پشاور میں ڈاکٹروں کے احتجاج کی وجوہات


یورپ میں صنعتی ترقی، ٹریڈ یونینز اور جمہوریت کا آغاز ساتھ ساتھ ہوا۔ مزدور دیہاتوں میں کام کرتے تھے تو ان کی مشکلات انفرادی تھیں۔ جب وہ شہروں میں آے اور کارخانوں میں کام شروع کیا تو وہاں پیش آنے والے مسائل اجتماعی نوعیت کے تھے جس سے ان میں مشترکہ سوچ کا ظہورہوا اور مزدوروں میں گروپ بندی شروع ہوگئی۔ مزدور اپنے مسائل کے حل کے لئے توڑ پھوڑ کرنے لگے تو سرمایہ داروں نے محسوس کیا کہ سارے مزدوروں کوایک ساتھ راضی کرنا مشکل ہے اس لئے یونین کا آغاز کیا گیا۔

اسی وجہ سے کہا جا تاہے کہ ٹریڈ یونین سرمایہ داری نظام کا حصہ ہی ہے۔ ان تنظیموں نے سرمایہ دار اور مزدور دونوں کے مفادا ت کا خیال رکھتے ہوے صنعتی ممالک میں ترقی کی بنیاد رکھی۔ بارک اوباما کے دور میں امریکہ کی سیکریٹری آف لیبرہیڈاسولس کا کہنا ہے، ”ہمیں، لوگوں کویاد دلانا چاہیے کہ یونینزسازی کا ہماری معیشت (کی بہتری) میں اہم کردار رہا ہے۔ “

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سرمایہ دار مضبوط ہو گیا تو اس نے مزدوروں پر سختیاں شروع کر دیں اور مزدور یونینز کمزور ہوتی گئیں۔ اسی کی دہائی میں سویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد سرمایہ داری نظام اور حکومتوں کو کیمونزم کا خوف تقریباً ختم ہو گیا، جس سے انہوں نے مزدوروں کو اور زیادہ دبانا شروع کر دیا اور مزدور تنظیمیں مزید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتی گئیں۔

انگلینڈ کے قومی شماریات کی ادارے کی رپورٹ کے مطابق 2017 میں پورے ملک میں مزدوروں کی ہڑتالوں کی تعداد 79 رہی جو کہ پچھلے ایک سو بیس سال میں سب سے کم ہے۔

صرف ہڑتالوں میں ہی نہیں، ٹریڈ یونینز کی ممبر شپ میں بھی کمی واقع ہوئی۔ ڈیپارٹمنٹ براے بزنس، انرجی اور سٹراٹیجی کے مطابق اب صرف 23.2 فی صد ملازمین یونین کا حصہ ہیں جو کہ سال 1970 میں موجود تعداد سے نصف ہے۔ یونینز کی کمزوری کی وجہ سے مزدوروں کے حالات خراب ہوتے جارہے ہیں۔ ایمزوں یو کے میں کام کرنے والی خواتیں کے بارے میں گوگل مائی بزنس کے افسر میک ریکس کہتے ہیں ”حاملہ خواتیں نے ہمیں بتایا ہے کہ انہیں دن میں دس دس گھنٹے کھڑے رہنے پر مجبور کیا جاتا ہے، اس کے ساتھ وزن اٹھانا، جھکنا، کھینچنا، بھاری چھکڑوں کو دھکالگانا اور کئی کئی میل پیدل بھی چلنا پڑتا ہے، جس سے حاملہ ماں پر برے اثرات پڑتے ہیں اور بعض مرتبہ حمل ضائع بھی ہو جاتے ہیں۔ “

ترقی پذیر میں ممالک میں قانون کمزور اور سرمایہ دار بہت مضبوط ہوتا ہے۔ وہ یونین سازی کو پسند نہیں کرتا۔ خصوصی طور پر ان ممالک میں جہاں فوجی حکومتیں موجود رہی ہیں وہاں تو ہرقسم کی یونین سازی کو سخت پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ان ممالک میں جوں جوں مزدوروں پر پابندیاں سخت ہوتی گئیں نوجوانوں کی تنظیم سازی میں دلچسپی بھی کم ہوتی گئی کیونکہ وہ اپنے مستقبل کے بارے میں زیادہ فکر مند ہوتے ہیں اور ان کونوکری کے ضائع ہونے کا خوف بھی زیادہ ہوتا ہے۔ جس وجہ سے انگلینڈ جیسے ملک میں بھی ان کی نسبت پچاس سال کے اوپر کے لوگ مزدوروں کی سیاست میں زیادہ حصہ لیتے ہیں۔ جب مزدور دبا لئے گئے تو تعلیم یافتہ افرادپر بھی سختیاں شروع ہو گئیں جس سے پروفیشنل لوگوں کوتنظیموں کی زیادہ ضرورت محسوس ہونا شروع ہوگئی۔ اب یونیورسٹی کے اساتذہ، ڈاکٹرز، وکیل صحافی اور کمپیوٹر انجینئیرز مزدوروں کی نسبت یونین سازی پر زیادہ وجہ دیتے ہیں۔ انگلینڈ میں بھی اب مزدوروں کی نسبت ان کی ہڑتالوں کی تعداد بڑھ گئی ہے۔

اس کی سب سے بڑی مثال ہمیں سوڈان اور مصر سے ملتی ہے۔ جہاں فوجی حکومتوں کے خلاف یہی لوگ عوام کی قیادت کر رہے ہیں۔ سوڈان میں تو ”سوڈانی پروفیشنل ایسوسی ایشن“ کے بینر کے نیچے سترہ مختلف ٹریڈ یونینز اکٹھی ہو گئیں۔ جب سوڈان کی یونیورسٹی لیکچرار ز کی یونین نے محسوس کیا کہ وہ اکیلے اتنے مضبوط نہیں کہ کچھ کر سکیں تو انہوں نے اپنے ساتھ ڈاکٹرز کی یونین اور استادوں کی ایک کمیٹی کو ملاکر اس کی بنیاد رکھی۔ بعد میں ان کے ساتھ وکلا اور صحافیوں کی تنظیمیں بھی شامل ہو گئیں۔ انہوں نے عوام کی قیادت کرتے ہوے فوجی حکمران کو تختہ الٹ دیا۔ اب ان کا ایک ممبرگیارہ رکنی سوڈانی عبوری حکومت میں شامل ہے۔

پاکستان میں طالبعلموں کی یونین سازی پر پابندی ہے۔ مزدور تنظیمیں کمزور ہیں۔ فیکٹریاں اور ملیں زیادہ تر ملازم تھرڈ پارٹی (ٹھیکیدار) کے ذریعے روزانہ کی اجرت کی بنیاد پر بھرتی کرتی ہیں۔ حکومتی ادارے بینک، ہسپتال، جامعات، بلدیات سب اسی طریقے کو اختیار کیے ہوے ہیں۔ مزدورپس رہے ہیں۔ بیمار ی کی وجہ سے ایک دن کی بھی چھٹی کر لیں تو مزدوری نہیں ملتی۔ اب حکومت کا اگلا ٹارگٹ سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں اور ہسپتالوں میں پروفیشنل لوگوں کوبھی اسی طرح بھرتی کرنے کا ہے۔ جس سے ان میں بے چینی بڑھتی جا رہی ہے۔

پچھلے دنوں خیبر پختون خواہ کی صوبائی اسمبلی نے ایک نیا قانون (ریجنل اینڈ دسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹی ایکٹ، 2019 ) منظور کیا ہے جسے ڈاکٹر ہسپتالوں کی پرائیویٹائزیشن کے مترادف گردانتے ہیں۔ باقی صوبوں میں بھی اسی طرح کے قوانین لاگو کرنے کی تیاری کی جارہی ہے۔ ڈاکٹرز، پیرا میڈکل سٹاف، نرسزاور محکمہ صحت کے دوسرے سٹاف نے گرینڈ ہیلتھ الائینس کے نام سے ایک اتحاد بنایا ہے اور وہ صوبائی حکومت کے خلاف شدید احتجاج کر رہے ہیں۔

اس کے بعدتحریک انصاف کے مضبوط گڑھ پشاور میں ڈاکٹروں اور حکومت کے درمیان ایک بار پھرلڑائی شروع ہو گئی ہے۔ پشاور کا لیڈی ریڈنگ ہسپتال میدان جنگ بن گیاہے۔ لاٹھی چارج، شیلنگ اور گرفتاریاں جاری ہیں۔ پولیس کے تشدد سے ڈاکٹرز، خواتین، نرسز اور پیرا میڈیکل سٹاف کے متعددافراد شدید زخمی ہیں۔ کچھ ڈاکٹرز کو ایک ماہ کے لئے جیل بھیج دیا گیا ہے۔ ہسپتال میں توڑ پھو ڑ جاری ہے۔ دفعہ 144 نافذ ہے۔ ان کی حمائیت میں باقی صوبہ کے ہسپتال اور پرائیویٹ کلینک بھی بند ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ اگلے ماہ سیاسی جماعتیں بھی حکومت کے خلاف سڑکوں پر آنے کا پروگرام بنا رہی ہیں۔ اگر اس مسئلہ کو حل نہ کیا گیا تو بات بگڑ بھی سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).