غُربت اور بے روزگاری


نوجوان ہر قوم کا اثاثہ سمجھے جاتے ہیں۔ جو قوم اور ملک کی ترقی میں نہ صرف اہم اور ذمہ دارانہ کردار ادا کرتے ہیں بلکہ معاشرے کو اخلاقی اقدار، سماجی، ثقافتی اور تخلیقی ذہنوں سے روشناس کرواتے ہیں۔ دنیا کے بڑے ملکوں کی ترقی کا راز تعلیم کے ساتھ ساتھ نوجوانان مملکت ہی ہیں۔ یہ نوجوان اور پڑھے لکھے لوگ کسی بھی خطے میں کتنا اہم کرادر ادا کرتے ہیں اس کی مثال ہم قائد اعظم کے ساتھ مل کر آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والے نوجوانوں سے لے سکتے ہیں۔جنہوں نے انتھک محنت اور کوششوں سے ناممکن کو بھی ممکن بنایا۔

لیکن آج کے اس کٹھن دور میں انہی نوجوانوں کی بیروزگاری پوری دنیا میں ایک المیہ بن چکا ہے۔ جس کا حل خاص طور پر وطن عزیز میں دور تک دکھائی نہیں دیتا۔ بے روزگاری کا مطلب ہے کے معاشرے میں ایسے لوگوں کا موجود ہونا جو کام کرنے کی اہلیت بھی رکھتے ہوں مگر مناسب مواقع فراہم نہ ہونے کی وجہ سے کام نہ کر رہے ہوں۔

ہم جانتے ہیں کے ہمارے معاشرے میں عام سماجی بے چینی موجود ہے۔ اکثر لوگ ناخوش اور بڑھتی ہوئی مہنگائی سے پریشان ہیں۔ سماجی اور معاشی حالات طلباء کے اندر بے چینی کا باعث ہیں۔ مثال کے طور پر یہ بے روزگاری انہیں یہ سوچنے پر آمادہ کرتی ہے کہ ان کی تعلیم انھیں روزگار میں مدد نہ دے سکے گی۔ جس سے معاشرے میں بڑھتی ہوئی بُرائیاں، دھوکہ دہی، جھوٹ، نا انصافی، عدم مساوات، چوری ڈاکے جیسی خرافات عام ہورہی ہیں۔

جس معاشرے میں نا انصافی، غربت، بے روزگاری پر قابو نہ پایا جاسکے وہ معاشرہ ایسی ہی برائیوں کی جانب گامزن رہتا ہے۔ ایک مشہور مقولہ ہے کے غربت اور مہنگائی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ پاکستان کی عوام پچھلے کئی سال سے اس کی بہترین مثال بنے ہوئے ہیں۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور غربت نے مزدور طبقے سے نہ صرف دو وقت کی روٹی چھین لی بلکہ لوگوں کو خود کشی پر بھی مجبور کردیا۔

پاکستان لیبر فورس سروے کے مطابق 97۔ 1996 میں بے روزگاری کی شرح 6.1 فیصد تھی۔ جو 2002 میں بڑھتی ہوئی 7.8 فیصد تک جاپہنچی جس کے باوجود اقتدار میں آنے والی حکومتوں نے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہ کیے۔ اس کے برعکس ہمسایہ ملک بھارت جہاں بے روزگاری کی شرح 2009 میں 9.40 فیصد تھی جبکہ پاکستان میں اوسطً شرح 6 فیصد سے اوپر ہی رہی ہے۔ جو 2013 میں بھی 6.5 فیصد اور 2017 میں 6 فیصد تک تھی۔

ایک سروے کے مطابق پاکستان میں اب بھی دو ملین سے سے زیادہ لوگ ایسے ہیں جو بالکل بے روزگار ہیں۔ جو کبھی بھی جرائم پیشہ جواری یا شرابی افراد کی لسٹ میں آکر دیمک کا باعث بن سکتے ہیں۔ اس وقت عام آدمی کی زندگی بہتر بنانے والے ملکوں میں پاکستان 146 ویں نمبر پر ہے جو بگڑتی ہوئی معیشت، بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری کی طرف اشارہ ہے۔ جس کی وجہ سے پاکستان آئی ایم ایف سے قرضے لینے پر مجبور رہا ہے۔ اور باوجود اس کے کوئی خاطر خواہ اقدامات نظر نہیں آتے۔

طلباء و طالبات بھاری فیسیں ادا کرکے بمشکل اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرکے ڈگریاں حاصل کرتے ہیں۔ لیکن متعلقہ شعبوں میں مواقع نہ ہونے سے مایوسی کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔ یوں تو سیاستدان الیکشنز جیتنے کے لیے روٹی کپڑا مکان اور روزگار جیسے صرف نعرے ہی لگاتے ہیں لیکن اقتدار میں آتے ہی انھیں لوگ اور ان سے کیے گئے وعدے بھول جاتے ہیں، نتیجتاً غریب لوگ غریب تر ہوجاتے ہیں۔ اکنامک سروے 2016۔ 2015 کے مطابق % 39 لوگ اب بھی غربت کی زندگی گزارنے پہ مجبور ہیں۔ ورلڈ بنک کے مطابق اگر کوئی بالغ انسان بین الاقوامی سطح پر 1.25 یو ایس ڈالر اور لوکل کرنسی کے تحت 205 روپے کمائے تو بھی % 21 آبادی غربت کی لکیر سے نیچے ہے۔ اب غربت اور معیشت کا ملبہ ایک بار پھر حکومت وقت اور تبدیلی سرکار کے سر ہے۔

ستر سال سے جاری معیشت کے عدم استحکام کو کس طرح اور کس حد تک بہتر کیا جاسکتا ہے؟ گزشتہ سات دہائیوں سے معیشت کے بُرے حالات کو نہ صرف بہتر بنانے بلکہ صفحہ اول کے ممالک کے برابر لانے میں کیا اقدامات کیے جائیں گے؟

محبوب علی، فیصل آباد
Latest posts by محبوب علی، فیصل آباد (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).