گریٹا تھنبرگ اور ملالہ یوسفزئی لڑکیاں ہو کر بولتی ہیں؟


گریٹا تھنبرگ

سویڈن سے تعلق رکھنے والی 16 سالہ گریٹا تھنبرگ

جب سویڈن سے تعلق رکھنے والی 16 سالہ گریٹا تھنبرگ نے عالمی رہنماؤں کو بہت جذباتی انداز میں یاد دلایا کہ وہ ماحولیاتی تبدیلی کو روکنے کے لیے کچھ نہیں کر رہے اور انھوں نے اپنے کھوکھلے وعدوں سے ان جیسے بچوں کا مستقبل چھین لیا ہے۔

تو جہاں دنیا میں بہت سوں نے ان کی سوچ، جذبے اور بہادری کی داد دی وہیں ٹرولز کی ایک فوج سامنے آ گئی جس نے نا صرف ان کے پیغام کو ان کے ’دماغ کا خلل‘ اور ’پرورش میں کمی‘ کہا بلکہ یہاں تک کہہ دیا کہ وہ ’چائلڈ ابیوز یا بچوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا شکار ہیں۔’

گریٹا تھنبرگ کے تقریر پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی ٹویٹ کیا اور انھوں نے کہا کہ ’مجھے تو یہ ایک بڑی خوش لڑکی لگ رہی ہے جس کے سامنے ایک روشن اور زبردست مستقبل ہے۔‘ لیکن ان کے اس ٹویٹ کے بعد گریٹا پر تنقید کرنے والوں کی لائن سی لگ گئی۔

https://twitter.com/realDonaldTrump/status/1176339522113679360

برطانیہ میں ’گُڈ مارننگ برٹن‘ نامی شو کی معروف شخصیت پیئرز مارگن نے جنھیں صدر ٹرمپ کا دوست بھی کہا جاتا ہے کہا کہ ’اگرچہ مجھے ماحولیاتی تبدیلی کے مسئلے کی سنجیدگی سے کوئی مسئلہ نہیں لیکن یہ ذرا جذباتی ناٹک تھا، یہ دنیا کی تباہی، قیامت وغیرہ۔۔۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’میں سوچ رہا ہوں کہ دنیا میں جو نوجوان لوگ اسے دیکھ رہے ہوں گے ان پر اس کا کیا اثر ہو گا اور وہ سوچ رہے ہوں گے کہ اوہ میرے خدا دنیا واقعی ختم ہونے جا رہی ہے۔ یہ ختم ہونے نہیں جا رہی۔ میں نہیں چاہتا کہ اربوں نہیں تو لاکھوں نوجوان جو گریٹا کی یہ تقریر دیکھ رہے ہیں حقیقت میں یہ سوچنا شروع کر دیں کہ واقعی دنیا ختم ہونے والی ہے، کیونکہ ایسا نہیں ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی ایک سنجیدہ مسئلہ ہے، ایک اہم مسئلہ ہے اور اس پر توجہ دینی چاہیے لیکن میرے خیال میں جس طرح وہ اسے دنیا ختم ہونے کا مسئلہ بنا کر پیش کر رہی ہیں ایسا نہیں۔‘

کسی نے انھیں ’کمیونسٹوں کی سازش‘ کہا اور کسی نے کہا کہ وہ ’بیمار ہیں جو جلد جذباتی ہو جاتی ہیں۔’

گریٹا تھنبرگ پہلی لڑکی نہیں جنھیں ان کے کسی موقف کی وجہ سے برا بھلا کہا گیا ہو یا بالکل رد کیا گیا ہو۔

پاکستان سے تعلق رکھنے والی نوبیل انعام یافتہ طالبہ ملالہ یوسفزئی پر جب طالبان نے حملہ کیا اور حکومت نے ان کے ملک سے باہر جانے میں مکمل تعاون بھی کیا تھا۔ لیکن پھر بھی خود ساختہ وطن پرستوں کی ایک بڑی تعداد انھیں ’پاکستان کا دشمن‘ اور ’بھگوڑی‘ کہتے ہیں۔

’اسے گولی نہیں لگی‘، ’سب ڈرامہ ہے‘، ’ملک سے باہر پناہ لینے کے لیے ایسا کیا‘ سے لے کر ’غدار‘ اور ’مغرب کی جاسوس‘ تک کے القاب انھیں دیے گئے لیکن وہ صرف تعلیم کی بات کرتی ہیں۔

ملالہ یوسفزئی

پاکستان سے تعلق رکھنے والی نوبیل انعام یافتہ طالبہ ملالہ یوسفزئی

یہاں تک کہ اپنے ایک انٹرویو میں انھوں نے یہ تک کہا کہ ان کے دل میں ان لوگوں کے لیے کوئی نفرت نہیں جنھوں نے ان پر گولی چلائی۔

حال ہی میں جب کشمیر میں مودی حکومت نے آرٹیکل 370 ختم کر دیا اور کشمیروں کے بنیادی حقوق مجروح کیے تو ملالہ پر یہ الزام لگا کہ وہ اتنے اہم مسئلے پر نہیں بولیں۔

جب انھوں نے اس پر آواز اٹھائی تو انڈین عوام بشمول انڈیا کے نامور صحافیوں نے کہا کہ وہ کس منہ سے یہ کہہ رہی ہیں جبکہ وہ تو اپنے ملک پاکستان واپس بھی نہیں جا سکتیں۔

مثالیں درجنوں ہیں لیکن بات صرف اتنی ہے کہ طاقتور کے خلاف چپ رہنا تو آسان ہے لیکن بولنا بہت مشکل اور اگر آپ عورت ہیں تو اور بھی مشکل کیونکہ معاملے میں جنس بھی شامل ہو جاتی ہے۔

وہ چاہے گریٹا ہو یا ملالہ وہ اگر بول کر شرم دلوائیں گی تو غصہ تو ضرور آئے گا کہ ایک لڑکی ہو کر۔۔۔!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32552 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp