محرم کا مہینہ : چند ذاتی حوالے


کچھ ہی سال ہوئے ہیں جب میرے ایک دوست کے رشتہ کے چچا یہ سوچ کر لاہور پہنچے کہ ان کا بھتیجا جس کے افسرانہ ٹھاٹھ کی آبائی گاﺅں میں دھوم مچی ہوئی ہے، لاٹ صاحب کے دفتر میں پھنسا ہوا ایک کام نکلوانے میں ضرور مدد کرے گا۔ یہاں، ہفتہ بھر قیام کے دوران انہوں نے اس سلسلہ میں کوئی تین مرتبہ یاد دہانی بھی کرائی، مگر اصول پرست افسر کا جواب یہی تھا کہ کام خلاف قانون ہے، اس لئے سفارش نہیں کی جا سکتی۔ گاﺅں واپس جانے سے پہلے جب یہی قصہ چوتھی بار چھیڑا گیا تو میرے دوست نے قدرے جھلا کر کہا کہ چاچا جی، آپ میری بات کیوں نہیں سمجھ رہے۔ ’دیکھ اسلم ، تیری بات کو سمجھنے میں میرا نقصان ہے ، اس لئے میں کیوں سمجھنے کی کوشش کروں؟‘ چچا کی مصلحت اپنی جگہ ، لیکن ارد گرد کا جائزہ لینے کے لئے تو ہم سب نے الگ الگ نمبر کے چشمے چڑھا رکھے ہیں ۔ محرم کی پہلی شام سے قبل، جو میری والدہ کی رحلت کا دن بھی ہے ، مسجدوں اور امام بارگاہوں کے سیکیورٹی انتظامات سے نظریں چرا نا اب کسی کے لئے ممکن نہیں رہا ۔ پھر بھی خود کو ٹٹولوں تو یوں لگے گا کہ میری آنکھوں نے شائد آج بھی وہی سبز گوں ڈھال اوڑھ رکھی ہے جسے لوگ شدید گرمی میں دھوپ سے بچانے والی عینک کہا کرتے تھے ۔ یہ ہے چلچلاتے موسموں کے خلاف خود مدافعتی کی ایک تدبیر ۔ وگرنہ آج کون مانے گا کہ بچپن میں آنکھ کھلتے ہی سیالکوٹ میں ہمارے محلہ ٹبہ سیداں نے مجھے جس دائمی عینک کا تحفہ دیا ، اس میں تو ویری لیکس شیشے لگے ہوئے تھے۔ یعنی وہ عدسے جن سے دور ، نزدیک اور وسطی فاصلے کے علاوہ لاتعداد درمیانی نکتوں کو دیکھا جاسکتا ہے ۔ اس کے لئے نہ شعوری کوشش کی ضرورت ہوتی ہے ، نہ یہ ڈر کہ نظر آنے والی شکلیں خوامخواہ ٹیڑھی میڑھی ہو جائیں گی ۔

ہمارا رہائشی علاقہ شاعر مشرق والے بازار چوڑی گراں کے نواح میں اسی پہاڑی نما ٹیلے پہ تھا جہاں محلہ کشمیریاں ، ککے زئیاں اور معماراں، پھر ان سے پرے جالیوں اور پانی کی بڑی ’ٹانچی‘ والے محلوں کے ساتھ ٹبہ کا لاحقہ ہمیشہ لگایا جاتا ۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے ہمارا ٹبہ سیداں موسوم تو سید بادشاہوں سے تھا ، مگر تعداد پہ جاﺅ تو تیس پینتیس گھروں پہ مشتمل اس چھوٹی سی آبادی میں ان کے کنبے درجن بھر سے زیادہ نہیں ہوں گے ۔ باقی سب تو مجھ جیسے کمزور ایمان والے امتی ہی تھے ۔ لیکن یہ ماڈرن یورپ کی نہیں ، میرے بچپن میں آبائی محلہ کی بات ہے کہ مقامی برادری کا تصور خاندانوں کی بجائے بڑی حد تک سکونتی رشتوں سے منسلک رہا ۔ سارے لوگ ہی بھلے مانس ، سو مرن جیون ، خوشی غمی ، شادی بیاہ سبھی کچھ سانجھا تھا ۔ بارات اترتی تو جنج گھر میں ، مرگ ہو تی تو پھوڑی برگد کے نیچے ۔ آج یہ بات میرے کئی نوجوان دوستوں کی سمجھ میں نہیں آئے گی کہ اس گھلے ملے ماحول میں رہنے والے مسلمان اتنے ’بیک ورڈ‘ تھے کہ نہ تو کسی نے دوسرے کے مسلک میں دخل دینے کی کوشش کی ، نہ یہ کرید کہ سید اور غیر سید کے طور طریقوں میں آخر کیا فرق ہوتا ہے ۔ صرف ہمارا خاندان ہی نہیں ، کشمیری محلہ سے جڑے ہوئے ہر ٹبہ کی لڑکیاں ان شاہوں کی بڑی بہن استانی شکر جان کی شاگرد تھیں جو ٹیلے کی بلند ترین گھاٹی پہ رہتے ، جسے سیالکوٹیوں نے اوپر والی ڈھکی ہی کہا ۔ مجھے چار سال کی عمر میں محلے کے زیریں حصے میں ایک گھر کے بیرونی صحن کے اندر بڑے لڑکوں کے ساتھ کرکٹ کھیلنا بھی یاد ہے جب ابا کے دفتر میں کام کرنے والے شبیر شاہ نے پہلی بار بتایا کہ وکٹیں ’کور‘ نہ کی ہوں تو ٹانگ پر گیند لگنے سے کھلاڑی آﺅٹ نہیں ہوتا ، اور یوں مجھے ایک اور باری مل گئی ۔ جانا تو کسی اور طرف ہے ، مگر اس کرکٹ والے احاطے سے نکل کر جہاں ایل بی ڈبلیو کا قانون سمجھ میں آیا ، بائیں مڑ جائیں تو سیدھے ہاتھ پہ تیسرا گھر ہے جس کی ڈیوڑھی میں دھنیا گنڈھا بیچنے والے شاہ جی نام کے بزرگ آج کی اصطلاح میں سلاد کے آئٹم دو تین چنگیروں میں سامنے رکھ کر بیٹھے رہتے ۔ چمکتا ہوا گول چہرہ جس پہ رعب ، شفقت اور دھیمے پن کی آمیزش ، سردیوں میں فوجی انگولا شرٹ میں ملبوس ، دیکھنے میں سبزی فروش ہر گز نہ لگتے ۔ میں دھنیا پیاز لینے جاتا تو کھل اٹھتے ، اسکول کی باتیں پوچھتے اور انگریزی اردو نظموں کی فرمائش ہوتی ۔ میرے تو خیر آج بھی مزے ہیں کہ جب چاہوں ، خیالوں میں شاہ صاحب کے سامنے پیڑھی پہ بیٹھ کر نظمیں سنانے لگتا ہوں اور بڑھاپے میں شوہر سے حسین تر شاہنی جی میرے دائیں آبیٹھتی ہیں ۔ بخدا دل نے ہمیشہ کہا ’یہ دونوں تیرے اولین دوست ہیں‘ ۔

آج کی تاریخ میں شاید آپ پوچھیں کہ اچھا ، تمہارے محلے میں کیا محرم کی مجلس ہوتی تھی ۔ ہوتی تھی ، مگر پتا نہیں تھا کہ یہ مجلس ہو رہی ہے ۔ وہی شاہ جی والے گھر کی بالائی منزل میں ، جو شائد کسی عزیز کی ملکیت ہو ، شام ڈھلے چند درجن لوگ جمع ہوتے ، لحن سے کچھ پڑھا جاتا ، پھر ہلکی ہلکی سسکیاں اور ماتم کی آواز گونجتی ، جسے سن کر قریبی گھروں کے مکین بھی سوگوار ہو جاتے ۔ پر یہ روٹین کی چیز تھی ۔ سو ، تفریق کی کوئی لکیر نہ محرم سے پہلے دیکھی ، نہ بعد میں ۔ بس جو سنے اس کا بھلا ، جو نہ سنے اس کا بھی بھلا ۔ یہی چلن عاشورہ کے جلوس میں رہتا کہ حصہ نہ لینے والے بھی ایک باوقار عقیدت کا رویہ اپنائے رکھتے ۔ سیالکوٹ میں تقسیم سے پہلے پانی ، شربت اور دودھ کی سبیلوں میں ہندو بھی پیش پیش تھے جبکہ لاہور میں مرہم پٹی والے رضاکاروں میں اپنے ماموں کو کئی بار دیکھا ۔ پھر بھی سیالکوٹ کے عزادار اس لئے منفرد ہیں کہ دو دروازہ کے چوک سے امام علی الحق کے مزار تک ، جہاں تعزیے رکھ دئے جاتے، وہ اس راستے کو اپنا لیتے جس سے اپریل 1944 ء میں بانیءپاکستان محمد علی جناح کی سواری گزری تھی ۔ اسی راستہ پر اڈہ پسروریاں کے موڑ کے پاس ڈاکٹر فاضل بٹ کے کلینک کی سیڑھیوں سے مجھے محرم کا جلوس دکھاتے ہوئے ایک مرتبہ والد نے بتایا کہ انہوں نے عین اس جگہ کھڑے ہو کر قائد پہ گلاب کے پھول برسائے تھے جنہیں جموں میں مہاراجہ کے پیلس سمیت ، کئی باغوں سے ایک رات پہلے اکٹھا کرکے صبح صبح ایک چادر میں باندھ کر سیالکوٹ لایا گیا ۔ اسی سہ پہر تالاب مولا بخش کے جلسہ میں ’ہمارا خدا ایک ، رسول ایک ، کتاب ایک‘ والی تقریر سن کر سید عطاللہ شاہ بخاری کے حکم پر ڈوگروں کی قید کاٹنے والے میرے دادا چپکے سے مان گئے کہ بابا کہتا تو ٹھیک ہی ہے ۔ اگر بابا ٹھیک تھا تو پھر آج جو کچھ ہو رہا ہے ، اس میں کہیں تو ہم نے بھی گڑبڑ کی ہے ۔

ٹھیک ہے، انسانی صورتحال میں سانحہ  کربلا جیسے عہد آفریں واقعہ کی تمام جزیات کو زمانی فاصلوں سے من و عن سمجھ لینا کوئی حساب کا سوال نہیں ۔ ایک علمی مسئلہ تاریخ نویسی کے لوازمات کا ہے کہ کس کی شہادت وقیع ، کون سا راوی قابل اعتماد اور کن دستاویزات کا متن معتبر ہے ۔ پھر حقائق کو ایک ترتیب اور تناسب سے جوڑ لینا ہی کافی نہیں ۔ اگلی مشکل یہ ہو گی کہ ہم جن حوالوں کی بنیاد پر ان سچائیوں کو ذہن میں انٹرپرٹ کر رہے ہیں ، وہ حوالے خود کتنے پائیدار ہیں ۔ اس کا جواب چاہیں تو تاریخ نگاری پر ڈاکٹر مبارک علی اور پروفیسر خرم قادر کی کتابیں پڑھ لیں یا علاقائی سلامتی کے تناظر میں حالات کی پرکھ کے لئے حسن عسکری رضوی یا جنرل طلعت مسعود سے رجوع کرلیں ۔ دراصل ، یہی وہ مقام ہے جہاں ’علموں بس کریں او یار ‘ کا قلندرانہ نعرہ لگانے والوں کے لئے کربلا کے شعری استعارہ کی ڈومین شروع ہو جاتی ہے ۔ پر نہ تو یہ اشارہ موازنہ ءانیس و دبیر‘ کی طرف ہے ، نہ مسلک کے بارے میں کسی کے پوچھنے پر ناصر کاظمی کا یہ بیان کہ بھئی ، ہم تو اہل بیت ہیں ، شیعہ ہمارے ماننے والوں کو کہا جاتا ہے ۔ میری مراد رہتی دنیا کے لئے انتہا درجہ کی صلح پسندی ، اصول پرستی مگر سچ کی آخری حد تک پاسداری کرنے کے اس تمدن سے ہے جس میں ’ہر رہ جو ادھر کو جاتی ہے مقتل سے گزر کر جاتی ہے ‘ ۔ اسی نے فیض جیسے ’سیکولر‘ تخلیق کار کے یہاں طبل و علم، دست و ناخن قاتل اور سرخی ءلب خنجر کو واقعاتی معانی کی بجائے علامتی مفہوم بخشا اور جوش جیسے سماج، سیاست اور مروجہ اخلاقیات کے باغی یہاں تک کہہ گئے کہ انسان کو بیدار تو ہو لینے دوہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینؓ اپنی گفتگو میں علمائے کرام اور ذاکرین عظام کی سی تھوڑی بہت خطیبانہ شان پیدا کر لینے کے بعد فنکارانہ پختگی کے تقاضے کچھ اور کہنے کی اجازت نہیں دے رہے ۔ مگر یہ اعتراف بھی ضروری ہے کہ ہر زاویے پر دیکھ لینے والی میری ویری لیکس عینک نے مجھے ایک ہی مرتبہ آزمائش سے دوچار کیا ، اور وہ تھا اقبال کا شعر :تہران ہو گر عالم مشرق کا جنیوا شائد کرہ¿ ارض کی تقدیر بدل جائےشعر پڑھ کر میں نے سوچا کہ یہ تو کوئی مس پرنٹ ہے، ورنہ اسی وزن پر سعودی عرب کے شہر دہران کے ہوتے ہوئے اقبال کے شعر میں تہران ، ملتان یا کاغان کی گنجائش کیسے نکل آئی ۔ میرے گورڈن کالج کے استاد نصراللہ ملک نے سنتے ہی کہا ’بیٹا ، اسلام کوئی عرب مذہب نہیں ، ایک عالمگیر دین ہے ، اور تہران ہماری غیر عرب اسلامی دنیا کا بڑا مرکز ہے ‘ ۔ گویا اقبال نے جو فرمایا وہ تو سچ نکلا ، لیکن جو کچھ میرا استاد کہہ رہا ہے ، ذرا اس پہ بھی ساتھ غور کر لیجئے اور وہ بھی عصری حوالوں کے ساتھ۔ کیا پتا بات سمجھ میں آ ہی جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments