متنازعہ کارٹون بنانے پر پاکستانی اخبار نے کارٹونسٹ کو کام سے روک دیا


پاکستان سمیت دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی خبروں، تجزیوں اور طنزیہ تبصروں پر مقتدر قوتوں کی جانب سے سخت ردعمل آنا کوئی نئی بات نہیں۔

جو نئی بات ہے وہ یہ کہ ایسے ہی ایک سخت ردِ عمل پر گذشتہ روز پاکستان کے ایک انگریزی زبان کے قومی روزنامے نے اپنے ہی سٹاف کے رکن کو مزید کام سے روک دیا ہے۔

انگریزی اخبار دی نیشن سے وابستہ کارٹونسٹ خالد حسین کو مزید کام کرنے سے روکنے کی وجہ وہ متنازع کارٹون بنا ہے جس میں انھوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مسئلہ کشمیر پر ایک مرتبہ پھر ثالثی کی پیشکش پر تصویری تبصرہ کیا تھا۔

اس کارٹون میں کیا تھا؟

25 ستمبر کو دی نیشن کے ادارتی صفحے پر ایک کارٹون شائع ہوا جس میں خاکہ نویس نے پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کو ایک رتھ کھینچتے ہوئے دکھایا گیا ہے جبکہ اس رتھ کی پچھلی نشست پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی بیٹھے ہیں۔ امریکی صدر کے ہاتھ میں ایک چابک ہے جس کے آگے ایک گاجر لٹکی ہوئی ہے۔ اس خاکہ پر ’میڈییئیشن‘ یعنی ثالثی کے الفاظ درج ہیں۔

واضح رہے کہ یہ خاکہ ایسے وقت میں شائع کیا گیا جب عمران خان اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے امریکہ میں موجود تھے اور اس خاکے کی اشاعت سے دو روز قبل ان کی ملاقات امریکی صدر ٹرمپ سے بھی ہوئی تھی۔

اس ملاقات میں صدر ٹرمپ نے کشمیر کے معاملے پر انڈیا اور پاکستان کے درمیان ثالثی کی پیش کش دہرائی تھی جبکہ دوسری جانب انھوں نے امریکی شہر ہیوسٹن میں انڈیا کے وزیر اعظم کے عوامی جلسے میں ’اسلامی انتہا پسندی‘ کا مل کر مقابلہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔

یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اس خاکے کی اشاعت کے اگلے ہی دن اخبار نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ کے ذریعے قارئین سے اس کی اشاعت پر معذرت کی، جبکہ اپنی ویب سائٹ سے بھی سے اس صفحے اور کارٹون کو ہٹا دیا۔

اخبار کی جانب سے اپنی معذرت خواہانہ ٹویٹ میں لکھا گیا: ’ہم اپنے اخبار کے صفحات میں شائع ہونے والے کارٹون پر معافی مانگتے ہیں۔ اس کارٹون کی تخلیق ہمارے اخبار کے معیار اور ادارتی پالیسی سے مطابقت نہیں رکھتی۔ اسے کبھی شائع نہیں ہونا چاہیے تھا۔

 

’ہمیں قوم پرست اخبار ہونے پر فخر ہے۔ اور ہمیں اس کارٹون کی اشاعت پر انتہائی افسوس ہے خصوصاً ایسے وقت میں جب نیو یارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس ہو رہا ہے۔ اس ضمن میں ادارے نے اداراتی نظام میں بہتری کے لیے ضروری اقدامات اٹھا لیے ہیں۔‘

خاکہ نویس کا موقف

اس معاملے پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس اخبار کے خاکہ نویس خالد حسین کا کہنا تھا کہ انھیں باضابطہ طور پر نوکری سے برطرف نہیں کیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا: ’مجھے تحریری طور پر تو برطرفی کا نہیں کیا گیا لیکن مجھے زبانی طور پر یہ کہا گیا ہے کہ فی الحال ہم آپ کا کارٹون شائع نہیں کر سکتے۔‘

انھوں نے بتایا کہ اخبار کے ادارتی صفحے کے ایڈیٹر نے انھیں زبانی طور پر بتایا ہے کہ حکومتی دباؤ کے پیش نظر انتظامیہ نے کچھ عرصے تک ان کے خاکے اخبار میں شائع نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

’مجھے کارٹون شائع نا کرنے کا کوئی دورانیہ بھی نہیں بتایا گیا کہ آیا وہ ایک ماہ، دو ماہ یا تین ماہ، کب تک میرے کارٹون شائع نہیں ہو سکتے۔‘

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ انھیں ماضی میں اخبار کی جانب سے ہمیشہ تخلیقی آزادی دی گئی مگر متعدد بار ایسا ہوا کہ ان کے بنائے گئے خاکوں کو ادارتی پالیسی سے مطابقت نا رکھنے پر شائع نہیں کیا گیا۔

لیکن ان کا کہنا تھا کہ انھیں اخبار کی جانب سے تخلیقی خاکے بنانے پر کبھی کسی خاص پابندی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

ان کے مطابق اس کارٹون پر انھیں ذمہ دار ٹھہرانا سمجھ نہیں آیا کیونکہ ’یہ کارٹون تو ادارتی پالیسی سے پاس ہو کر چھپا تھا۔‘

عمران

عمران خان کے مطابق کچھ ممالک انڈیا کے ساتھ اپنے مفادات کی وجہ سے شاید کشمیر کے مسئلے پر زیادہ بات نہیں کرنا چاہتے

ان کا کہنا تھا کہ یہ کارٹون انھوں نے حکومت کے خلاف اور نا وزیر اعظم عمران خان کے خلاف سوچ کر بنایا، بلکہ یہ کارٹون انھوں نے اس موقف کی حمایت میں بنایا تھا جو وزیر اعظم عمران خان کشمیر کے معاملے پر امریکی صدر سے ملاقات میں لے کر گئے تھے۔

خالد حسین نے بتایا کہ ’اگر اس خاکے میں میں نے وزیر اعظم عمران خان کو گاڑی کھینچتے ہوئے دکھایا ہے تو وہ ان کی ذاتی شخصیت نہیں بلکہ پاکستان کی عکاسی تھی جسے امریکی صدر نے ایک جانب ثالثی کا ’لالی پاپ‘ دے رکھا ہے تو دوسری جانب وہ انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی کو ان کے زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی اجازت دے رہے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ان کی جانب سے یہ کارٹون بنانے کا مقصد یہ ظاہر کرنا تھا کہ امریکہ پاکستان کا دھیان کسی اور طرف لگا کر انڈیا کو اس کے زیر انتظام کشمیر میں کارروائی کا موقع فراہم کر رہا ہے، لیکن اس کو غلط سمجھا گیا اور اس کارٹون پر ایسا سخت اقدام اٹھایا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’غلطی حکومت کی ہے جسے کارٹون سمجھ نہیں آیا اور اس پر ایسا اندھا دھند اقدام اٹھانے کے لیے دباؤ ڈالنا نہایت افسوس ناک ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ حکومتی ردعمل ان کی تنقید برداشت نہ کرنے اور سینسر شپ کی پالیسی کو ظاہر کرتا ہے۔

خالد حسین نے بتایا کہ اس اخبار میں ان کے بنائے ہوئے بہت سے ایسے بھی کارٹون شائع ہوئے ہیں جو حکومت کی حمایت میں تھے اور وہ ذاتی طور پر بھی حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے ’تبدیلی‘ کے نعرے کی بہت حمایت کرتے رہے ہیں۔

اس ضمن میں بی بی سی نے جب اخبار کی انتظامیہ سے رابطہ کر کے ان کا موقف لینے کی کوشش کی تو اخبار کی چیئرپرسن اور پبلشنگ ایڈیٹر رمیزہ نظامی نے اس معاملے پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔

ٹرمپ

صدر ٹرمپ نے عمران خان اور نریندر مودی کو اپنے دوست قرار دیتے ہوئے کہا کہ انھوں نے دونوں کو کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے مل کر کام کرنے کا کہا ہے

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار محمد ضیاالدین نے اس معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ جب خاکہ نویس کوئی خاکہ بناتا ہے یا کوئی خبر یا مضمون اخبار کے لیے لکھا جاتا ہے تو خاکہ نویس یا لکھنے والا براہ راست کسی بھی اخبار میں اسے شائع نہیں کر سکتا جب تک کہ اس صفحے کا ایڈیٹر یا اخبار کا ایڈیٹر اس کی اجازت نا دے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہر اخبار کی ایک ادارتی پالیسی ہوتی ہے جس کے تحت ہی سب خبریں، مضامین اور خاکے اس میں شائع کیے جاتے ہیں اور اس اخبار کا ایڈیٹر اس بات کا ذمہ دار ہوتا ہے کہ کون سا مواد شائع ہوگا اور کون سا نہیں۔

انھوں نے بتایا کہ ’خاکہ نویسی میں خاص طور پر اگر کوئی ایسا کارٹون شائع ہوتا ہے تو اس کی تمام ذمہ داری ایڈیٹر پر عائد ہوتی ہے نا کہ خاکہ نویس پر۔‘

انھوں نے رائے دیتے ہوئے کہا کہ خاکہ نویسی ایک انتہائی تخلیقی کام ہے جس میں قارئین کے لیے بہت ہی سنجیدہ چیز کو ہلکے پھلکے مگر طنزیہ انداز میں پیش کیا جاتا ہے تاکہ لوگ اس مسئلے کی سنجیدگی سے آگاہ ہونے کے ساتھ ساتھ اس سے لطف اندوز بھی ہوں۔

محمد ضیاالدین کا کہنا تھا کہ دنیا میں ہر جگہ کارٹونسٹ کو اظہار خیال کی تخلیقی آزادی حاصل ہوتی ہے۔ ان کے خیال میں یہ نامناسب ہے کہ کسی کارٹونسٹ کو صرف اس بنا پر نوکری سے برطرف کر دیا جائے کہ اس نے کوئی ایسا کارٹون بنایا جس میں ملک کے وزیر اعظم کا مذاق اڑایا گیا ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کارٹون پر حکومت کے ردعمل کو دیکھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت کتنی کمزور ہے جو معمولی تنقید اور طنز بھی برداشت نہیں کر سکتی۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر گذشتہ ڈیڑھ برس کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان کے ذرائع ابلاغ میں خود ساختہ سینسر شپ دکھائی دیتی ہے۔ اور جو کوئی صحافتی ادارہ خواہ ٹی وی ہو یا اخبار اس پر عمل پیرا نہیں ہوتا تو اس کو نتائج بھگتنے پڑتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32289 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp