غیرت کے نام پر قتل کے حامی قدامت پسند


\"ibrahimپاکستان کی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس جاری تھا۔ غیرت کے نام پر ہونے والے قتل کی روک تھام کے لئے پیپلز پارٹی کے بل کی مخالفت کرتے ہوئے ایک باریش رکن اسمبلی یہ فرما رہے تھے کہ \’\’ہمارا ملک اسلامی ہے، قرارداد مقاصد آئین کا حصہ ہے اور آئین ہمیں اجازت ہی نہیں دیتا کہ ملک میں قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون سازی کی جائے۔ کون سی قانون سازی قرآن و سنت کے خلاف ہے کون سی نہیں، اس کا جائزہ لینے کے لئے اسلامی نظریاتی کونسل موجود ہے\’\’ یہی نہیں مذہبی جماعت کے پارلیمنٹیرین صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ \’\’ہم مسلمان ہیں، گرمی میں استنجا کس طرح کرنا ہے اور سردی کے دوران استنجا کرنے کا کون سا طریقہ ہے، یہ بات ہمیں کوئی کلرک یا سرکاری ملازم نہیں سمجھائے گا بلکہ ہمیں ان مسائل کو سمجھنے کے لئے کسی مولوی کے پاس ہی جانا پڑے گا\’\’۔
غیرت کے نام پر ہونے والے قتل اور خونریزی کو روکنے والے اس بل کو قصاص و دیت سے مشروط کرنے پر زور دیتے ہوئے اس مولانا نے یہاں تک کہہ دیا کہ \’\’ایک رپورٹ کے مطابق دو سال میں پاکستان میں 17 ہزار لڑکیاں گھر سے بھاگ گئیں، جن میں چار ہزار شادی شدہ تھیں۔ \’\’

اس تقریر کے بعد ایک اور صاحب اٹھے، انہوں نے تو حد ہی کر دی، انہوں نے فرمایا کہ \’\’خواتین کے حقوق کی بات کرنا فیشن بن گیا ہے، یہ این جی اوز کا ایجنڈا ہے، اور صرف امریکہ کو خوش کرنے اور اپنے نمبر بڑھانے کے لئے اس طرح کی قانون سازی کی بات کی جاتی ہے تاکہ ان کو دوبارہ اقتدار مل جائے۔ \’\’ اس ملا نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ \’\’اگر اس قسم کی قانون سازی کی اجازت مل گئی تو یہ لوگ ہم جنس پرستی کی اجازت مانگیں گے، افسوس کی بات ہے کہ پاکستان میں لڑکوں اور لڑکیوں کا مشترکہ تعلیمی نظام ہے جس وجہ سے آج چھٹی کلاس کے طالب علموں کو سیکس تک کا پتہ ہے۔ \’\’ یہ بحث اس ملک کی پارلیمنٹ میں جاری تھی، جس میں ہم ترقی پسند سوچ کو پروان چڑھتے دیکھنے کی خواہش لئے بیٹھے ہیں۔

غیرت کے نام پر قتل کی زبانی کلامی مذمت تو سب کرتے ہیں، حکومت اس کو لعنت کہتی ہے، حزب اختلاف اسے ناسور کہتی ہے، مذہبی عالم اسے گناہ کبیرہ کہتے ہیں، لیکن جب ایسے قتال کو روکنے کے لئے قانون سازی کی بات آتی ہے تو حکومت اس پر خاموش ہوجاتی ہے، حزب اختلاف پر زور مطالبے کے باوجود کچھ حاصل نہیں کر پاتی جب کہ مولوی حضرات مذہب کی گٹھڑی کھول کر اس میں سے اپنی اپنی تشریحات بیان کر کے یہ ثابت کرتے ہیں، ان معاملات پر قدغن لگی ہوئی اور اس قسم کی قانون سازی، غیر شرعی اور خارج از اسلام ہے وغیرہ وغیرہ۔

سینیٹر صغرا امام نے غیرت کے نام پر قتل کے واقعات کو روکنے کے لئے قانون سازی کا ایک بل سینیٹ میں جمع کروایا تھا جس کو پیپلزپارٹی نے سینیٹ سے منظور کروا لیا، اس قانون میں سب سے بڑی مثبت تجویز یہ ہی تھی کہ غیرت کے نام پر قتل کے بعد صلح کی سہولت ختم کی جائے تاکہ ولی کے پاس مجرم کو معاف کرنے کا اختیار نہ رہے۔ بل سینیٹ سے تو اپنی اصل حالت میں منظور ہوا، لیکن قدامت پسندوں کی مہربانیوں سے قومی اسمبلی نے اس بل کو منظور نہیں کیا۔ جس کے بعد بل دونوں ایوانوں کے پاس بھیجنا پڑا۔ لیکن یہاں بھی تمام تر کوششوں کے باوجود مذہبی عناصر سے اس قانون سازی کے جائز اور اسلامی ہونے کا سرٹفکیٹ نہیں مل سکا۔

مسلم لیگ نواز کی حکومت نے ایک دن کے لئے بھی اس بل کو سنجیدہ نہیں لیا۔ ویسے تو قصاص و دیت کا قانون بھی مسلم لیگ نواز کا دیا ہوا تحفہ ہے، یہ قانون بھی ان دنوں میں پاس ہوا جب ہمارے موجودہ وزیراعظم کو امیر المومنین بننے کا شوق جاگا تھا۔ 1997 میں منظور کردہ قانون کے بھیانک نتائج بھی سامنے آ چکے ہیں۔ مجرموں کو معافیاں ملتی رہیں اور وہ جیل سے نکل کر ایک کے بعد دوسرا قتل کرتے رہے۔ جس کے نتیجے میں صرف گذشتہ تین سال میں تین ہزار سے زائد خواتین کو غیرت کے نام پر موت کے منہ میں دھکیل دیا گیا ہے، ایک رپورٹ کے مطابق 2015 میں 1096، 2016 میں ایک ہزار اور 2013 میں 869 خواتیں کو قتل کیا گیا۔

ہمارے سماج میں غیرت کے نام پر قتل گھر میں ہی ہوتا ہے، خاندان کا ایک فرد قتل کرتا ہے دوسرا قاتل کو معاف کر دیتا ہے اور اسی طرح خون رائیگاں ہوجاتا ہے۔ دیہاتوں میں تو اس قسم کے واقعات میں پولیس تک کو ملوث نہیں ہونے دیا جاتا۔ قتل کرنے کے بعد مجرم اعلان قتل کے ساتھ گاؤں کے مکھیا، لمبردار، سردار اور بھوتار کے پاس پہنچ کر خود کو غیرت مند ثابت کرنے کے لئے دلیل دے کر اعتراف کرتا ہے کہ \’\’قتل میں کر کے آیا ہوں اب فیصلہ آپ کریں۔\’\’ پھر وہ زمین دار اور گاؤں کا رکھوالا اپنے اثر رسوخ سے اس مجرم کو پولیس سے بچا لیتا ہے۔ اگر کوئی مقدمہ درج بھی ہوجائے اور بات عدالت تک پہنچ جائے تو خاندان کا کوئی فرد یعنی وارث اس مجرم کو معاف کر دیتا ہے اور صلح نامہ کی بنیاد پر مقدمہ سرے سے ختم اور مجرم بری ہوجاتا ہے۔ اس صلح نامے یا راضی نامے کو اگر لائسنس ٹو کل (قتل کا اجازت نامہ) نہیں تو اور کیا کہا جائے؟

غیرت کے نام پر قتل کے پیچھے شک شبہ، غلط فہمیاں اور جہالت کے ساتھ کئی اور چیزیں ہوتی ہیں۔ کئی قتل تو خواتین کے حصہ کی جائیداد کو ہڑپ کرنے کے لئے ہوتے ہیں، کئی واقعات کسی اور کی زمین اور ملکیت ہتھیانے کی نیت سے ہوتے ہیں، جس میں غیرت بریگیڈ کا سپہ سالار اپنی معصوم بہن، بیوی اور ماں تک کو موت کی گھاٹ اتار دیتا ہے اور پھر اپنے کسی مخالف کو بھی قتل کرکے اس کا جرگہ کروا کر جرمانے میں کافی کچھ حاصل کر لیتا ہے۔ دوسری شادی کے خواہش مند مرد غیرت کی آڑ میں اپنی بیویوں پر جھوٹا الزام لگا کر انہیں موت کی نیند سلا دیتے ہیں۔

غیرت کے نام پر قتل کے موضوع پر پی ایچ ڈی کرنے والی ڈاکٹر نفیسہ شاہ کے بقول قصاص و دیت کے قانون سے پہلے کوئی بھی قتل ریاست کے خلاف جرم سمجھا جاتا تھا لیکن جب یہ قانون بنا تو ریاست ہاتھ جھاڑ کر باہر کھڑی ہوگئی۔ تب سے ملک میں کوئی بھی قتل فرد کے خلاف جرم سمجھا جانے لگا اور اسی فرد کو ریاست نے قاتل کو معاف کرنے کا بھی حق دے دیا۔ اس حق کو خوب استعمال کیا جا رہا ہے، اور خاص طور پر غیرت کے نام پر ہونی والی بے غیرتی میں تو قصاص و دیت کا سہارا لینا آسان ترین بنا دیا گیا۔

ہزاروں خواتیں کا خون دیکھ کر بھی قدامت پسندی کے ٹھیکداروں کو اب بھی کوئی خرابی نظر نہیں آتی اور جب ایسی قانون سازی کی بات ہوتی ہے تو ان کو قرارداد مقاصد اور اسلامی نظریاتی کونسل یاد آجاتی ہے۔ وہ کونسل جو خواتین کے حقوق چھیننے کی سفارشات کے سوا کوئی کام نہیں کرتی۔ غیرت کے نام پر ہونے والے قتل کی حمایت کرنے والی بریگیڈ ہی اصل میں دنیا کی آدھی آبادی کی بڑی دشمن ہے۔

ابراہیم کنبھر

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابراہیم کنبھر

ابراھیم کنبھرموئن جو دڑو کی وارث سندھ دھرتی کے مٹی جیسے مانھو ہیں۔ کل وقتی صحافی ہیں۔ پیشہ ورانہ فرائض کے ضمن میں اسلام آباد میں مقیم ہیں۔ سندھی ٹی وی چینل کے ٹی این نیوز کے لئے کام کرتے ہیں اور سندھی روزنامے کاوش میں کالم لکھتے ہیں۔

abrahim-kimbhar has 57 posts and counting.See all posts by abrahim-kimbhar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments