کہاں گئے وہ لوگ


 محمد ثقلین رضا


\"saqlain-raza\"ہم اسے اپنی بدقسمتی کہیں یا بدلتے ماحول کا فسانہ سمجھیں۔ سب کچھ بدل چکا۔ آنکھوں میں گزشتہ کل کی تصویر سجانے کی کوشش کریں تو نمی اسے دھندلا دیتی ہے۔ جنوبی پنجاب جسے سرائیکی وسیب کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، وہاں سرائیکی شاعری اور ادب کی پہچان ملک بشیرگوندل کا شمار ایسے لوگوں میں کیا جاسکتا ہے، جنھیں کسی پل چین میسر نہیں ہوتا۔ ایسے بے چین لوگ ہر وقت کچھ نہ کچھ کرنے کی تگ و دو میں مصروف رہتے ہیں۔ یہ ان کی طبیعت کی بے چینی ہی کا کمال ہے، کہ وہ گزشتہ ستائیس برس سے، وسیب کے قابل شعرا، ادبا، دانشوروں کا اکٹھ کرتے چلے آرہے ہیں۔ دہشتگردی کے اس ماحول میں، جب کہ سو پچاس افراد کو اکٹھا کرنا محال دکھائی دیتا ہے، ایسے میں ملک بشیر گوندل کی طرف سے سرائیکی شعرا کا اکٹھ، اور پھر وسیب کی چاہت کے ترسے ہوؤں، سرائیکی سے محبت کرنے والوں کا بھاگے دوڑے چلے آنا، یقیناً ان کی محبت کا اعجاز ہے۔

اکٹھ، یہ لفظ جونہی ذہن میں آتا ہے، تو ماضی کی کتاب کھل کر سامنے آجاتی ہے۔ بہت سی سنی سنائی باتیں، دیکھے ان دیکھے قصے، اور بزرگوں کی چسکے دار کہانیاں کانوں میں گونجتیں اور پتلیوں پر رقص کرنے لگتی ہیں۔ بشیر گوندل جیسی متحرک شخصیت سے ایک عرصہ تعلق اور واسطہ رہا ہے۔ اب یہ تعلق کسی واسطے کا محتاج نہیں رہا، بلکہ اس کی بدولت مزید کئی واسطوں نے جنم لینا شروع کردیا ہے۔ یہ ہر ملاقات میں کوئی نہ کوئی ان سنی کہانی سناتے ہیں، کسی نہ کسی سرائیکی شاعر، ادیب، دانشور کا قصہ ان کے لب پہ ہوتا ہے۔ ہمارے ایک مشترکہ دوست نے یہ بات بتا کر حیران کر دیا، کہ برسوں سے مشاعرہ پڑھنے والے شعرا، اگر کوئی مصرع بھول جائیں، تو بشیر گوندل لقمہ دیتے یاد کرا دیتے ہیں۔ ان جیسا ہی ذوق ایم این اے جناب ڈاکٹرافضل خان ڈھانڈلہ میں بھی پایا جاتا ہے، جن کی سرائیکی زبان وادب سے محبت، کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ یہی وجہ ہے، کہ انہوں نے ملک بشیر گوندل کے ساتھ مسلسل ستائیس برس تک منعقد ہونے والے مشاعروں کے انعقاد میں تعاون کیا۔

برسوں پیشتر ملک بشیر گوندل کو مشاعرے کے انعقاد کے لئے شاعروں کا انتخاب کرنا پڑتا تھا، تو شب و روز دوستوں سے مشاورت کی جاتی، کہ ایسے کس شاعر کو بلایا جائے، جو عوام کی توقعات پر پورا اتر سکے۔ ان ستائیس برسوں میں جہاں دنیا بہت سی کروٹیں لے چکی، وہاں ان تبدیلیوں نے شعر وادب کو بھی متاثر کیا۔ اب حسن وعشق کے ساتھ ساتھ مزاحمتی شاعری، اور ادب بھی پروان چڑھ چکا ہے۔ بلکہ یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ مزاحمتی ادب، پوری طرح جوان ہوکر ہرجگہ دوڑتا نظر آتا ہے۔ دنیا نے مزاج بدلا تو ادب نے بھی کروٹ لے لی۔ یہ ہماری کوتاہ نظری ہے، یا حقیقت، کہ ان بدلتے افکار، نظریات کے باعث، زمانے میں محبتوں کے وہ پرچارک نہیں رہے۔ یا شاید لوگوں کے پاس محبت کے اظہار کا وقت نہیں رہا۔ تھوڑا وقت نکل آئے، تو دنیا میں پنپتی نفرتیں دم توڑنے لگیں۔ ذکر بشیر گوندل کا تھا، کہ انہیں شاعروں کے انتخاب کے لئے تگ و دو کرنا پڑتی تھی، مگر آج صورت حال بدل چکی ہے، اب سرائیکی کے نمایاں شعرا کی خواہش ہوتی ہے، کہ وہ اس سالانہ مشاعرہ میں شرکت کریں۔ گویا یہ ایک اعزاز اور سند ہے۔

\"pitho\" ملک بشیر گوندل یوں تو ہمیں بے شمار شعرا کا کلام سناتے ہیں اور پھر اس کے پس منظر سے بھی آگاہ کرتے رہتے ہیں۔ ان کی یہ خاصیت انھیں ممتاز کرتی ہے۔ وہ باتوں میں لبھانے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔ ان کے تلفظ میں سحر اورلفظوں میں وہ چاشنی ہوتی ہے، جسے سن کر سامع ماضی کے اس وسیب میں کھو جاتا ہے، جب ہرگھر میں محبت کے گیت تھے۔ گلیوں میں کھیلتے بچے بالے، چھوٹی دیواروں والے صحن میں پِٹھو گرم کھیلتی لڑکیاں، اکھاڑوں میں دنگل، دودہ لڑتے نوجوان، اور شام ڈھلے کسی مخصوص مقام پر اکٹھے ہو کر دنیا جہان کی خیر خبر سے آگاہی حاصل کرنے والے بزرگ ہوا کرتے تھے۔ بچوں کی محفل میں نوجوان، نوجوانوں کی محفل میں بزرگ، اور بزرگوں کی محفل میں نوجوان محض احترام کے تقاضے کے تحت نہیں جاتے تھے۔ نوجوان نیچی دیواروں کے باوجود دوسری حویلی میں محض اس لئے نہیں جھانکتے تھے، کہ ان کے اپنے گھر کی دیواریں بہت نیچی ہوا کرتی تھیں، بلکہ ایک ادب، ایک لحاظ تھا جو اب مفقود ہوا چاہتا ہے۔ اس کیفیت کو خوشاب کے معروف شاعر جناب صفدر راہدای نے کیسے باندھا ہے، بشیر گوندل ہی کی زبان سے سنا۔

نہ او دنگل، نہ او دودہ

نہ او کوئی ہاسا، بوک

ہک تنور تے سارا ویہڑھا

ہک نلکے تے ساری جھوک

کن گئے ایجھے لوک

صفدر راہداری نے بہت ہی خوبصورتی سے، ماضی کی تصویر کو چند لفظوں میں بیان کر دیا۔ اب جب کبھی ہم اپنے بچوں سے اس ماحول کا ذکر کریں تو \"sport\"عجیب عجیب سے تبصرے ہوتے ہیں۔ ایک نوجوان نے کہا کہ اس دور میں لوگوں کے پاس کرنے کو کوئی کام نہیں تھا کیا؟ میں نے حیرانی سے پوچھا ’’مطلب‘‘ تو پوچھا، ’’کیا ان بچوں کے پاس کمپیوٹر نہیں تھا کہ وہ دوسروں کے گھر جانے کی بجائے اپنے گھر بیٹھ کر کوئی گیم کھیلتے، ان کی بہنوں کے پاس ٹی وی نہیں تھا کہ وہ پڑوس میں سہیلی کے گھر ’’پِٹھو گرم‘‘ کھیلنے پہنچ جاتی تھیں؟ کیا لڑکوں کے پاس موبائل نہیں تھے کہ وہ کھیل کے میدان میں دنگل، دودے کے لئے پہنچ جاتے؟ اور کیا بزرگوں کو گھر والے گھر سے نکلنے کی اجازت دے دیا کرتے تھے، کہ وہ رات گئے تک دنیا جہان کے قصے سنتے سناتے رہتے؟‘‘ ہم نے ایک آہ بھرتے کہا کہ ’’ہاں ڈئیر! واقعی سب کچھ بدل گیا، واقعی اب بزرگوں کو گھر سے نکلنے کے لئے بیٹوں،بہوؤں سے اجازت لینا پڑتی ہے۔ کیبل، ٹی وی نے بچوں کو ایک کمرے تک محدود کر دیا، سمارٹ فون نے رشتوں کو ایک انگلی تک تو محدود کر دیا ہے۔ دراصل انسان تنہا ہوتا جا رہا ہے۔۔۔ ہم اسے اپنی بدقسمتی کہیں یا بدلتے ماحول کا فسانہ سمجھیں۔ سب کچھ بدل چکا۔۔ آنکھوں میں گزشتہ کل کی تصویر سجانے کی کوشش کریں تو نمی اسے دھندلا دیتی ہے کہ اب ان خوابوں کو بھی آنکھوں میں آنے کی اجازت نہیں ہے۔ سارا منظر نامہ بدل گیا ہے۔ دنیا اسے ترقی کا سفر قرار دیتی ہے، مگر اپنی روایات سے جڑے لوگ،اسے محرومی کا سفر سمجھتے ہیں۔ رشتوں، ناتوں، اور اخلاص سے محرومی کا سفر۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments