میرے میرپور شہر میں زلزلے کی قدرتی آفت


بچپن میں ہم بڑے بوڑھوں سے سنتے تھے کہ ہماری زمین کو ایک بیل نے اپنے سینگ پر اٹھا رکھا ہے اور جب وہ تھک کر زمین کو اپنے دوسرے سینگ پر اٹھاتا ہے تو زلزلہ آتا ہے لیکن جب بڑے ہو کر سائنس پڑھی تو زلزلوں کا راز آشکارہ ہوا۔ جس کے مطابق زمیں کی سطح بہت سے ٹکڑوں سے مل کر بنی ہوئی ہے۔ جن کو پلیٹس کہتے ہیں۔ ۔ زمین کی تہہ میں میلوں نیچے گہرائی میں واقع یہ پلیٹس جب آپس میں متصادم ہوتی ہیں تو زلزلہ آتا ہے۔ جتنی شدت سے یہ پلیٹیں آپس میں ٹکراتی ہیں اتنی ہی شدت کا زلزلہ آتا ہے۔ زلزلے آنے کے بہت سے اسباب ہیں لیکن ان میں مندرجہ ذیل وجوہات زیادہ مشہور ہیں

﴾ Tectonic۔ پہلی وجہ تعمیراتی ہے۔ جس میں زمین کی اندرونی سطح میں واقع ارضیاتی طاقتیں۔ قوتیں جب سینکڑوں میل نیچے تہہ میں چٹانوں پر اثر انداز ہوتی ہیں تو ان چٹانوں کے آپس میں ٹکرانے سے زلزلہ آ جاتا ہے۔ اور زمین میں زیادہ تر یہی زلزلہ آ تا ہے۔

﴾Volcanic۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے یہ زلزلہ عموماً زمین کی تہہ میں واقع آتش فشاں پہاڑ پھٹنے سے آتا ہے۔ آتش فشاں جب پھٹتا ہے اور اس کو زمین سے باہر نکلنے کا راستہ نہیں ملتا تو اس کی زمین کے اندر حرکت کی وجہ سے زلزلہ آتا ہے

﴾ Collapse۔ زمیں کے اندر بہت سے غار اور کانیں موجود ہیں۔ ان میں موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہونے والے دھماکوں کی وجہ سے لہریں پیدا ہوتی ہیں جن کی وجہ سے زلزلے آتے ہیں جو کہ معمولی نوعیت کے ہوتے ہیں اور ان سے زیادہ نقصان نہیں ہوتا۔

﴾Explosion۔ ایٹمی یا پھر کیمیائی دھماکوں کی وجہ سے بھی زلزلے آتے ہیں

نارمل فالٹ میں دیواریں گرتی ہیں جبکہ ریورس فالٹ میں دیواریں اوپر کو اٹھتی ہیں جس سے دیواروں میں دراڑیں پڑ جاتی ہیں۔ سلپ فالٹ میں زمین میں شگاف پڑ جاتے ہیں۔ بہت زیادہ شدت کے زلزلے میں فالٹ کے جوش کی وجہ سے اس کا دورانیہ پانچ منٹ تک ہو سکتا ہے۔ جو کہ زمین میں ایک ہزار کلو میٹر تک کی گہرائی میں ہوتاہے اور اس کے بعد اس کے آفٹر شاک دیر تک آتے رہتے ہیں۔ زلزلہ انسانوں کہ ہلاک نہیں کرتا بلکہ اس کی وجہ سے انسان کی تیار کردہ عمارتیں اور قدرتی ڈھانچے تباہ ہونے کی وجہ سے انسانی ہلاکتیں ہوتی ہیں۔

ہم زلزلہ ہونے سے روک نہیں سکتے لیکن ہم اس سے ہونے والی تباہی کو روکنے کے لئے اقدام کر سکتے ہیں تا کہ اس سے نقصانات کم ہو سکیں۔ محفوظ اور مضبوط ڈھانچوں والی عمارتیں بنانے اور زلزلہ سے محفوظ رہنے کے لئے تعلیم اور آگاہی کی ضرورت ہے۔ زلزلے کے دوران احتیاطی تدابیرکو لوگوں تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔ چند ضروری احتیاًط کے مطابق زلزلے کے دوران ہمیں زمین پر لیٹ جانا چا ہئے۔ میز کے نیچے پناہ لیں شیشوں۔ کھڑکیوں۔ دروازوں سے باہر اور دیواروں کے پاس یا ساتھ کھڑے نہ ہوں۔ کیونکہ کچھ بھی گر سکتا ہے۔ جس سے آپ کو نقصان پہنچ سکتا ہے

ہم لوگ تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے اور قدرتی آفات کے نتیجے میں ہونے والی تباہی کو بہت جلد بھول جاتے ہیں۔ 2005 میں اکتوبر میں مظفرآباد میں بہت ہی ہلاکت خیز زلزلہ آیا تھاجس سے شہر مکمل طور پر تباہ ہو گیا۔ ایک لاکھ سے زیادہ قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔ اربوں مالیت کی سرکاری اور نجی عمارتیں پباہ ہوئیں۔ اس کے بعد اربوں ڈالر کی بیرونی امداد اور تمام دنیا سے این جی اوز یہاں آئیں۔ اس مشکل وقت میں ساری قوم اکٹھی ہو گئی اور سب مظفرآباد اور بالاکوٹ کی طرف دوڑ پڑے۔ ایک اندازے کے مطابق دس ارب ڈالرسے زیادہ کی بیرونی امداد زلزلہ زدگان کے لئے آئی۔ اگر یہ ساری رقم زلزلہ سے متاثر جگہوں پر خرچ ہوتی تو یہ سارے مقامات آج ایک انتہائی جدید اور ترقی یافتہ آبادیوں میں شمار ہوتے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔

اب ایک بار پھر اللہ تعالی کو آزاد کشمیر کے لوگوں کا امتحان مقصود ہے۔ میرپور میں اس ہفتے آ نے والے زلزلے سے ایک مخصوص ایریا میں ہی تباہی ہوئی ہے۔ 8۔ 5 کی طاقت سے آنے والے زلزلے کا مرکز جاتلاں کے نزدیک ایک ہزار کلومیٹر زمین کے نیچے تھا اور اس کا دورانیہ دس سیکنڈ کے قریب تھا۔ میرپور کا ساراشہر ہی اس سے متاثر ہوا ہے لیکن اس کے ڈی سیکٹر اور کھاڑک کے کچھ علاقے میں زیادہ تباہی ہوئی ہے۔ زلزلے نے شہر کے تقریباً تمام ہی پلازوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔

شہر کی بہت سی قیمتی عمارتوں میں دراڑیں پڑ گئی ہیں۔ گھروں کی بیرونی چاردیواریاں گر گئی ہیں اور اندرونی دیواروں میں بڑی بڑی دراڑیں پڑ گئی ہیں۔ جس وجہ سے یہ گھر اب رہنے کے قابل نہیں رہے۔ اس کے علاوہ شہر میں واقع شادی ہالوں اور پلازوں کو کافی ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ دوسرے دن آنے والے زلزلے کے جھٹکوں سے صورتحال مزید خراب ہو گئی ہے۔ بہت سارے سکولوں کی عمارتیں بھی متاثر ہوئی ہیں اور وہ اب محفوظ نہیں رہیں۔

کسی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ چونکہ زلزلے کا مرکز جاتلاں کے قریب تھا اس لئے علاقہ کھڑی میں بہت ہی زیادہ تباہی ہوئی ہے۔ خصوصاً یونین کونسل سمعوال شریف کے تمام دیہات جن میں نو موڑے ساہنگ۔ بنی۔ نگیال۔ دتیال۔ ہرچیال بہت زیادہ متاثر ہوئے ہیں، اس کے علاوہ جاتلاں اور اس کے اردگرد والے گاؤں بھی بہت زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ نوے فیصد گھر گر گئے ہیں جوگرنے سے بچ گئے ہیں وہ بھی رہائش کے قابل نہیں رہے۔ ان دیہاتوں میں بہت زیادہ ہلاکتیں بھی ہوئی ہیں اور لوگوں کا اربوں روپے کا مالی نقصان بھی ہوا ہے۔

چیچیاں سے لے کر جاتلاں تک نہر کے کنارے بنی سڑک میں چار سے آٹھ فٹ چوڑے شگاف پڑ گئے ہیں۔ جس کی وجہ سے نہر اب بالکل غیر محفوظ ہو گئی ہے۔ نہر کا بھی کافی نقصان ہوا ہے۔ دو تین جگہ نہر میں شگاف پڑنے سے کافی سارے دیہات زیرآب آگئے ہیں۔ نہر کے نیچے بنے ہوئے پانی گزرنے والے دو تین سائفن میں دراڑیں پڑ گئی ہیں۔ نہر کے اوپر بنے ہوئے چار پانچ پل گر گئے ہیں اور کافی پلوں کے پلرز میں دراڑیں پڑ گئی ہیں۔

اس وقت صورت حال یہ ہے کہ دیہاتوں کے اندر گلیاں دیواریں گرنے کی وجہ سے بند ہیں۔ لوگ سردی میں کھلے آسمان کے نیچے پڑے ہویئے ہیں۔ زلزلے کی آفت کے بعد ہونے والی بارش نے لوگوں کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ زلزلے کی وجہ سے زیر زمین کنوؤں اور نلکوں کا پانی گدلہ ہو گیا ہے اور پینے کے قابل نہیں رہا۔ جس سے ان علاقوں میں پینے کے پانی کی شدید کمی واقع ہو گئی ہے۔ چیچیاں سے جاتلاں والی نہر کے کنارے سڑک مکمل تباہ ہو گئی ہے اس کے علاوہ دیہاتوں کی تمام رابط سڑکیں بھی تباہ ہو گئی ہیں۔

زلزلے کے بعد میرپور کی ضلعی انتظامیہ۔ ہسپتال اور محکمہ بجلی کا کردار مثالی رہا۔ جنہوں نے فوری کارروائیوں کا آغاز کیا۔ الیکٹرسٹی ڈیپارٹمنٹ نے بجلی کی فوری بحالی کو ممکن بنایا اور ہسپتال کے عملے نے فوراً ایمرجینسی میں زخمیوں کے علاج کا اہتمام کیا۔ لیکن حکومت اور سیاستدان فوٹو سیشن اور پروٹوکول میں زیادہ مصروف رہے۔ فوج کا کردار ایسے موقعوں پر ہمیشہ مثالی ہوتا ہے۔ آرمی چیف نے متاثرہ علاقے کا دورہ کیا۔

نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے انچارج بھی علاقہ میں موجود رہے اور ہونے والی امدادی کارروائیوں کا جائزہ لیا۔ اس کے باوجود بہت سے دیہات میں کوئی ٹیم یا کسی قسم کا کوئی امداد ابھی تک نہ پہنچ سکی۔ میرپور دل والوں کا شہر ہے جو مشکل وقت میں سب کی مدد کرنے کو ہر وقت تیار رہتے ہیں اور یہ آفت تو ان کے اپنے گھر میں آئی ہے جس سے نبٹنے کے لئے وہ تیار ہیں۔

ہمارے ہاں کوئی بھی کام قاعدے قانون کے مطابق نہیں ہوتا۔ جب بھی ایسی کوئی ناگہانی آفت آتی ہے تو ہم بغیر سوچے سمجھے اس طرف دوڑ پڑتے ہیں ے ایک ایک جگہ چار چار تنظیمیں پہنچ جاتی ہیں اور کسی جگہ ایک بھی نہیں پہنچتی۔ اور نہ ہی کسی کو پتہ چلتا ہے۔ اس صورت حال کو بہتر طور پر نبٹنے کے لئے کچھ تجاویز حسب زیل ہیں

٭ میرپور شہر میں ایک جگہ کنٹرول روم بننا چاہیے جس میں زلزلہ والے علاقے کا ہر طرح کا ڈیٹا موجود ہو کہ کہاں پر کس چیز کی ضرورت ہے۔ جس نے بھی زلزلہ زدگان کی مدد کرنی ہو تو وہ کنٹرول روم سے رابطہ کر کے متعلقہ جگہ پر امداد خود پہنچا دے۔

٭ فوری طور پر عارضی شیلٹر۔ پینے کے صاف پانی۔ خوراک اور دوائیوں کی ضرورت ہے۔ زخمیوں کے علاج کی ضرورت ہے۔

اس کے علاوہ راشن کی ضرورت ہے ے سب سے پہلے ان سب ضرورتوں کو پورا کرنے کی ضرورت ہے اور سب کو اس پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

٭ ہر متاثرہ دیہات میں امدادی اشیاء پہنچانے کے لئے رابطہ سڑکوں کی بحالی بہت ضروری ہے۔ بہت سے دیہات میں ابھی تک کوئی ٹیم نہیں پہنچی۔ اس لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے ہر متاثرہ گاؤں میں ابتدائی امداد پہنچ سکے۔

٭ امداد دینے والے سارے اداروں میں کوآرڈینیشن بہت ضروری ہے۔ ورنہ کئی جگہوں پر تو امداد ی اشیاء کے ڈھیر لگ جائیں گے اور کئی جگہوں میں لوگ بنیادی اشیاء کے لئے ترس رہے ہوں گے۔

٭ متاثرین کی مستقل بنیادوں پر بحالی کے لئے حکومت کو ضروری اقدامات کرنے چاہیں لیکن ہماری حکومت میں اتنا دم خم نہیں ہے اس لئے فنڈز کے لئے پاکستان حکومت کی طرف دیکھتے ہیں۔ چکومت پاکستان کو متاثرہ علاقہ کی بحالی کے لئے خصوصی فنڈز مہیا کرنے چاہیں اور انھیں صرف اسی جگہ خرچ کیا جائے

سب سے اہم بات یہ ہے کہ زلزلہ کے متاثرین کے لئے ملنے والی بیرونی امداد اور حکومت کے محتص کردہ تمام فنڈز صرف اور صرف متاثرہ علاقے کے بنیادی ڈھانچے کی بحالی اور متاثرہ لوگوں کی بحالی پر ہی خرچ کیے جائیں۔ ماضی کی طرح طاقتور۔ حکومتی نمائیندے اور اہلکار ہی فائدہ نہ اٹھا جائیں بلکہ صیح حقدار کو اس کا حق پہنچ سکے۔ اگر اس بار بھی ہم نے یہ نہ کیا تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).