وزیر اعظم عمران خان کی اقوام متحدہ میں سیاسی تقریر


مقبوضہ کشمیر کی موجودہ سنگین اور خطرناک صورتحال کے تناظر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں وزیر اعظم عمران خان کی تقریر سے کئی توقعات وابستہ کرائی جا رہی تھیں۔ انڈین وزیر اعظم مودی کی امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ انڈیا کے امریکی باشندوں کے جلسے میں شرکت اور اس میں مودی کی کشمیر کے حوالے سے جارحانہ تقریر سے وزیر اعظم پاکستان کی جنرل اسمبلی کی تقریر کی اہمیت میں مزید اضافہ ہو گیا تھا۔ صدر ٹرمپ نے عمران خان کے ساتھ میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ مودی نے ”ہاؤڈی مودی“ میں جارحانہ جملے بولے ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان نے زبانی تقریر کی اور پورے جذبے کے ساتھ کی۔ انہوں نے کہا کہ میں چار نکات پر بات کروں گا جن پر دنیا کو لازمی طور پر توجہ دینا ہو گی۔ وزیر اعظم نے سب سے پہلے کلائمیٹ چینج پر بات کی۔ دوسرے نمبر کے مسئلے بات شروع کرتے ہوئے کہا کہ یہ مسئلہ اس سے بھی بڑا ہے، وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ غریب ملکوں کے حکمران خواص ہر سال بلنیز ڈالرز سے امیر ملکوں میں لے جاتے ہیں۔ مغربی بنکوں میں دولت رکھتے ہیں، آف شور کمپنیاں، مہنگی جائیدادیں مغربی ملکوں میں بناتے ہیں۔

اس سے غربت اور قرضوں میں اضافہ ہوتا ہے، غریب ملکوں سے امیر ملکوں کی طرف منی لانڈرنگ کو منشیات اور دہشت گردی فنانسنگ کی طرح نہیں دیکھا جاتا، ۔ جب میں وزیر اعظم آیا تو دیکھا کہ ساٹھ سال کے برابر گزشتہ دس سال میں قرضہ لیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں ایک سال کے ریوینیو کا آدھا قرضے کی مد میں چلا جاتا ہے، جب ہم نے حکمران ایلیٹ کلاس، کرپٹ لیڈروں کے مغربی ملکوں میں کرپشن، منی لانڈرنگ سے بنائی گئی جائیدادوں کا سراغ لگانا شروع کیا، تو ہم نے دیکھا کہ ایسا کرنا کتنا مشکل ہے، قوانین مجرموں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں، ہمارے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ وکیلوں کو ملینز ڈالرز ان کی فیسیں دے سکیں، امیر ملکوں کو اس حوالے سے دلچسپی دکھانا ہو گی کہ ایسا نہ ہو۔ تیسرا نکتہ وزیر اعظم نے اسلام فوبیا اور ریڈیکل ازم سے متعلق بیان کیا۔

یوں تووزیر اعظم عمران خان نے دورہ امریکہ کے موقع پر فوج کی طرف سے القاعدہ کو تربیت دینے کی طرح کی کئی ایسی باتیں کیں جو پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے حوالے سے بھی خطرناک ثابت ہو سکتی ہیں، تاہم جنرل اسمبلی کی تقریر میں وزیر اعظم عمران خان کا کرپشن کے حوالے اپنی حکومتی کارروائیوں، اپوزیشن کی سخت مزاحمت اور پاکستانی قانون کے غیر موثر ہونے کا رونا اروتے ہوئے خود دنیا میں پاکستان کو ایک تماشا ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔

عمران خان کا وزیر اعظم بنایا جانا، پاکستان میں احتساب اور عدالتی کارروائیوں کی صورتحال، عوامل اور ساکھ کی حکومت خود پاکستان میں دفاع کرنے میں ناکام ثابت ہو ئی ہے۔ ایسی صورتحال میں اقوام عالم کے سامنے پاکستان کی اپوزیشن جماعتوں کو عالمی سطح پر کرپٹ اور چور ثابت کرنے کی وکالت کرنا، کتنا حق و سچ پر مبنی ہے؟ اس سے دنیا میں پاکستان کا نام کتنامشہور اور ملک کو کتنا فائدہ ہو گا؟ وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے بیان کردہ پوائنٹ نمبر دو ناصرف غیر ضروری، نقصاندہ ہے بلکہ اس موضوع کو اقوام عالم کے سامنے پیش کرنے سے وزیر اعظم عمران خان کی غیر ذمہ دار شخصیت ہونے کا ایک بار پھر اعادہ بھی ہوا ہے۔

وزیر اعظم نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال سے متعلق اچھا بیان کیا جس سے لوگ عمومی طور پر خوش ہوئے۔ انہوں نے یہ تو کہا کہ مقبوضہ کشمیر کی طرح کے حالات سے تنگ آ کر میں بھی انڈیا کے خلاف بندوق اٹھا سکتا ہوں تاہم وہ اس متعلق ایک جملہ بھی نہیں کہہ سکے کہ مقبوضہ کشمیر میں نہتے شہریوں کے خلاف انڈیا کی قتل و غارت گری کی صورتحال میں پاکستان خاموش تماشائی بن کر نہیں رہ سکتا۔ اس کے بجائے وزیر اعظم عمران خان نے ان خطرات کا اظہار کیا کہ مقبوضہ کشمیر میں کشمیری حریت پسند کوئی حملہ کر سکتے ہیں اور انڈیا اس کے بہانے پاکستان پر حملہ کر دے گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان جنگ ایٹمی جنگ میں تبدیل ہونے کے امکانات واضح ہیں۔ وزیر اعظم نے انڈیا کی ہندو انتہا پسند تنظیم ’آر ایس ایس‘ ، اس کے عزائم اور مودی کے حوالے سے بھی دنیا کے سامنے اچھا بیان کیا۔

مقبوضہ کشمیر میں بھی وزیر اعظم پاکستان کی اس تقریر کا انتظار تھا۔ اسی حوالے سے مقبوضہ کشمیر میں انڈین فورسز کی طرف سے پابندیوں کو مزید سخت کیا گیا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے تقریر میں وزیر اعظم عمران خان نے کشمیر سے متعلق اچھا بیان کیا۔ تاہم عملی طور پر پاکستان انتظامیہ ان تقاضوں پر کام کرتے نظر نہیں آرہی جن کے لئے وزیر اعظم کی تقریر میں ”سٹینڈ“ لیا گیا ہے۔ کشمیر پرپاکستان انتظا میہ کے قول و فعل میں تضاد نمایاں ہے۔

جب پاکستان انتظامیہ کی ترجیحات میں کشمیر محض باتوں تک محدود ہو اور عملی تقاضوں پر توجہ نہ ہو تو دنیا کیا توجہ دے سکتی ہے۔ دنیا جب یہ دیکھتی ہے کہ پاکستان کی تشویش باتوں تک ہی محدود ہے تو ان کو کیا پڑی ہے کہ وہ تشویش میں مبتلا ہو جائیں۔ دنیا باتوں پر نہیں بلکہ عمل پر توجہ دیتی ہے۔ لوگ تو یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان انتظامیہ خود پر انڈیا کے لگائے جانے والے الزامات کی صفائیاں اور اس متعلق اقدامات کی یقین دہانی ہی کروا رہی ہے۔ پاکستان انتظامیہ کا قول و فعل کا تضاد کشمیریوں کے لئے سنگین تشویش کا باعث ہے۔

وزیر اعظم عمران خان کی تقریر میں بیان کردہ تمام نکات کو ایک ساتھ دیکھتے ہوئے مکمل تقریر کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تقریر سیاسی انداز میں کی گئی ہے کہ جس کا مقصد عام لوگوں کو خوش کرنا ہوتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ ان کی تقریر میں کشمیر نمبر ایک معاملہ ہے تاہم بیان کردہ ترجیحات میں کشمیر کو چوتھا اور آخری درجہ دیا گیا۔ وزیر اعظم کی تقریر میں اورعملی طور پر پاکستان انتظامیہ کشمیرپر کچھ کرنے کے بجائے اپنے بچاؤ میں دہائیاں دے رہے ہیں کہ کشمیری حریت پسند مقبوضہ کشمیر میں کوئی حملہ کریں گے اور انڈیا پاکستان پر حملہ کر دے گا۔

مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کی جدوجہد اب ان کا فطری تقاضا بن چکی ہے جس کے لئے وہ تیار بھی ہیں، وہ اپنے لئے کچھ نہ کچھ حاصل کر ہی لیں گے۔ یہاں کی ”آزاد“ فضاؤں میں رہنے والوں کو اس بات کی فکر کرنی چاہیے کہ پسپائی در پسپائی سے جان بچانے کی کوشش کوئی دانشمندانہ حکمت عملی یا پالیسی نہیں ہے۔ ملک میں حاکمیت کے لئے دھونس، ہٹ دھرمی، نا انصافی، غاصبانہ طرز عمل ملک کو تباہ و برباد کرنے کے عوامل ہیں۔ جنہوں نے پاکستان کو اس حال پہ پہنچایا ہے، وہ اب بھی اپنی غاصب حاکمیت سجائے بیٹھے ہیں، اپنی ماضی کی غلطیوں کو تسلیم کرنے سے انکاری اور انہی غلطیوں کو دہرا رہے ہیں جن کی وجہ سے پاکستان موجودہ خراب تر اور کمزور پوزیشن کا شکار ہے۔

موجودہ خطرناک ترین صورتحال اور پاکستان کی اہمیت کا ادراک کیاجانا چاہیے۔ پاکستان میں آئین و پارلیمنٹ کی بالادستی میں ہی سلامتی اور بقا ممکن ہے۔ یہ ملک عوام کے لئے بنا تھا اور عوام نے ہی بنایا تھا۔ جو کشمیر کے مسئلے کو محض کشمیریوں کا مسئلہ سمجھتا ہے اور پاکستان کی وکالت کو احسان سمجھتا ہے، وہ پاکستان کی بقا اور سلامتی کے تقاضوں سے بھی ناآشنا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).