ہیروکی موراکامی کی کہانی ”عزیز از جاں محبوبہ“۔


مصنف ہیروکی موراکامی (جاپانی کہانی)

مترجم:عدیل عباس عادل

اپریل کی ایک خوبصورت صبح تھی، میں ٹوکیو کے پڑوس میں واقع پُر وضع شہر ہیراجوکیو کی ایک تنگ گلی میں ایک من بھاتی لڑکی کے پیچھے گیا۔ سچ بتاؤں تو، وہ کچھ زیادہ خوبصورت نہ تھی اور نہ ہی ایسی کہ نظریں اس پہ ُرک جائیں۔ اُس کے کپڑے بھی کچھ خاص نہ تھے۔ رات بھر کی نیند کے باعث ابھی تک اس کے بال بری طرح اُلجھے اور بگڑے ہوئے تھے۔ وہ جوان نہ تھی، یہی کچھ تیس کے پیٹے میں ہو گی۔ دراصل اُسے اک دو شیزہ کہنا مناسب نہ تھا۔ پر اُس سے پچاس گز کے فاصلے پہ بے حس و حرکت کھڑا میں یہی جانتا تھا کہ یہی لڑکی میری عزیز از جاں محبوبہ ہے۔ جس لمحے میں نے اسے دیکھا میرے سینے سے اک چیخ سی اٹھی، اور میرا منہ کسی صحرا کی مانند خشک ہو گیا۔

ممکن ہے کہ محبوبہ کے بارے میں آپ کی ترجیحات کچھ خاص ہوں۔ کوئی کہتا ہے ایڑی تک پتلی ہو، یا اس کی بڑی بڑی آنکھیں ہوں، یا سجیل خدوخال ہوں، ہم میں سے کوئی بھی لڑکی کی ایسی تصویر پیش نہیں کر سکتا جو ہر اک کی خواہش کے مطابق ہو، بالکل اسی طرح میری اپنی ذاتی ترجیحات ہیں۔ چونکہ مجھے اس کی پتلی ناک پسند ہے اس لیے بسا اوقات کسی ریستوران میں ’میں اپنے آپ کو ساتھ کی ٹیبل پہ بیٹھی لڑکی کو گھورتے ہوئے پاتا ہوں۔ کوئی بھی اس بات پر اصرارنہیں کرتا کہ اس کی محبوبہ پہلے سے طے شدہ کسی معیارِ حسن کے عین مطابق ہے۔ جیسا کہ مجھے ناک پسند ہے تو میں اُس کے خدوخال کو ذہن میں نہیں لاتا حالانکہ وہ سب کچھ رکھتی ہے۔ ہے نا عجیب بات کہ خود کو اِس بات کا یقین دلانے کے لیے کہ وہ کوئی حسین شاہکار نہیں میں کئی باتیں سوچ سکتا ہوں۔ میں نے کسی کو بتا یا کہ کل میں اپنی اسی عزیز ازجاں محبوبہ کے پاس سے گزرا ہوں۔

اس نے کہا: ”کیا سچ میں وہ خوبصورت ہے؟ “۔

میں :نہیں! وہ اس طرح کی تو نہیں ہے جیسا کہ تمہاری پسند۔ میں نہیں جانتا! اس کی آنکھیں کیسی ہیں، اس کے سینے کے زیرو بم کیسے ہیں۔ میں اس کے متعلق کوئی ایسی بات نہیں سوچ سکتا۔

وہ:عجیب بات ہے؟
میں :ہاں! عجیب بات ہے۔

وہ مکمل بیزاری سے کہتا ہے :اچھا تو پھر تم نے کیاکیا؟ اس سے بات کی؟ اس کے پیچھے گئے؟
میں : نہیں ’محض گلی میں اس کے پاس سے گزرا
ہوں۔

وہ مشرق سے مغرب کو جا رہی ہے اور میں مغرب سے مشرق کو۔ یہ اپریل کی ایک دلکش صبح ہے۔ کاش میں اس سے بات کر سکتا۔ ڈیڑھ گھنٹے کے قریب وقت گزرا ہو گا۔ میں نے صرف اُس سے اُس کا نام پوچھا اور اس کو اپنے متعلق بتایا۔ حقیقت میں مجھے کیا کرنا چاہیے تھا؟ دراصل مجھے اسے کبھی نا بھولنے والا اک راز اور قسمت کی ستم ظریفی بتانا تھی کہ 1981 میں اپریل کی ایک خوبصورت صبح کو ہیرا جوکیو میں ہم ایک دوسرے کے قریب سے گزرے تھے۔

گپ شپ کے بعد ہم نے کہیں کھانا کھایا، یاد پڑتا ہے کہ ووڈی ایلن کی کوئی فلم بھی دیکھی۔ اس کے بعد ہوٹل بار میں کچھ کاکٹیل چلی اور شاید پھر ہم بستر پر آن گرے تھے۔ ان تمام یادوں نے دل کے دروازے پر اک شدت بھری دستک دی۔ اب ہمارے درمیان کا یہ تمام فاصلہ سمٹ کر پچاس گز ہو گیا تھا۔ میں اس تک کیسے پہنچ سکتا ہوں؟ مجھے اس سے کیا کہنا چاہیے؟

صبح بخیر محترمہ! آپ کے خیال میں کیا آپ گفتگو کی خاطراپنے ڈیڑھ گھنٹے دے سکتی ہیں؟

یوں تو انتہائی مضحکہ خیز ہے۔ ایسے میں تومیں کسی بیمہ پالیسی کے سیلز مین کی طرح نظر آؤں گا۔
معاف کیجیے گا! کیا آپ پسند کریں گے کہ رات بھر آپ کے پہلو میں کوئی دھوبی ہو؟
نہیں! میں نے کوئی لانڈری نہیں اٹھا رکھی یہ تو فقط ایک چٹکلا تھا ورنہ میں کون سا کوئی ایسی بات کہنے لگا تھا۔

ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ بالکل سادہ انداز میں یوں کہا جائے۔ ”صبح بخیر! آپ مکمل طور پر مجھے عزیز از جاں اور محبوب ہو“۔ نہیں! وہ اس بات کا یقین نہ کرے گی یا ہو سکتا ہے وہ مجھ سے بات بھی نہ کرنا چاہے، ہوسکتا ہے وہ کہے ”ممکن ہے کہ میں مکمل طور پر آپ کو عزیز از جاں اور محبوب ہوں پر معاف کیجیے گا آپ میرے لیے مکمل طور پر عزیز از جاں اور محبوب نہیں“۔ اگر کچھ ایسا معاملہ ہو جاتا ہے اور میں خود کو ایسی حالت میں پاتا ہوں تو یقیناً میں تو بکھر کے رہ جاؤں گا، پھر کبھی بھی اپنے آپ کو پہلے سا نہیں پا سکوں گا اور نہ ہی کبھی خود کو اس سانحے سے نکال پاؤں گا۔ ابھی تو میں بتیس سال کا ہوں باقی کی زندگی کیسے گزاروں گا۔

ہم پھولوں کی ایک دکان کے سامنے سے گزرے۔ سڑک پر شبنم گری ہوئی تھی۔ ذرا سی گرم ہوا نے میری جلد کو چھوا۔ میں پھولوں کی خوشبو میں گرفتار سا ہو گیا۔ مجھ میں اُس سے بات کرنے کی ہمت پیدا نہ ہوسکی۔ اس نے سفید سویٹر پہن رکھا تھا اور دائیں ہاتھ میں اس نے ایک سفید کورا اور بے رنگ لفافہ تھام رکھاتھا۔ یقیناًاُس میں اُس نے کوئی خط لکھ َر کھا تھا، اس کی خوابیدہ آنکھوں سے ممکنہ طور پر یہ محسوس کیا جا سکتا تھاکہ تما م رات اس نے لکھنے میں گزاردی ہوگی۔ یہ لفافہ کچھ ایسا ہی رازلیے ہوئے تھا۔ میں کچھ قدم مزید آگے بڑھا اور مڑ گیا۔ وہ بھی ہجوم میں کہیں کھو گئی۔

یقیناً میں اچھی طرح جانتا تھا کہ مجھے اس سے کیا کہنا چاہیے تھا۔ اگرچہ میں مکمل طور پر اُسے اپنے حالِ دل سے آگاہ نہ کر سکتا تھا مگر پھر بھی گفتگو کا اک طویل سلسلہ ہونا چاہیے تھا۔ میرے ذہن آنے والا خیال کچھ زیادہ قابل عمل نہ تھا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2