دونوں ٹانگوں سے معذور پاکستان کے ضلع مانسہرہ کے ذوالفقار علی کرکٹ جنون میں فاسٹ بولر کیسے بنے؟


ذوالفقار

وہ اگر جسم کے نچلے دھڑ سے محروم نہ ہوتے تو ان کا قد لگ بھگ چھ فٹ ہوتا

ذوالفقار علی کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی تھی کہ لوگ ایسا کیوں کرتے تھے۔ حالانکہ وہ ہر وہ کام کر سکتے تھے جو ٹانگوں والے کر سکتے تھے۔

کئی بار لوگ انھیں خیرات میں پیسے دے کر چلے جاتے تھے۔ ذوالفقار کو غصہ بھی آتا تھا اور افسوس بھی ہوتا تھا جب لوگ انھیں دیکھ کر کہتے تھے کہ ’یار دیکھو بیچارہ معذور ہے، اسے باہر نہیں نکلنا چاہیے۔‘

ذوالفقار علی کو ایک سے دوسری جگہ ان کی ہمت لے کر جاتی ہے۔ وہ پیدائشی طور پر ٹانگوں سے محروم ہیں۔ وہ اب 21 برس کے ہو چکے ہیں اور ان کو کرکٹ کا بہت شوق ہے۔

وہ اگر جسم کے نچلے دھڑ سے محروم نہ ہوتے تو ان کا قد لگ بھگ چھ فٹ ہوتا۔ ان کی چھاتی چوڑی اور کندھے انتہائی مضبوط ہیں اور اِن ہی سے وہ اپنی بولنگ میں رفتار حاصل کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

عنایت اللہ ٹائیگر، جن کا جذبہ ہی ان کا سب سے بڑا ہتھیار ہے

بغیر رکے چار مرتبہ انگلش چینل عبور کرنے والی پہلی خاتون

جب پاکپتن کی لڑکیوں کے لیے سائیکل ’تعلیم کی کُنجی‘ بنی

وہ ایک ہاتھ اور ٹانگ کی جگہ نکلی ایک ہڈی پر ربڑ کی جوتی پہنتے ہیں۔ پھر دائیں ہاتھ میں گیند تھامے ایک ہاتھ اور نچلے دھڑ کو زمین پر ٹیکتے ہوئے چار پانچ قدموں کا رن اپ لیتے ہیں یعنی فاسٹ بولر کی طرح بھاگ کر تیزی سے گیند پھینک دیتے ہیں۔

ان کی گیند کی رفتار اس قدر ہے کہ اگر بیٹسمین مستعد نہیں تو وہ پلک جھپکتے میں اپنی وکٹ گنوا بیٹھے گا۔

ذوالفقار علی پاکستان کی قومی کرکٹ ٹیم میں شمولیت کے خواہاں ہیں۔

مگر کیا قوانین اس کی اجازت دیں گے، کیا اس قدر قابل کھلاڑیوں کی موجودگی میں کسی کی ان پر نظر ٹکے گی۔ وہ میڈیم فاسٹ بولر ہیں، ان کی عمر کے لڑکے تو بہت تیز گیند پھینک لیتے ہیں۔ کیا وہ ان کا مقابلہ کر پائیں گے؟

یہ تمام سوالات ذوالفقار علی کے ذہن میں بھی کھٹکتے ہیں اور انھیں علم ہے کہ شاید ان کے ارد گرد موجود وہ لوگ بھی یہی سوچتے ہوں گے جو ان کے عزائم سے واقف ہیں۔

ذوالفقار

ذوالفقار علی کو ایک سے دوسری جگہ ان کی ہمت لے کر جاتی ہے

مگر ذوالفقار علی زندگی بھر ایسی ہی سوچ کو شکست دیتے آئے ہیں، چاہے وہ ان کے اپنے ذہن کے کسی گوشے میں آئی ہو یا کسی دوسرے کے۔

وہ کہتے ہیں کہ ‘وہی لوگ جو کبھی مجھ پر ہنستے تھے آج مجھے کرکٹ کھیلتے دیکھتے ہیں تو داد دیتے ہیں۔’

انھوں نے کئی بار خود کو بھی حیران کیا ہے۔ حال ہی میں ایبٹ آباد میں منعقدہ ایک میلے میں انھوں نے وزن اٹھانے کے مقابلے میں بغیر کسی تیاری کے 90 کلو وزن اٹھا کر دوسری پوزیشن حاصل کی ہے۔

‘لوگ ہنستے تھے مگر میں نے ایسے لوگوں کی طرف مڑ کر بھی نہیں دیکھا۔ ایسے لوگوں کی طرف دیکھتا تو میں کبھی چل بھی نہ سکتا اور آج یہاں نہ کھڑا ہوتا۔’

ذوالفقار

‘لوگ ہنستے تھے مگر میں نے ایسے لوگوں کی طرف مڑ کر بھی نہیں دیکھا۔ ایسے لوگوں کی طرف دیکھتا تو میں کبھی چل بھی نہ سکتا‘

ان کا یہی یقین ہے جو انھیں ہر اس عزم کی تکمیل تک لے آتا ہے جس کا وہ ارادہ باندھ لیتے ہیں۔

ان کے والدین کو بھی یہ یقین نہیں تھا کہ بغیر ٹانگوں کے پیدا ہونے والا بچہ زندگی میں یہ سب کچھ کر پائے گا۔

صوبہ خیبر پختونخواہ کے شمالی پہاڑی علاقے ناران کے ایک گاوٴں کے ناہموار راستوں میں انھوں نے اپنا بچپن گزارا اور لڑکپن میں سکول کے لیے قریبی شہر مانسہرہ منتقل ہو گئے۔

ذوالفقار بتاتے ہیں کہ ‘جب میں سکول جاتا تھا تو ویل چیئر استعمال کرتا تھا۔ ایک بندہ مجھے چھوڑنے اور لینے جاتا تھا۔ مجھے اچھا نہیں لگتا تھا کہ میں کسی کا سہارا لوں۔’

ایک حالیہ ملاقات میں بی بی سی سے گفتگو میں ذوالفقار نے بتایا کہ اس کے برعکس وہ نچلے دھڑ کو ٹیک کر ہاتھوں کے بل چلنے میں زیادہ آسانی محسوس کرتے تھے۔

مگر گھر والوں کے اسرار پر انھوں نے دو مرتبہ مصنوعی ٹانگیں بھی لگوائیں۔ انھیں لگتا تھا کہ شاید یہی ایک طریقہ تھا کہ ذوالفقار مکمل زندگی گزار پائیں گے۔

ذوالفقار

ان کا یہی یقین ہے جو انھیں ہر اس عزم کی تکمیل تک لے آتا ہے جس کا وہ ارادہ باندھ لیتے ہیں

انھوں نے بتایا کہ ‘دونوں مرتبہ وہ کامیاب نہیں ہوا کیونکہ میرے گھٹنے ہی نہیں ہیں تو توازن نہیں بن پاتا تھا اور میں گر جاتا تھا یا بہت ہی آہستہ چلتا تھا۔’

کمرے سے باہر نکلنے میں انھیں آدھا گھنٹہ لگ جاتا تھا۔

انھوں نے یہ سہارا بھی چھوڑ دیا۔ ذوالفقار علی رفتار کے شوقین ہیں۔ وہ لڑکوں کو کھیلتے دیکھتے تھے تو ان کا بھی جی چاہتا تھا۔ کرکٹ کے شوق کی تکمیل نے انھیں زندگی میں بھی رفتار کے ساتھ توازن دیا۔

پیشہ ورانہ کرکٹ میں حصہ لینے کا شوق انھیں ویل چیئر تک لے جاتا ہے ورنہ وہ کھڑے ہو کر عمومی کرکٹ کھیلنا پسند کرتے ہیں اور اس میں اپنی ٹیم کی کپتانی کرتے ہیں۔ ویل چیئر پر حال ہی میں انھوں نے ضلع ایبٹ آباد میں ہونے والے کھیلوں کے میلے میں حصہ لیا تھا۔

ذوالفقار

وہ باقاعدگی سے ورزش کرتے ہیں جس میں 30 کے قریب ڈنڈ بیٹھکیں، ہاتھوں کے بل چلنا اور کارٹ ویلنگ شامل ہے

تین کھلاڑیوں کو آوٴٹ کر کے انھوں نے ایبٹ آباد کی ٹیم کو فائنل میں فتح دلوائی تھی۔

اس قسم کے مقابلوں میں شرکت کی غرض سے وہ ویل چیئر بھی استعمال کر لیتے ہیں ورنہ سکول کے زمانے سے ہی اسے چھوڑ چکے ہیں اور ایسی کرکٹ ان کا خواب بھی نہیں۔

ذوالفقار کہتے ہیں کہ ‘مجھے کبھی محسوس نہیں ہوا کہ میری ٹانگیں نہیں ہیں۔’

ذوالفقار علی کھیل کے میدان تک کا اونچا نیچا راستہ خود بغیر کسی سہارے کے طے کرتے ہیں۔ اس دوران انھیں چھلانگیں بھی لگانی پڑتی ہیں اور اونچائی پھلانگنی پڑتی ہے۔

وہ باقاعدگی سے ورزش کرتے ہیں جس میں 30 کے قریب ڈنڈ بیٹھکیں، ہاتھوں کے بل چلنا اور کارٹ ویلنگ شامل ہے۔ اپنا وزن وہ 52 کلو سے زیادہ نہیں بڑھنے دیتے۔

سکول ہی میں ویل چیئر کا سہارا ترک کر کے ذوالفقار علی نے چار پہیوں والی موٹر سائیکل لے لی تھی۔ وہ ایف اے تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد ان دنوں انفارمیشن ٹیکنالوجی میں ڈپلومہ کر رہے ہیں۔

ذوالفقار

ہر شام ذوالفقار علی باقاعدگی سے کرکٹ کھیلنے جاتے ہیں انھیں یقین ہے کہ ایک دن وہ قومی ٹیم میں جگہ بنا لیں گے۔

گھر کے پاس ہی ان کی کریانہ کی ایک دکان بھی ہے۔ وہ روزانہ اپنی موٹر سائیکل پر آتے جاتے ہیں۔ دکان کا شٹر بھی خود اٹھاتے اور گراتے ہیں۔

موٹر سائیکل پر سوار ہونا، اترنا، ایک ڈھلوان سے اتر کر گھر جانا یا واپس اوپر آنا، سب وہ اس مستعدی سے کرتے ہیں کہ گماں ہی نہیں ہوتا کہ وہ آدھے دھڑ سے محروم ہیں۔

ہر شام ذوالفقار علی باقاعدگی سے کرکٹ کھیلنے جاتے ہیں۔

انھیں یقین ہے کہ ایک دن وہ قومی ٹیم میں جگہ بنا لیں گے۔ ان کا یہ بھی ارادہ ہے کہ وہ کرکٹ کی ایک اکیڈمی کھولیں گے۔

وہ کہتے ہیں کہ ‘یہاں ان لوگوں کو باہر لاوٴں گا اور تربیت دوںگا جو ہمت ہار بیٹھتے ہیں اور گھروں میں بیٹھ جاتے ہیں۔’

ہار ماننا یا کسی سہارے کا انتظار کرنا ذوالفقار علی کو قبول نہیں، نہ ہی وہ دوسروں کو ایسا کرتا دیکھنا چاہتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32486 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp