چاک ہے گریباں، رفو گر چاہیے


تحریر و تقریر کی طاقت مسلمہ ہے، لفظوں میں جادو ہوتا ہے لیکن یہ جادو وقتی اثر کے برعکس، دائمی حقائق پر پردہ نہیں ڈال سکتا۔ وزیراعظم عمران خان کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر پر اثر تھی۔ اصول و قواعد کی اہمیت پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کچھ آفاقی مسائل پر اہم نقطے اٹھائے۔ مادہ پرستی پرانسان پرستی کو ترجیح دینے کی تلقین کی۔ زیردستوں کے ساتھ انصاف اور امن کی بات کی، کشمیر کے مسئلے پر ہندوستان کے ساتھ تجارتی و معاشی تعلقات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کشمیریوں کے درد کی دوا کرنے پر زور دیا۔

مگر دیکھنا یہ ہوگا کہ دنیا کس اصول پر چلتی ہے۔ دنیا کا ہر معاملہ، نفع نقصان، اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے کے اصول پر کار فرما ہے۔ معاشی، انفرادی اور جنگی اعتبارسے دیکھا جائے تو ہندوستان ہر شعبے میں پاکستان سے سبقت لے چکا ہے۔ ہندوستان کا زر مبادلہ ساڑھے چار سو ارب ڈالر جبکہ پاکستان کاپندرہ ارب ڈالر ہے۔ دنیا کی تقریبا ہر مصنوعات ہندوستان بناتا اور دوسرے ملکوں کو فراہم کرتا ہے۔ اگر سوال پوچھا جائے کہ کیا دنیا کے پانچواں بڑے جی ڈی پی گروتھ والے ملک کو تقریر سے زیر کیا جا سکتاہے تو جواب نفی میں ہوگا۔

اخلاقی پہلو پر بات کی جائے تو یہ نقطہ مثالی طور پر ٹھیک ہے کہ اقوام عالم، بالخصوص اقوام متحدہ کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے تدارک کے لئے ذاتی یا معاشی مجبوریوں کو پس پردہ رکھتے ہوئے انسانی درد کو پہنچاننے کی ضرورت ہے کیونکہ ایک انسان کی تضحیک پوری انسانیت کی تضحیک ہے لیکن اگر ہم کشمیر کے مسئلے پر اقوام عالم کو ہندوستان کی حمایت سے باز رکھنا چاہتے ہیں تودیکھنا ہوگاکہ کیا ہم خود بھی اس اصول پر کارفرماہیں؟

کیا ہمیں یمنی بچے کا بھی اتنا ہی درد ہے جتنا کہ کشمیری بچے کا؟ کیا ہمارے نزدیک ایک شامی عورت کی عزت بھی اتنی ہی مقدم ہے کہ جتنی ایک کشمیری عورت کی؟ بدقسمتی سے جواب نفی میں ہے۔ جس کا عملی مظاہرہ ہم یمن اور شام میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حقوق میں پیش کردہ قرار دادوں کی حمایت نہ کرکے کر چکے ہیں۔ اگر دنیا کشمیر کے معاملے میں ہندوستان کے ساتھ کھڑی ہے تو کیا ہم یمن اور شام کے معاملے میں سعودی عرب کے ساتھ نہیں کھڑے؟ کیا یہ دوہرا معیار نہیں؟ اور کیا اس دوہرے معیار پر ایک تقریر کی لفاظی پردہ ڈال سکتی ہے؟ اگر پاکستان مجبور ہے کہ وہ سعودی عرب کے ظلم کی داستانوں پر چشم پوشی کرے تو کشمیر کے معاملے پر اقوام عالم سے کیا گلہ؟

انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں یقینا بند ہونا چاہیئں لیکن بلوچستان، سرحدی قبائلی علاقہ جات، ماڈل ٹاؤن، ساہیوال، کراچی اور ان جیسے ان گنت سانحات کے ضمن میں ہمارا اپنا دامن صاف ہے؟ جواب یقینا نفی میں ہے۔ 1948 سے لے کر اب تک جنرل اسمبلی کے پوڈئیم پر کھڑے ہو کر فتح کا اعلان کرنے سے شاید ہماری قوم متاثر ہو جاتی ہوگی لیکن کیا ہم اقوام عالم کو بھی اتنا ہی بیوقوف سمجھتے ہیں؟ ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ دنیا کے مفادکی بات کیے بغیر اپنے مفادات کا تحفظ ناممکن ہے۔

ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ اپنا گھر صاف کیے بغیر ہم دوسروں کو صفائی نصف ایمان کی تلقین نہیں کر سکتے۔ ہم کیوں بھول جاتے ہیں دوسروں کا دامن ٹٹولنے سے پہلے اپنے چاک گریبان رفو کرنا زیادہ ضروری ہے۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جب تک ہم شعبدہ بازی اور ڈگڈگی کے تماشے پر تالیاں بجانا بند نہیں کریں گے دنیا ہمارے حق میں کھڑی نہیں ہوگی۔ جن وجوہات کی بنا پر ہم دنیا میں اکیلے ہیں ان پر غور کرنا ہوگا۔ سچ کا پرچار کرنے سے پہلے ہمیں خود سچ کو اپنانا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).