مذہبی سیاست سے پسپائی اور آزادی مارچ


یہ جملہ بارہا دہرایا گیا لیکن اس کے اندر موجود سچ اس کی تازگی برقراررکھے ہوئے ہے۔ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ پاکستانی سیاست آئے روز اس جملے کی عکاسی کرتی رہتی ہے۔ عمر بھر مذہب کو اپنی سیاست کا اوڑھنا بچھونا ٹھہرانے والے مولانا فضل الرحمن پیپلز پارٹی کے مطالبات کے سامنے ڈھیر ہوگئے ہیں۔ حکومت گرانے کے مشن میں مولانا مان کر دے چکے کہ حکومت کی ناکامیوں کی طویل فہرست میں سب کچھ ہوگا سوائے مذہبی سیاست کے۔

یہ بات بظاہر اتنی پریشان کن نہیں بلکہ حوصلہ افزا ہے لیکن ایک جماعت جو ایک صدی سے زائد مذہبی سیاست کی علمبرداررہی ہے کس سہولت سے اپنے وقتی مفاد کے لئے اپنی سیاست کے مرکز سے کنارہ کشی اختیار کر سکتی ہے؟ کوئی اس بات کا غلط مطلب لے اس لئے وضاحت ضروری ہے۔ مذہبی سیاست کرنا کسی بھی جماعت کا اسی طرح حق ہے جس طرح سیکولزم، لبرل ازم، نیشنلزم یا سوشلزم پر مبنی سیاست کسی بھی جماعت کا حق ہو سکتا ہے لیکن کیا پیپلز پارٹی کی کسی تحریک میں مولانا پیپلز پارٹی سے یہ بات منوا سکتے ہیں کہ وہ سیکولرازم کا لبادہ اتار کر اپنی تحریک چلائے؟

اس سوال کو ادھر ہی چھوڑتے ہیں اور آتے ہیں اس بات کی جانب کہ مولانا کے پاس کوئی سیاسی جواز ہے اس حکومت کو گرانے کا؟ موجودہ حکومت کی اب تک کی کارکردگی انتہائی مایوس کن ہے۔ سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ملکی معیشت مکمل طور پر بیٹھ چکی ہے۔ ناتجربہ کاری اور اپنے سوا ہر کسی کو حقیر اور ملک دشمن سمجھنا اس حکومت کی ناکامی کی بہت سی وجوہات میں ایک لیکن بنیادی وجہ ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی حکومت کی ایک سال کی کارکردگی سے اس کے گرانے کا جواز نکالا جا سکتا ہے؟

حکومت مخالف کوئی بھی تحریک در حقیقت موجودہ حکومت کو آکسیجن فراہم کرنے کے مترادف ہے۔ حکومت گرتی ہے یا بچتی ہے دونوں صورتوں میں سب سے زیادہ فائدہ حکومت کا ہے۔ اس وقت نواز شریف اور زرداری کی پالیسی ہی معقول لگتی ہے کہ حکومت کو وقت دیا جائے تا آنکہ اس کی کارکردگی اس مقام تک پہنچے کہ عوام خود ہی اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے باہر نکل آئے اور وہ عوامی غیض و غضب کو خطرناک سطح تک جانے سے روکنے کو جواز بنا کر وہ حکومت کو رخصت کرنے کا مطالبہ کر دیں اور ساتھ ہی ساتھ اسٹیبلشمنٹ کو اپنے حدود کی طرف واپس دھکیل دیں۔

نواز اور زرداری کی حکمت عملی کے برعکس مولانا حکومت سے دو دو ہاتھ کرنے کے لئے بے چین ہیں۔ مولانا کی حالت دیکھ کر وہ لطیفہ یاد آتا ہے جو ہمارے گاؤں کے نوجوانوں میں بہت مشہور ہوا تھا۔ یہ لطیفہ ہمارے گاؤں کے ایک زندہ دل بزرگ کے متعلق تھا۔ کہتے ہیں کہ عنفوانِ شباب میں ہمارے یہ بزرگ اپنے والد کے پاس گئے اور اپنی شادی کا مطالبہ کر دیا۔ بیٹے کی بے چینی دیکھ کر والد صاحب نے استفسار کیا کہ بیٹا آپ مجھے کتنا وقت دے سکو گے؟ سوال سن کر بیٹے نے کہا کہ بابا جان اگر آپ مجھ سے پوچھ رہے ہیں تو میں تو زیادہ سے زیادہ آج شام تک انتظار کر سکتا ہوں۔

مولانا کا اگر بس چلے تو وقت کا پہیہ الٹا گھما کر عمران خان کی حلف برداری کی تقریب ہی سبوتاژ کر دے۔ مولانا کی بے چینی کی وجہ بھی سمجھ آتی ہے۔ عمران خان نے اپنی تمام سیاست میں جتنی تضحیک مولانا فضل الرحمن کی کی ہے شاید ہی پاکستان میں کسی لیڈر نے کسی دوسرے لیڈر کی کی ہو۔ مولانا کی تضحیک عمران خان کے جلسوں کا جزو لاینفک تھا، موسیقی، رقص اور مولانا کا استہزائیہ ذکر، عمران خان کے جلسوں میں تفریح کے بڑے ذرائع تھے۔

عمران اپنے مقام اور مرتبے سے بہت نیچے گر کر مولانا کا تذکرہ کرتے تھے۔ دوسری وجہ الیکشن نتائج تھے، سالہا سال کی محنت اور ریاضت سے مولانا نے جن حلقوں کو اپنا بنا لیا تھا، بیشتر پی ٹی آئی کی جھولی میں گر گئے یا گرا دیے گئے۔ انہی حلقوں پر مولانا کی ساری جماعت کا دارومدار ہے کیونکہ انہی کے بدولت مولانا تقریباً ہر حکومت کا حصہ بنتے آرہے تھے۔ جے یو آئی کے اکثر اکابرین کی حکومتی مراعات اور فنڈز تک رسائی انہی حلقوں کی مرہونِ منت تھی، جس کے باعث ملکی سیاست میں ان کا اثر و رسوخ برقرار رہتا اور ان لیڈرز کے ہاں بھی رونق لگی رہتی جو انتخابی سیاست میں تمام عمر ناکام رہے۔

مولانا کی حکومت میں شمولیت ہی کے باعث مدارس کے مفادات کا تحفظ ہوتا اور ان کی مدد کی جاتی۔ مدارس کا انتظام و انصرام چلانے والے اشخاص کو بھی امید ہوتی کہ کسی دن ان کے دن بھی پھر جائیں گے۔ اسی طرح مدارس سے فارغ التحصیل ہونے والے طلباء کو بھی اپنے گردوپیش میں موثر زندگی گزارنے کی آرزو کی باریابی کا راستہ جمیعت علماء اسلام تک جاتا نظر آتا اور اس طرح جس نظام کے اندر انہوں نے اپنا سارا بچپن گزارا ہوتا اسی سے وابستہ رہنے اور مزید فعال ہونے کو ہی سود مند پاتے۔ اس لئے حکومت سے وابستگی مولانا کی ذاتی خواہش اور فائدے سے زیادہ ان کی سیاسی ضرورت ہے، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ہمیشہ تنقید اور طعنے برداشت کیے لیکن اس حوالے سے اپنے پائے استقلال میں لعزش نہ آنے دی۔

مولانا اگر پی ٹی آئی کی حکومت گراتے ہیں تو سب سے زیادہ فائدہ بہر حال پی ایم ایل ن اور پیپلز پارٹی کو ہوگا، اس لئے مولانا کے لئے سودمند نہیں کہ وہ ملک اور ملکی سیاست کو مزید عدم استحکام کا شکار کرنے کا الزام اپنے سر لیں۔ مولانا کو چاہیے کہ ٹھنڈا کر کے کھائیں اور صرف اسی صورت میں اپنی بے پناہ سٹریٹ پاور کو فعال کریں جب یہ دونوں جماعتیں حکومت گرانے کے لئے باہر نکل آئیں۔ ہونا اس طرح چاہیے تھا لیکن ایسا ہوگا نہیں۔

اس لئے ہم اس سوال کی طرف آتے ہیں کہ کیا مولانا حکومت کو چلتا کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے؟ اس سوال کا ایک پہلو بہت اہم ہے اور وہ یہ کہ عمران خان کی شہرت اور لوگوں بالخصوص نوجوانوں جن کی تعداد سات کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے کے دلوں میں ان کی محبت۔ اس کا ایک نظارہ ہم نے دو دن پہلے اقوام متحدہ میں عمران خان کی تقریر کے موقع پر دیکھ لیا۔ خان صاحب کی زبان سے نکلنے والے چند جملے اس ملک کے لوگوں کے لئے کسی اکسیر سے کم نہیں، وہ یک دم اپنے تمام زخم بھلا کر مسکرانے لگتے ہیں، توانائی کا سمندر ان میں موجزن ہوجاتا ہے اور ان کے رگ و پے میں بجلی دھوڑنے لگتی ہے۔

عین ممکن ہے کہ مولانا اسلام آباد کے لئے رختِ سفر باندھ رہے ہوں اور عمران خان ڈومیسٹک فلائٹ لے کر سات سمندر پار پہنچ جائیں، مائیک کے سامنے کھڑے ہو کر پوری دنیا کو اسلامو فوبیا پر کوئی تقریر جھاڑ دیں۔ چند نپے تلے فقرے اور پوری دنیا کا میڈیا! پندرہ منٹ کی تقریر سوشل میڈیا پر طوفان کھڑا کر سکتی ہے، مولانا اسلام آباد ہوں گے اور پورا پاکستان عمران خان کو سلطان صلاح الدین قرار دے کر مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کے نغمے گانے لگے گا، لوگ مولانا فضل الرحمن کے پیچھے لٹھ لے کر پڑ جائیں گے۔

جہاں تک جے یو آئی کی سٹریٹ پاور کا تعلق ہے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس میدان میں جماعت اسلامی اور جے یو آئی کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ مولانا کو دمادم مست قلندر کرنے کے لئے زیادہ محنت یا تگ و دو کی ضرورت نہیں۔ بس ٹرک وغیرہ چاہیے ہوں گے اور اسلام آباد روانگی۔ مدارس میں پڑھنے والے طلباء کے لئے اسلام آباد جانا تفریحی دورے کی مانند ہے۔ ساتھ اساتذہ ہوں گے، سبق کی دہرائی جاری رہے گی اور چل سو چل۔ یادش بخیر مشرف کو وردی اتارنے کی ڈیڈلائن کے بدلے آئینی ترمیم سے نوازنے کے بعد جب مشرف نے وعدہ خلافی کی تو مولانا ایم ایم اے کے لاؤ لشکر کے ساتھ مشرف کی وردی اتروانے کے لئے مارچ کرنے لگے۔

جناب قاضی حسین احمد اپنے سرفروش کارکنوں کے ساتھ مولانا کے ہمراہ تھے۔ شہر درد شہر گشت کرنے کے بعد ایم ایم اے مشرف کی حکومت تو کیا وردی بھی نہ اتروا سکی۔ اللہ بھلا کرے عمران خان کا جنہوں نے اقتدار کے واسطے اسلام آباد لاک ڈاؤن کرنے کی اصطلاح متعارف کرائی۔ اسلام آباد کے باسی تیار رہیں، اگر مولانا کو ان کے جانثاروں کے ہمراہ اسلام آباد آنے کا موقع ارزاں ہوا تو اسلام آباد کی فضا ایک مرتبہ پھر سیاسی تعفن کا شکار ہوگی، انسانی بنیادوں پر کام کرنے والی تنظیمیں بیت الخلا تعمیر کرکے لاک ڈاؤن کے شرکاء اور اسلام آباد کے باسیوں دونوں پر احسان کر سکتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).