اقوام متحدہ، عمران خان اور قانونی مشیران


ریاست جموں کشمیر اور فلسطین کا مسئلہ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کے وہ ابتدائی مسائل ہیں۔ جن پر بحث اور قراردادوں کی تاریخ اقوام متحدہ کی اپنی عمر کے برابر ہے۔ رواں سال اقوام متحدہ 74 سال کی طبعی عمر کو پہنچ گئی اور اپنی خم زدہ پیٹھ پر ناکامیوں کے بھاری بھرکم بیگ اٹھائے بیساکھیوں کے سہارے چلنے پر مجبور ہے۔ ناکامیوں کے اس بھاری بھرکم بیگ میں بہت سارے اور سامان کی طرح کشمیر اور فلسطین کے ردی کاغذوں کی وہ دستاویزات بھی ہیں، جو بظاہر اس عالمی ادارے کی خم زدہ پیٹھ کا نہ صرف باعث ہیں۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ گلے میں لٹکا ناکامیوں کا طوق اور چہرے پر ملی جانبداری کی کالک ہیں تو بے جا نہ ہو گا۔

رواں برس جنرل اسمبلی میں ایک بار پھر مختلف سربراہان مملکت و حکومت نے موسمیاتی تبدیلیوں، دہشتگردی، مشترکہ تعمیر و ترقی سے لے کر دیگر عالمی، علاقائی اور قومی مسائل پر ایک بار پھر گفتگو کی۔ یہ اجلاس ایک ایسے وقت میں منعقد ہوا جب اقوام متحدہ کی طرح بوڑھا ہوتا ہوا مسئلہ کشمیر ایک بار پھر بھارت کی فاشسٹ حکومت کے انسان دشمن روئیے کی وجہ سے دنیا کی توجہ کا طلب گار ہے۔ اس اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی عمران خان نے کی اور کسی بھی اس طرح کے عالمی فورم پر یہ ان کی پہلی انٹری تھی۔

وہ کچھ ایسا کر گزرنے کے لیے بے تاب ہیں۔ جو اس سے پہلے کرکٹ کے ورلڈ کپ اور کینسر ہسپتال کی طرح کوئی دوسرا نہ کر سکا۔ لیکن مشیروں کا قافلہ خان صاحب کے راستے کی ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ انہی نالائق مشیروں کی وجہ سے عمران خان نے جب سے حکومت سنبھالی ہے۔ مسئلہ کشمیر پر ان کی پہلی ناکامی او آئی سی کے مکہ ڈیکلیریشن میں کشمیر کا ذکر نہ ہونا تھا۔ جو شاید او آئی سی کی تاریخ میں پہلی بار ہوا تھا کہ مشترکہ اعلامیے سے کشمیر کو حذف کر دیا گیا تھا۔

اس کی بظاہر وجہ مشرق وسطی کی عرب ریاستوں کے معاشی مفادات اور کاروباری نزاکتیں تھیں جنہیں اصولوں پر ترجیح دی گئی۔ یا پھر بھارت کی کامیاب سفارتکاری تھی کہ اس اجلاس میں بھارت او آئی سی میں مبصر کا درجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ انہی مشیروں کی وجہ سے عمران خان کو دوسری ناکامی اس وقت ہوئی جب 5 اگست کو بھارت نے عالمی قوانین اور پاکستان کے ساتھ دو طرفہ معاہدات کی پرواہ کیے بغیر جموں کشمیر کی نہ صرف خصوصی حیثیت کو ختم کر دیا بلکہ ریاست کا درجہ ختم کرتے ہوئے اسے دو وفاقی اکائیوں میں تقسیم کر دیا۔ اس کا اعلان کرنے سے پہلے ساری سیاسی قیادت کو جیلوں میں بند کرنا پڑا اور عوامی مزاحمت کے خوف سے کرفیو نافذ کرتے ہوئے کشمیر کو دنیا کی سب سے بڑی جیل میں تبدیل کرنا پڑا۔

اسی دوران ہوئے والے سلامتی کونسل کے اجلاس کی ذیلی کمیٹی نے مسئلہ کشمیر پر ابتدائی گفت و شنید کے بعد اسے نہ ہی تو باقاعدہ ایجنڈے کا حصہ بنایا اور نہ ہی اعلامیہ جاری کرنا مناسب سمجھا۔ ستمبر کے مہینے میں جنیوا میں منعقدہ کونسل برائے انسانی حقوق کا اجلاس ایک موثر پلیٹ فارم تھا۔ جہاں کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر قرارداد منظور کروا کر بھارت پر دباؤ بڑھایا جا سکتا تھا۔ لیکن واقفان حال کہتے ہیں کہ اس قرارداد کو جمع کروانے کے لیے 16 ممبران کی حمایت بھی حاصل نہ کی جا سکی۔

اور اپنی سفارتی ناکامی چھپانے کے لیے شاہ محمود قریشی کو یہ کہنا پڑا کہ قرارداد جمع کروانا ہماری حکمت عملی کا حصہ ہی نہیں تھا اور ہم مناسب وقت کا انتظار کریں گے۔ اب خدا جانے ملتان میں نہ سمجھ آنے والی روحانی پیشوائیت کے کاروبار میں غریب مریدوں کے چندے پر پلنے والے قریشی صاحب کے نزدیک مناسب وقت کسے کہتے ہیں؟

عمران خان صاحب نے مظفرآباد میں کہا تھا کہ 27 تاریخ کا انتظار کیا جائے۔ جب وہ جنرل اسمبلی میں اقوام عالم سے خطاب کریں گے۔ وہ سارے لوگ جو جنرل اسمبلی، سلامتی کونسل اور کونسل برائے انسانی حقوق کے اختیارات اور طریقہ کار سے واقف ہیں انہیں تو اس تقریر سے اتنی امید نہیں تھی۔ لیکن پھر بھی ایک بڑی اکثریت جس نے آج تک خواب خریدنے کا ہی کاروبار کیا ہے 27 ستمبر کا انتظار کرنے لگی۔ جنرل اسمبلی میں ہونے والی تقاریر کی ایک پوری تاریخ ہے۔

اور یہ ساری تاریخ معض دوستیاں نبھانے اور دشمنیاں پالنے کی تاریخ ہے۔ وہ اس لیے کہ اس فورم پر سچ بولنے کے ساتھ ساتھ کچھ بھی بول جانے کی لامحدود آزادی ہے۔ جس کا فائدہ فیدل کاسترو، ہوگو شاویز، معمر قذافی اور دیگر عالمی رہنما ماضی میں اٹھا چکے ہیں۔ اس ساری صورتحال کو دیکھتے ہوئے گمان تھا کہ خان صاحب ہوم ورک کے ساتھ آئیں گے۔ اور ایک ایسی نپی تلی تقریر کریں گے۔ جس میں اقوام متحدہ کے چارٹر کے مختلف چیپٹرز کے ریفرنس، سلامتی کونسل کی کشمیر پر منظور کی گئی قراردادوں کے متن کے اہم حوالہ جات، مسئلہ کشمیر کے ایک اہم فریق کی حیثیت سے آزادکشمیر اور گلگت بلتستان میں بسنے والے کشمیری باشندوں کو حکومت پاکستان کی طرف سے دی گئی آزادی، حقوق اور اختیارات، بھارت کے مکروہ چہرے کو بے نقاب کرنے کے لیے انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے، شہری اور سیاسی آزادیوں کے عالمی کنونشن اور تشدد کے خلاف عالمی کنونشن کے مندرجات شامل ہوں گے۔تاکہ ان عالمی معاہدات پر دستخط کرنے والے رکن ممالک کی حمایت حاصل کی جا سکے۔

لیکن مایوسی اس وقت ہوئی جب خان صاحب نے پچاس منٹ کے طویل خطاب میں اس طرح کے کسی حوالے کا ذکر نہ کیا۔ سوائے دو تین بار یہ کہنے کے کہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی 11 قراردادیں موجود ہیں۔ بالکل موجود ہیں اور ان میں مسئلہ کشمیر کے حل کا ایک طریقہ کار وضع کیا گیا ہے۔ اس طریقہ کار میں آپ کے ملک نے کتنی ذمہ داریاں پوری کی ہیں ان کا ذکر بہت ضروری تھا تاکہ بھارت کو عالمی قانون کے تحت اقوام عالم میں ننگا کیا جا سکتا۔ کاش کہ آپ کے قانونی مشیر آپ کو 13 اگست 1948 کی قرارداد کے اہم حصے ٹروس ایگریمنٹ کے دوسرے نکتے کو پڑھنے کا مشورہ دے دیتے۔

خان صاحب نے ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے بہت خوبصورت باتیں کیں۔ لیکن کیا ہی کمال ہوتا کہ اگر خان صاحب خیبر پختون خواہ میں لگائے گئے ایک ارب درختوں کے حوالے کے ساتھ ساتھ نیلم جہلم ہائیڈرل پروجیکٹ اور کوہالہ، ہولاڑ اور گلپور کے منصوبوں کے ذریعے آزادکشمیر کے دس سے پندرہ لاکھ شہریوں کو ماحولیاتی آلودگی سے پاک خوبصورت نظام کا ذکر بھی کر دیتے۔ اور مظفرآباد میں آبادی کے درمیان بچھائی گئی پچپن کلو میٹر طویل ہائی وولٹیج ٹرانسمیشن لائن کا حوالہ تو تابکاری سے لڑنے کا منفرد حوالہ ہوتا۔ جس کے دو فوائد ہوتے، ایک ماحول دوستی اور دوسرا آزادکشمیر کے عوام کو میسر گرین ہاؤس ایمشن سے پاک ماحول۔

خان صاحب نے امت مسلمہ کی ترجمانی بہت خوبصورت انداز میں کی۔ مدت سے عالمی فورمز پر اس طرح کی گونج سننے کو مسلمانوں کے کان ترس گئے تھے۔ وہ کمی 27 ستمبر کو پوری ہو گئی۔ لیکن کیا کریں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا۔ جنہوں نے اپنے بڑے قومی اعزازات سے مودی کو نہ صرف نوازا۔ بلکہ اپنے وزراء خارجہ کو اسلام آباد بھیج کر کہہ بھی دیا کہ بابا ہم اپنے ممالک کے معاشی مفادات کے ظرف دار ہیں۔ امت مسلمہ کے نہیں۔

اس میں ایک بڑا قصور خان صاحب کے قانونی مشیران کا ہے۔ جنہوں نے خان صاحب سے یہ راز پوشیدہ رکھا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں لگ بھگ 193 قومی ریاستوں میں 56 اسلامی ممالک کی نمائندگی کا قانونی اور سیاسی اختیار ان کے اپنے رہنماؤں کے پاس ہوتا ہے۔ اور قومی ریاستوں کے سربراہان کی اپنے ملک کی ترجمانی کے بعد کسی دوسرے ملک کے دعوے کو نہ ہی تو قانونی نقطہ اور نہ ہی پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔ اسی طرح بھارت کے مسلمان بھی ایک قومی ریاست کے شہری ہیں اور اقوام متحدہ میں ان کی ترجمانی کا قانونی حق بدقسمتی سے مودی کے پاس ہے۔ امت مسلمہ کی ترجمانی کے لیے کوئی نشست مخصوص نہیں اگر ہوتی تو حجاز والے بڑے صاحب کے پاس ہوتی۔

خان صاحب کی عاجزی تو مثالی ہے۔ ہمیشہ مشیروں کے مشورے کو حتمی مان لیتے ہیں۔ وگرنہ جنرل اسمبلی میں اگر مسعود خان کو عزت دے کر مہمانوں کی گیلری میں بٹھانے کے بجائے صاحب کا تعارف ہی کروا دیتے کہ دیکھو مودی صاحب ہم نے آزاد کشمیر کو ایک الگ ملک تسلیم کر رکھا ہے اور اسلام آباد میں واقع کشمیر ہاؤس دراصل اس ملک کا پہلا سفارتخانہ ہے۔ جسے بس تسلیم کرنے کی کچھ مجبوریاں ہیں۔ کسر نفسی کا یہ عالم کہ خان صاحب نے واپسی پر اسلام آباد میں پرہجوم جلسے کے شرکاء کو یہ تک نہ بتایا کہ ساری امت مسلمہ کے ساتھ ساتھ کتنے اور ممالک نے پاکستان کے موقف کی تائید کی ہے؟

خان صاحب کی جنرل اسمبلی میں تقریر بلاشبہ تاریخی تھی۔ اور اس کی گونج رہتی دنیا تک سنائی دے گی۔ آپ نے وکیل سے سفیر تک کے سارے حق بیک جنبش ادا کر دیے۔ اب مشیران کا کام باقی ہے۔ کہ وہ یہ حساب کتاب بتائیں کہ 193 ممالک میں سے کتنے ممالک کشمیریوں کے حق آزادی کے ساتھ کھڑے ہیں؟ اور بھارتی مقبوضہ جموں کشمیر میں سٹیٹ سبجیکٹ بحال کروانے کی آپ کی کاوشوں کو عالمی سطح پر منوانے کے لیے گلگت بلتستان میں 1974 سے بغیر کسی قانونی تقاضے کے معطل شدہ باشندہ ریاست قانون کب بحال ہو رہا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).