وہ جو عمران خان تقریر میں نہ کہہ سکے


اسلامی جمہوریہ پاکستان کے عوام سمجھے کہ تلاوت اقوام متحدہ میں ہو رہی ہے۔ ہر کسی کی آنکھیں نمناک ہو گئیں۔ رقت سے گلے رندھ گئے۔ ضیاء صاحب نے اس کے بعد اسلام کی سربلندی اور پاکستان کی سلامتی کے حوالے سے ایک بصیرت افروز خطاب کیا۔ اس کے بعد ملک میں ہیروئین اور کلاشنکوف کا معاشی انقلاب آیا۔ افغان خون اور پاکستانی خون دشت لیلی کی ریت میں جذب ہوتا گیا۔ بھارت میں ابھی منموہن سنگھ کی معاشی اصلاحات نہیں تھیں۔ ان کا روپیہ ہم سے کمزور تھا اور پھر کہنے کو ہم مغرب کے نور نظر تھے۔ پر ہم تقریر سے آگے دنیا کو بھارت کے خلاف کھڑا کرنے میں ناکام رہے۔ اقوام متحدہ میں ایک بار نہیں، کئی بار جانا ہوا۔ پھر آنا ہوا، پھر جانا ہوا۔ اس آنا جانی کرتے کرتے ایک دن ضیاء صاحب کا جہاز فضا میں ”پھٹ“ گیا۔ کشمیر وہیں پڑا رہا۔

بی بی اور میاں صاحب نے بھی اپنی اپنی باری کی۔ میاں صاحب کے خطاب پر بھی قوم واری گئی۔ بی بی کی تقریر بھی ہر تقریر کی طرح تاریخی رہی۔ پر زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد، کشمیر وہیں پڑا رہا۔

مشرف صاحب کو گیارہ ستمبر کا تحفہ نعمت غیر مترقبہ کی طرح ملا۔ اچانک سب پابندیاں اڑن چھو ہو گئیں۔ بش صاحب ڈھلتی عمر میں لنگوٹیا یار بن گئے۔ امداد کے نئے در کھلے۔ افغانستان میں نئی تزویراتی ڈرلنگ کا آغاز ہوا۔ ادھر سے چہرے اٹھا کر ادھر کر دیے گئے۔ ادھر کے چہرے کوئٹہ چلے آئے۔ ہم دو ہاتھوں میں پانچ گیندیں اس دور میں بھی اچھالتے رہے۔ اقوام متحدہ نے آمریت اور جمہوریت کے فرق کو کسی گہری دراز میں ڈالا اور جنرل صاحب نے بھی جنرل اسمبلی سے تاریخ ساز بلکہ تاریخ شکن خطاب کی سعادت حاصل کی۔ لاہور سے آگرہ کے سفر ہوئے۔ ہاتھ ملائے گئے۔ سینے ملائے گئے۔ دل نہیں مل سکے۔ کشمیر وہیں اسی طرح بے دم، بے سدھ پڑا رہا

بی بی کے خون کے طفیل زرداری صاحب بھی دنیا کے سب سے بڑے سٹیج پر پہنچے۔ ایک اور تقریر ہو گئی۔ باری ختم ہوئی تو میاں صاحب کو بھی یہی موقع پھر ہاتھ آیا۔ اسی ڈائس سے ایک دفعہ پھر بھارت کو ناکوں چنے چبوا دیے گئے۔ چنے ختم ہوئے تو پتہ لگا کہ کشمیر اب بھی وہیں ہے جہاں تھا۔

اب یہی موقع خان صاحب کو ملا۔ ہمارا میڈیا، ان کے دوست، ان کے حامی وہی راگ پھر سے سنا رہے ہیں جو ہم ستر سال سے سنتے آ رہے ہیں۔ وہی خبر ہے، ہر کچھ سال بعد اس کے چوکھٹے میں نیا چہرہ لگا دیا جاتا ہے۔ ہر دور حکمرانی میں خانہ کعبہ کا دروازہ اور اقوام متحدہ کا سٹیج دونوں ہمارے حکمرانوں کے لیے کھول دیا جاتا ہے۔ پر نہ کبھی آسمان سے کوئی نعمت نازل ہوئی نہ زمین میں کھنچی سرحدوں میں کوئی تغیر آیا۔ ایک سبز خواب شاید ہی کسی قوم کو اتنی بار بیچا گیا ہو۔ دیکھیے، شاعر بے بدل افضل خان کیسے وقت میں یاد آئے۔

تو بھی سادہ ہے کبھی چال بدلتا ہی نہیں
ہم بھی سادہ ہیں، اسی چال میں آ جاتے ہیں

تقریر ہو گئی۔ مودی صاحب کی بھی ہو گئی۔ خان صاحب کی بھی ہو گئی۔ اس کے بعد انڈیا کے وزیراعظم ایک آئی ٹی سپر پاور کو لوٹ گئے جس کا غیر ملکی زر مبادلہ ساڑھے چار سو ارب ڈالر ہے۔ تین سو ارب ڈالر سے زیادہ کی برآمدات ہیں۔ براہ راست غیر ملکی سرمایہ داری پچھلے ایک سال میں پچاس ارب ڈالر کو پہنچنے کو ہے۔ چین سے لے کر فرانس اور فرانس سے لے کر امریکا تک ہر ملک بھارتی منڈی میں رسائی کا خواہاں ہے۔ دنیا کی تمام مشہور مصنوعات بھارت میں بن رہی ہیں۔ آئی ایم ایف کے مطابق اگلے سال بھارت کی شرح نمو سات اعشاریہ دو فی صد ہو گی۔

ادھر ہمارے وزیراعظم ایسے ملک کو لوٹیں گے جس کا غیر ملکی زر مبادلہ گرتے گرتے پندرہ ارب ڈالر پر جا پہنچا ہے۔ ہماری کل برآمدات کوئی تئیس چوبیس ارب ڈالر ہیں۔ براہ راست غیر ملکی سرمایہ داری پچھلے ایک سال میں منفی ہے، یعنی صفر سے بھی کم۔ کوئی غیر ملکی کمپنی پاکستان میں سرمایہ داری کی خواہاں نہیں۔ ہم کسی ملک کی بی ٹیم کو بھی اس پر آمادہ نہیں کر پاتے کہ وہ یہاں ایک میچ ہی کھیل لیں، طویل المدت سرمایہ کاری تو دور کی بات ہے۔ دنیا میں سب سے تیزی سے قدر کھونے والی کرنسیوں میں پاکستانی روپیہ سر فہرست ہے۔ ہماری اگلے سال کی شرح نمو کا تخمینہ ساڑھے تین فی صد ہے یعنی بھارت کے نصف سے بھی کم۔ ہم ایک ایک ملک کے آگے آدھے سے ایک ارب ڈالر کے لیے کشکول لیے دنیا میں پھر رہے ہیں۔

اس ہات دے، اس ہات لے۔ دنیا کو دینے کے لیے ہمارے پاس کیا ہے کہ اس کے بدلے دنیا ہمیں کچھ دے گی۔ ہمیں تو اس وقت کچھ نہیں ملا جب ہم کسی قابل تھے۔ اب تو ایک انگریزی محاورے کے مطابق فقیر کو انتخاب اور خواہش کا اختیار بھی نہیں رہا۔ کیا نہائیں گے اور کیا نچوڑیں گے۔

تقریر اچھی تھی یا بری تھی، یہ ایک لایعنی بحث ہے۔ تقریر کے داخلی تضاد اپنی جگہ ہیں۔ ایک ملک جو فٹیف کی سیاہ اور سرمئی فہرست کے بیچ جھونجھ رہا ہو، وہ اقوام عالم کو ایک سانس میں امن کا پیغام دیتا ہے اور دوسری سانس میں جوہری جنگ کی دھمکی۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد شاید پہلی دفعہ دنیا نے کسی عالمی رہنما کو یوں جوہری جنگ کو ایک بارگینگ چپ کے طور پر استعمال کرتے دیکھا ہے۔ اس سے کیا پیغام جائے گا۔ کیا دنیا اب اور مشوش ہو کر ہمارے جوہری اثاثوں کو مقفل کرنے کی بات نہیں کرے گی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad