اداروں سے انقلابی رجال کار تیار ہورہے تھے وہیں پر ہر عہد میں نئے نئے انقلابی منصوبے بھی تشکیل دیے جارہے تھے جو دراصل انگریز کے استحصالی راج کے خلاف مزاحمتی فکر کی بنیاد بنے۔

انگریز راج کے خلاف مزاحمتی سوچ فرنگی تعلیمی اداروں میں بھی موجود تھی جس کا عملی اظہار سانحہ جلیانوالہ باغ کے بعد لاہور کے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج، پنجاب یونیورسٹی، گورنمنٹ کالج لاہور کے احتجاجی طلباء کی گرفتاریوں کی صورت ہوا جن کے نام بھی خارج کر دیے گئے۔ اس ضمن میں لاہور کے نیشنل کالج کا کردار ناقابل فراموش رہا۔ بریڈ لاء ہال میں قائم چار کمروں کے اس کالج کے قیام میں انقلابی فکر کا خمیر شامل تھا۔ اس کالج کے ساتھ ہی لالہ لاجپت رائے نے ایک اور سکول قائم کیا تھا جس کا نام تلک سکول آف پولیٹکس، لاہور تھا، یہ انقلابی سکول تاریخ کے گم شدہ اوارق کی طرح قصہ پارینہ ہوگیا۔

کانگرس نے 1921 ء میں ہندستان میں صوبوں کی سطح پر ایسے تعلیمی ادارے بنانے کی تجویز دی تھی جہاں سے آزادی کی تحریک کو تیز کیا جاسکے۔ ان اداروں کو چلانے کے لیے رضا کار اساتذہ بھرتی ہوئے، اس کام کے لیے کانگرس کمیٹی نے 75 ہزار روپے کا فنڈز مختص کیا تھا۔ فنڈز مختص کرنے کا مقصد طلباء کی مالی معاونت کرنا بھی تھا۔

تلک سکول آف پالیٹکس لاہور کو مئی 1921 ء میں پنجاب نیشنل کالج کے ساتھ ضم کر دیا گیا۔ تلک سکول کے تحت طلباء کو وظائف دیے جاتے جس کی نگرانی اس سکول کے ڈائیریکٹر لالہ لاجپت رائے کر رہے تھے۔ انگریزوں کے خلاف عدم تعاون کی تحریک نے جب زور پکڑا تو لالہ لاجپت رائے کو گرفتار کر لیا گیا اور کانگرسی رہنما بھائی پرمانند تلک سکول کے انچارج مقرر ہوئے اور وہ تلک سکول کے تحت نیشنل کالج میں طلباء کو لیکچر دیتے۔ یہ وہی نیشنل کالج تھا جہاں بھگت سنگھ جیسے انقلابی زیر تعلیم تھے۔

نیشنل کالج کے تحت انڈسٹریل سکول اور میڈیکل کالج بھی قائم کیا گیا جس کے کریکولم کی تیاری ڈاکٹر گوپی چند اور ڈاکتر ستیہ پال نے کی۔ بھگت سنگھ کو ڈی اے وی سکول لاہور (موجودہ اسلامیہ کالج سول لائنز لاہور) سے ڈراپ کر دیا گیا، پھر بھگت سنگھ نے اپنے دوست جئے دیو گپتا کے ہمراہ بی اے انٹرنس امتحان کی تیاری کے لیے نیشنل کالج میں داخلہ لیا تھا۔

تلک سکول اور نیشنل کالج کے طلباء اور اساتذہ کو منظم کرنے کے لیے نوجوان بھارت سبھا تنظیم بنائی گئی جس کا مقصد پنجاب میں انگریزوں کے خلاف مزاحمتی تحریک کو تیز کرنا تھا۔ نوجوان بھارت سبھا تنظیم کے اجلاس نیشنل کالج میں ہی ہوا کرتے تھے، اس تنظیم نے 1926 ء کے بعد لاہور میں عوامی سطح پر مباحثوں کا آغاز کیا، ان مباحثوں میں ہندستان سے محبت، ہندستانی مصنوعات کا استعمال، لٹریری موضوعات اور نوآبادیاتی عہد کے خلاف مزاحمتی فکر پیدا کیا جاتا۔ نیشنل کالج اور تلک سکول آف پالیٹکس کے مشترکہ پلیٹ فارم سے اس تنظیم سے متعلق عوامی سطح پر مثبت تاثر رکھنے کے لیے پراپیگنڈا سیکرٹری کی نشست رکھی گئی تھی جس کے سیکرٹری نیشنل کالج کے گریجویٹ بی سی ووہرا تھے۔

تلک سکول کا بنیادی مقصد ہی سیاسی کارکن تیار کرنا تھا۔ تلک سکول کا آئین لالہ لاجپت رائے کی کتاب انڈیا ول ٹو فریڈیم میں 1921 ء میں شائع ہوا تھا۔ سکول کے آئین کی دوسری شق میں لکھا ہے؛ تلک سکول آف پالیٹکس کا مقصد سیاست، اکنامکس، سوشیالوجی، سوشل سائیکالوجی، جرنلزم کے طلباء کو تعلیمی سہولیات فراہم کرنا ہے، یہ خود مختار ادارہ ہوگا جس کے تحت پولیٹیکل ورکرز کی تربیت کی جائے گی، سوشل سائنسز کے مضامین میں تحقیقی کام، مذکورہ مضامین میں دیسی زبانوں میں کتابوں کی اشاعت اور دوارکا داس لائبریری کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ سکول میں زیر تعلیم طلباء کو برطانیہ اور امریکا کی یونیورسٹیوں کی طرز پر ایکسٹینشن لیکچرز دیے جائیں گے۔

بورڈ آف ٹرسٹیز کے تحت چلنے والے اس سکول کے تحت طلباء کو خصوصی وظائف اور فیلو شپ دی جاتی جس کا مقصد سیاست اور معیشت کے امور کو سائنسی بنیادوں پر سمجھنے کے لیے ریسرچ ورک کرنا ضروری ہوتا۔ اس سیاسی سکول کے فنڈز کا 25 فیصد حصہ ایمرجنسی کے لیے مختص ہوا جبکہ بورڈ کے ممبران کو کوئی مالی معاونت نہیں دی جاتی تھی جبکہ تعلیمی سال کا آغاز جنوری سے ہو کر جنوری تک ہوتا۔

انگریزوں سے آزادی کی یہ تحریک طلباء میں منتقل کرنے کا یہ انقلابی تعلیم منصوبہ بالکل اُسی طرز کا تھا جس کی بنا 1857 ء کی جنگ آزادی کے بعد دار العلوم دیوبند سے رکھی گئی جہاں سے بعد ازاں شیخ الہند محمود حسن اور عبید اللہ سندھی جیسے انقلابی پیدا ہوئے۔ ہندستان میں انگریزوں کے خلاف آزادی کی اس تحریک میں جن جن افراد اور اداروں کی قربانیاں اور جدوجہد شامل رہی انھیں یاد کر کے خراج تحسین پیش کیا جانا ضروری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).