آخری عمر میں دادا سٹھیا گیا ہے


پیش منظر:

ڈھلتا سورج۔ مغرب کی سمت، آدھے آسمان پر غروب ہوتے سورج کی سرخ و نارنجی ڈوبتی روشنی۔ مشرقی سمت اندھیرے کا آغاز۔ کچھ ہی دیر میں اندھیرا چھا جانے اور رات کی عملداری کا مرحلہ۔ ایک درخت کی شاخوں پر پاوں اور پنجے جمائے، سر زمین کی طرف کیے، اُلٹے لٹکے ہوئے بہت سے چمگادڑ۔

ایک چھوٹا چمگادڑ جس نے گزشتہ رات پہلی بار انسانی آبادی میں بسر کی اور منہ اندھیرے واپس آ گیا اور صبح سے کسی سوچ میں تھا۔ اس نے بوڑھے دادا چمگادڑ سے کہا، دادا اک سوال کروں؟ دادا نے اجازت دی تو چھوٹے چمگادڑ نے سوال کیا: دادا ہم چمگادڑ اُلٹے کیوں لٹکے رہتے ہیں، جبکہ تمام انسانوں کو میں نے پیروں کے بل چلتے اور سر کو اُوپر آسمان کی جانب کیے دیکھا ہے۔ لیکن ہمارے سر نیچے زمین کی جانب اور پاوں آسمان کی جانب کیوں ہوتے ہیں۔

دادا نے قہقہہ لگایا اور کہا۔ تم سے کس نے کہا کہ ہم اُلٹے ہیں۔

چھوٹے چمگادڑ نے کہا: دادا، تمام انسانوں اور جانوروں کے سر آسمان کی طرف اور پاوں زمین کی جانب ہیں لیکن ہم چمگادڑوں کے پیر آسماں کی طرف لیکن سر زمین کی طرف ہیں تو پھر ہم اُلٹے ہی ہوئے نا۔

دادا مسکرائے اور کہا: کہ بات اُلٹ اور سیدھ کی نہیں۔ بات صرف نظریے اور سمجھ کی ہے۔

ہم چمگاڈر اُلٹ نہیں بلکہ در حقیقت انسان اُلٹ ہیں۔ انسان ہر شے کو اپنے خود ساختہ آئینے میں دیکھتا ہے۔ آئینہ ہمیشہ اُلٹ دِکھاتا ہے۔ انسان اُس اُلٹ یا عکس کو ٹھیک سمجھتا ہے۔ اسی اُلٹ کو سیدھا سمجھ کر اور دیگر ایسے افراد کو، جو اسی اُلٹ کو سیدھا سمجھتے ہیں ان سے ہی تعلق بناتا ہے اور اس طرح، اُلٹ کی مسلسل تکرار اور تسلسل کی بنا پر سیدھے کا تصو ر ہی ختم ہو جاتا ہے۔ سب اُلٹ مل کر، اُلٹ کو ہی معیار بنا لیتے ہیں۔ اور سیدھے سے مراد اُلٹ ہونا طے پا جاتا ہے۔ اسی لیے انسانوں کے تمام معیار اُلٹے ہوتے ہیں۔

چھوٹا چمگادڑ، دادا سمجھ نہی آئی۔ اُلٹے تو ہم لٹکے ہیں تو پھر انسان کیسے اُلٹ ہوگئے۔

داد چمگادڑ پھر مسکرائے اور کہا۔ انسانوں کے ساتھ وقت گزار آئے ہو نا۔ اُلٹ لوگوں کی اُلٹ سوچ پر مبنی معیار کو ہی درست مان لیا نا۔

دادا چمگادڑ پھر چھوٹے چمگادڑ سے مخاطب ہوئے۔ لو انسان کی ابتدا پر غور کرو۔

انسان کی ابتدا حضرت آدمؑ سے ہوئی۔ آدمؑ نے خود اپنے لئے ساتھی کی طلب کی، اس استدعا کے نتیجے میں، اماں حوا کی تخلیق کی گئی۔ پھر دونوں سے اللہ کے حکم کی نافرمانی ہوئی، مگر الزام حوا کے سر گیا، آدمؑ اپنی عقل جانے کیوں استعمال نہ کی۔ پھر سزا کے لئے زمیں پر بھیج دیا گیا۔ پھر معافی اور ساتھی کے لئے گریہ زاری ہوئی۔ معا فی ملی، اکٹھے ہوے، پھر نسلِ انسانی کی تشکیل کا آغاز کر دیا۔ ں سلِ انسانی کا مقصد پھر وہی جنت کا حصول۔

جس ایک حوا پر جنت سے نکلنے کا الزام، اسی حوا کے ساتھ دنیا میں قیام اور پھر مقصدِ حیات بھی وہی جنت جہاں سے نکالے گئے اور حوا کی طرح سے پھر بہتر حوروں کی طلب۔ وہ عقل کہاں گئی کہ اک حوا کے سبب جنت سے نکلے، پھر اسی جنت کی طلب، پھر بہتر حوروں کی طلب۔ یہ بھی نہیں سوچتے کہ ایک کے سبب جنت سے نکلے اور زمیں پر آ پہنچے۔ تو بہتر کے سبب جنت سے نکالے گئے تو کہاں جائیں گے۔ دادا چمگادڑ نے چھوٹے چمگادڑ کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہوے کہا، بیٹا انسان اتنا سمجھدار نہیں جتنا کہ اس نے خود کو، اپنے تئیں مشہور کر رکھا ہے۔

چھوٹا چمگادڑ ابھی اس موئقف کو سمجھ نہی سکا اور اصرار کیا، کہ دادا لیکن انسان تو اشرف المخلوقات ہے۔

دادا چمگادڑ نے چھوٹے چمگادڑ کی طرف دیکھا اور مخاطب ہوئے : تو اشرف ا لمخلوقات سے کیا مراد ہے۔ اشرف سے مراد دُوسروں سے بہتر ہونا ہوتا ہے۔ بتاؤ ذرا کہ انسان کس مخلوق سے اشرف و بہتر ہے۔

جسمانی صلاحیتوں کی بات کرو تو کیا انسان اُلٹا لٹکنے میں، چمگادڑ سے زیادہ بہتر ہے، بھاگنے میں ہرن یا چیتے سے اچھا ہے۔ نظر میں باز یا دیگر جانوروں سے زیادہ صلاحیت رکھتا ہے۔ موسم کی سردی یا گرمی اور حالات سے لڑنے کی صلاحیت جانوروں کے مقابلہ کتنی ہے۔ رویوں کی بات کرو تو وفاداری کے لئے کتا اور گھوڑا مشہور ہیں، امن کے لئے فاختہ، معصومیت کے حوالے سے پرندے اور خرگوش اور ہرن۔ جسمانی تحفظ و بقا کی خاطر سانپ، بچھو کے زہر؛ شیر، چیتا، کتے، بھڑیے کے دانت، لومڑی کی چالاکی، گرگٹ کا رنگ بدلنا، پرندے کا اڑنا، ان کے ہتھیار ہیں۔

اب بتاؤ انسان کس صلاحیت میں دیگر مخلوقات سے اشرف ہے۔ انسان نے اگر اپنے تحفظ کے لئے کچھ اوزار بنائے ہیں تو جانوروں نے بھی تو اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کیا ہے۔ انسان اپنی مصنوعی ایجادات کے بغیر نہ تو سردی و گرمی ک ا مقابلہ کر سکتا ہے۔ نہ بیماری اور جان کا تحفظ کرنے کے قابل ہے۔ اپنی غذا اور خوراک تک کو فطری انداز میں نہیں کھا سکتا۔ بتاؤ کہ انسان اشرف المخلوقات کس طرح ہو سکتا۔

جانور اپنی خوراک کے لئے شکار کرتا ہے، پیٹ بھرنے کے بعد کچھ نہی کھاتا جبکہ انسان کھاتا کم اور جمع زیادہ کرتا ہے۔ اتنا جمع کرتا ہے کہ دوسرے بھوک سے مر جاتے ہیں۔ جانور دھوکا نہیں دیتا، بوقتِ ضرورت گھات لگا کر شکار کر لیتا ہے مگر انسان کسی بھی وقت دھوکا دے سکتا ہے۔ کسی بھی وقت ذاتی فائدے کے لئے کسی کو بھی مار دیتا ہے۔ جانور اپنی اولاد کے لئے جان تک قربان کر دیتا ہے۔ انسان محض جنس کی تسکین کے لئے دوسری شادی کے نام پر پرانی ساتھی بیوی اور بچوں کے قتل تک کا ارتکاب کر دیتا ہے۔ عورت نئے مرد کے لئے دھوکہ دے دیتی ہے۔ بچے اور شوہر کو قتل کر دیتی ہے۔ بچے فروخت ہوتے ہیں۔ اعتبار بکتا ہے، انسان بکتا ہے۔ بتاؤ انسان کس طرح اشرف المخلوقات ہے۔

چھوٹا چمگادڑ بولا، لیکن دادا انسان کے پاس عقل ہے جس کی وجہ سے وہ اشرف المخلوقات ہے۔

چمگادڑ دادا نے کہا: عقل کیا ہوتی ہے۔ دماغ کا ایک عمل ہے۔ جیسے، معدے کا اک عمل ہے، آنکھ کا ایک عمل ہے، جگر و پیھپھڑوں کا ایک عمل ہے، دل اور گردوں کا اک عمل ہے، اسی طرح دماغ کا بھی ایک عمل ہے جس کو انسان نے عقل کا نام دے دیا ہے۔ باقی اعضا کے عمل سے انسان واقف نہیں ہوتا اس لیے ان کو توجہ نہیں دیتا۔ دماغ کے عمل سے آگاہی اور عقل سے فائدہ اٹھانے کے سبب اپنے آپ کو عقل کی بنا پر اشرف المخلوقات خود کو قرار دے ڈالتا ہے۔

دماغ کی اس صلاحیت کی بنا پر اگر انسان اشرف المخلوقات ہوتا تو سب انسان، اشرف المخلوقات ہوتے، کچھ عقلمند اور باقی لا تعداد بیوقوف نہ سمجھے جاتے۔ بس دماغ کی صلاحیت کے استعمال کی بات ہے۔ جانور اپنے دماغ کا استعمال اپنے تحفظ و خوراک تک محدود کر لیتا ہے، عام انسان اپنی ضروریات تک محدود کر لیتا ہے۔ جس طرح کسی شخص کا معدہ اچھا ہو سکتا ہے تو وہ بہت خوراک ہضم کر سکتا ہے، کسی کے پیھپھڑے اچھے ہوں تو وہ سانس اچھا لے سکتا ہے اور زیادہ اچھا تیراک بن سکتا ہے، اسی طرح کوئی دماغ کا زیادہ استعمال کر کے زیادہ عقلمند بن سکتا ہے۔ اس میں اشرف المخلوقات بننے اور کہلوانے کی کوئی وجہ ہے ہی نہیں۔

چھوٹا چمگادڑ ابھی تک انسان کو اشرف المخلوقات بنانے پر اڑا ہوا تھا۔ پھر بولا، لیکن دادا انسان کے پاس جانوروں سے زیادہ عقل تو ہے نا۔ آپ بے شک اس کو دماغ کا استعمال یا دماغ کی صلاحیت ہی کہ لیں۔

چمگادڑ دادا نے چھوٹے چمگادڑ کی طرف دیکھا اور کہا۔ عقل کا استعمال ہی اگر انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کا معیار ہے تو سنو۔ کچھ انسانوں کی عقل ان کے پاؤں کھا جاتے ہیں، بے ضرورت مقاصد کے لئے دوڑ دھوپ کرتے ؛ کچھ کی عقل گُھٹنے کھا جاتے ہیں، بے جا نوکری چاکری و تعظیم کرتے ؛ کچھ کی عقل جنس کھا جاتی ہے، جنسی تسکین کے حصول کی خاطر؛ کچھ کی عقل ان کی کمر کھا جاتی ہے زندگی کا بوجھ ڈھوتے ڈھوتے ؛ کچھ کی عقل ان کے ہاتھ اور انگلیاں کھا جاتے ہیں، مشقت کرتے کرتے اور کاغذ پر قلم گِھستے گِھستے ؛ کچھ کی عقل، ان کی زبان کھا جاتی ہے چاپلوسیاں کرتے کرتے ؛ کچھ کے دماغ میں اگر کچھ عقل رہ جاتی ہے تو وہ بچتے ہی کتنے ہیں۔

جو ہیں، ان کی عقل یا تو تکبر کھا جاتا ہے یا چاپلوسیاں یا پھر آپس کے اہل عقل اپنے علاوہ باقی سب کو بے وقوف گردانتے ہیں۔ اس کے علاوہ اگر کچھ رہ جاتے ہیں تو وہ نظامِ فطرت کو ترقی کے نام پر بگاڑنے میں لگے رہتے ہیں۔ اگر انسان کی منزل یہ دنیا ہے ہی نہیں اور انسان نے کسی اور سیارے کی جنت میں رہنا ہے تو اس دنیا کی فطری خوبصورتی تو نہ بگاڑیں۔ محض خود کو اشرف المخلوق ثابت کرنے کی کوشش میں زمیں اور فطرت کا توازن خراب کر کے فطری زندگی کو تباہ کر دیا ہے اِس نام نہاد عقلمند اشرف المخلوق نے۔ اب خود بتاؤ کہ انسانوں میں کتنے لوگ اہلِ عقل بچے اور کِتنے لوگ اشرف المخلوقات ٹِھرے۔ عقلمند تو ہم چمگادڑ ہیں جو الٹا لٹکے رہتے ہیں اور عقل کو دماغ میں ہی سنبھالے رکھتے ہیں۔

چھوٹے چمگادڑ نے کہا، دادا مجھے بھوک لگی ہے میں خون پینے کی طلب میں انسانی آبادی میں جا رہا ہوں اور یہ سوچتے ہوے اُڑ گیا کہ آخری عمر میں دادا سٹھیا گیا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).