گل خان کی بہادری اور لومڑی کی دم!


\"barkat-kakar\"

جمعہ خان انقلابی المعروف جے کے انقلابی سے ہماری دوستی پرانی صحیح لیکن یہ دوستی اتنی بھی مضبوط نہیں ہے کہ آپ اسے پاک چین دوستی کا نام دیں ۔ کئی دفعہ لڑائیاں جھگڑے ہوئے ہیں ، متعدد دفعہ اپنے سگریٹ کی سالم ڈبیا اور چائے کی آدھی پیالی چھوڑ کے اور احتجاجی انداز میں ہوٹل کے کاونٹر پر بل کی ادائیگی کرکے وہ چلتے بنے ہیں۔ ہماری دوستی بس اُس لڑاکا، بد زبان اور باتونی جوڑے ( میاں بیوی) کے نکاح کی مانند ہے جس پر اگر طلاق ثلاثہ کے قواعد و ضوابط لاگو کیے جائیں تو اب تک درجن بھر دفعہ ہمیں حلالہ کرانا پڑ جاتا۔ خدا کا لاکھ شکر ہے کہ ہم میاں بیوی نہیں ورنہ تو ہمارے اس ٹوٹتے ، بنتے رشتے میں قاضی کے مستقل رزق و روزی کا اہتمام ہو جاتا۔ ظاہر اسی صورت میں تو ہمیں ایک سند یافتہ قاضی یا مفتی رکھنا پڑ جاتا اور قاضی کے لئے اتنا ہی مفید ہوتا جتنا کہ سی پیک پنجاب کے لئے۔ لیکن جے کی کی لڑائی اتنی بری بھی نہیں ۔ گوکہ ہماری ہر ملاقات لڑائی پر ختم ہوتی ہے، لڑائی میں پیل بھی کرتا ہے اور پھر میدان چھوڑ کر بھاگ بھی جاتا ہے۔ ہر جھگڑے کے بعد ایک نئے جھگڑے کی تاریخ اور جگے کا ازخود انتخاب کرلیتا ہے، پہلے ایس ایم ایس کرنے سے گھبراتا تھا اب بس اتنا لکھنے کی ہمت کر پاتا ہے کہ پشتو میں شارٹ کٹ لکھ دیتا ہے (6Re) ’‘چیری’ یعنی ‘کجا’ یا کہاں ہو ؟ میں اپنی موجودگی کا بتا دیتا ہوں پھر وہ لکھ دیتا ہے، جمعہ، شام پانچ بجے، سید ہوٹل۔

گذشتہ جمعے کو وہ اپنے وقت سے کوئی آدھ گھنٹہ پہلے پہنچ چکے تھے، ہمارے آنے تک کئی سگریٹ مرء ہوئے پتنگوں کی مانند ایش ٹرے میں اوندھے پڑے تھے۔ لمبے حال احوال اور خیر خیریت پوچھنے، طویل تکلف کے حق میں وہ پہلے سے نہیں۔ آج تو حد یہ ہوئی کہ چائے کا پوچھے یا آرڈر دیے بنا سیدھا پوچھا جناب گزشتہ ایک ہفتے میں کیا کیا پڑھ رکھا ہے، حساب دو؟ میں نے کہا یہ کیا بدمعاشی ہے ، سانس لینے دو، شطرنج کے کھیل کی طرح گفتگو کے لئے بھی سیانوں نے چند اصول طے کئے ہیں، فریقین کو ایک دوسرے کی بات نہ صرف سننی چاہئے بلکہ اسے سجھنے کی بھی ضرورت ہوتی ہے ۔ ویسے بھی دوستوں کی گفتگو میں چند باتیں ایسی ہوتی ہیں جو بعد میں چھیڑی جاتی ہیں، اور یہ تم نے تو کھڑے کھڑے التحیات پڑھنی شروع کردی، بیٹھ کر کیا پڑہو گے؟ جے کے نے صاف کہا کہ، میں تو بد تہذیب اور بونگا ہی سہی، اخلاقیات کی ضرورت ہوگی تمہیں۔ یہاں آکر بات پھر اٹک گئی۔ میں نے بھانپ لیا، کہ جے کے کا دل چاہ رہا ہے کہ آج میں ان کو سنوں، ان سے سوالات کروں ، اور تحمل سے ہاتھ تھوڑی کے نیچے رکھ کر اسکے نقطہ نظر کو من و عن سن لوں۔ میں نے سوچا کہ ویسے یہ ہے تو بڑی بے ضرر سی خواہش ہے ان کی، لہذا میں نے اپنی زرہ اتار دی، ڈھا ل پھینک دی اور تلوار ان کی انا کے آگے ڈال دی۔ میں نے پوچھا چلیں آج ہم آپ سے چند سوالات کرتے ہیں، دیکھتے ہیں کہ آپ کیا جواب دیتے ہیں۔ ریاکارانہ تبسم کو چھپائے بنا آگے ہوئے ۔ جی بسم اللہ۔ ایک منٹ ایک منٹ۔ ہلک کا۔ چھوٹو، دو انگلیاں ہوا میں لہرائیں اور فلم ڈائرکٹر کی طرح انگلیوں کے اوپر دو دفع اپنے دوسرے ہاتھ کی ہتیلی زور سے مسلی، جس کا مطلب بقول ان کے کڑکدار دودھ پتی چائے کا آرڈر ہے۔

میں پوچھا، جناب آپ کے خیال میں سی پیک کیا ہے؟

امم، توقف کے بولے ! جی سی پیک سرمایہ دارانہ ارتکاز کے سمندر سے سے اٹھنے والا وہ بلبلہ ہے جس کی حقیقت بلبلے کے پھٹنے کے بعد ظاہر ہوگی۔ آپ کو پتہ ہے بلبلے کو کلاسیکی ادبیات میں حباب کہتے ہیں، اور ۔ ۔ ۔

میں نے ٹوک کر کہا ! بلبلہ! کیا آپ اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کو آپ ایک بلبلے کا نام دیتے ہیں، کہیں آپ بلبلے نامی ڈرامہ دیکھ دیکھ کر مومو کی طرح غائب دماغ تو نہیں ہو گئے۔

اُس نے ٹھنڈے دل سے جواب دیا، نہیں! میں بلبلے نہیں دیکھتا، ہاں میں رات کو کھلے آسمان تلے ان گنت تاروں کے سیل رواں کو ضرور دیکھتا ہوں، اور اس میں اپنے خوبی قسمت کی ستارے کو ڈھونڈنے کی کوشش ضرور کرتا ہوں۔ رات کو کئی خوبصورت خواب دیکھتا ہوں اور صبح نہ خواب ہوتے ہیں اور نہ تارے۔ میں نے محسوس کیا کہ ہمارا یہ خودساختہ ٹاک شو حالات حاضرہ سے تاریخ اضافیت اور فلسفیانہ موشگافیوں کی جانب بڑھ رہا ہے اس لئے میں نے یک لخت موضوع تبدیل کرنے کی کوشش کی ۔ ۔

جی جناب مختصراً یہ فرمایئے کہ، گلو بٹ کون ہے؟

مرکزی پنجاب کی ثقافتی بد ہضمی کا ایک بد بودار ڈکار۔ ۔ ۔ میں ہل سا گیا، کراہت کا احساس اتنی تیزی سے مجھے چھو کر نکلا جیسےتیز رفتار گاڑی کے ٹائروں کے درمیاں سے بلی بنا کچلے نکل جاتی ہے۔

تو آپ بطور تہذیبی و ثقافتی حکیم اس بدہضمی کے لئے کیا تجویز دیتے ہیں؟ میں نے سوال کیا۔

بولے، ہمارے ہاں ، یعنی مشرقی روایت میں بد ہضمی اور دماغی عارضے میں مبتلا لوگ اسی خوش فہمی میں مبتلا رہتے ہیں کہ وہ بیمار ہی نہیں ہیں۔ ہمارے ہاں ویسے بھی ظاہری شوشا اور اپنی خوش خوراکی کی دھاک بٹھانے کے لئے لوگ لمبی لمبی ڈکار چھوڑتے رہتے ہیں، کیا آپ نے اپنے گاوں میں رمضان کے دوران تراویح میں لوگوں کو لمبی لمبی ڈکاریں نکالتے نہیں سنا؟ میں نے سر اثبات میں ہلایا۔ اس نے گفتگو کا سلسہ جاری رکھا۔ ۔ ۔ ویسے بھی ڈکار اور بلبلے میں ایک قدر مشترک ہے، وہ یہ دونوں ہوا بھرنے سے پیدا ہوتا ہیں اور ہوا خارج ہونے کے بعد انکا وجود بھی ختم ہو جاتا ہے۔ جس کراہت کا تم اظہار کرتے ہو، وہ ان کے ہاں کراہت کے بجائے شفتالو کی عطر کی مانند ہوتا ہے اور اسے کہتے ہیں اضافیت کی تھیوری۔ ۔ ۔

میں درمیان میں کاٹتے ہوئے پوچھا۔ ۔ ۔ ۔ چلیں آخری سوال پوچھتے ہیں، یہ سن کر جے کے کی بانچھیں اور کھل گئیں، جی جی صد بسم اللہ۔

یہ بتایئے کہ یہ گل خان کو ن ہے؟ اور انکی بہادری کو آپ کہاں فٹ کرتے ہیں؟۔

گل خان تاریخی جبر کے بطن سے پھوٹنے والا وہ کوہستانی خاردار پھول ہے جس کی جڑیں اپنی تاریخ اور شناخت سے کاٹ دی گئیں ہیں ، جو اپنے پھول ہونے کی سابقہ تاریخی شعور سے عاری ہوچکا ہے، جو لمحہ موجود میں بس اپنے خار، اور بس خار ہونے کا وجودی یقین رکھتاہے، جو اپنے خاری وجود کو دوسروں پر نچاور کرنے میں اپنے ہونے کی غیر حقیقی مخمصے میں قید ہے۔ ۔ ۔

اور گل خان کی بہادری؟

جی گل خان کی بد نصیبی یہی ہے کہ اس کی بہادری لومڑی کی دم کی طرح ہے، جسے انسان نیک شگون سمجھتے ہیں اور خود لومڑی کے لئے بد شگون ہوتا ہے۔ شکاری اسکی دم کے لئے لومڑی کے درپے ہوتے ہیں، اگر لومڑی کی دم نہ ہوتی یا بے شک کتے کی دم کی طرح بدنما ہوتی تو شاید لومڑی کی اوسط زندگی میں اضافہ ہوجاتا۔

ہم آپکے بہت مشکور ہیں جناب جے کے انقلابی صاحب، آپ کی فکر انگیز سوچ وغیرہ وغیرہ۔ ۔

آج وہ بن لڑائی کئے اور اٹھ کر چل نکلنے کے بجائے آخر تک بیٹھے رہے اور آج مجھے ہی ہوٹل کے کاونٹر پر بل ادا کرنا پڑا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments