China70years#: ’عالمی معیشت کا معجزہ‘ کیسے سرزد ہوا


شنگھائی میں دریا کے کنارے فلک بوس عمارتیں

چین کو تنہائی سے نکل کر دنیا کی بڑی اقتصادی طاقتوں کی صف میں کھڑا ہونے میں 70 برس سے کم کا عرصہ لگا ہے۔

عوامی جمہوریہ چین کے قیام کی 70ویں سالگرہ کے موقع پر ہم جائزہ لیں گے کہ معاشی اصلاحات کے عمل سے دولت غیرمعمولی صورت میں کیسے پھیلی اور عدم مساوات کی جڑیں کیسے گہری ہوئیں۔

بی ڈی ایس کے چیف اکانومسٹ کرس لیونگ کا کہنا ہے کہ ’جب کمیونسٹ پارٹی اقتدار میں آئی تو چین انتہائی غریب تھا۔‘

’نہ کسی سے تجارتی تعلقات تھے، نہ سفارتی تعلقات، خود انحصاری کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔‘

گزشتہ چالیس برس کے دوران چین نے منڈی میں انتہائی اہم اصلاحات کو سلسلہ وار متعارف کروایا ہے جس سے تجارتی راستے ہموار ہوئے ہیں، اور سرمایہ کاری آئی ہے۔ نتیجتاً کروڑوں لوگ غربت کی دلدل سے نکل آئے۔

مجموعی ملکی پیداوار

سنہ 1950 کی دہائی نے 20ویں صدی کی سب سے بڑی انسانی تباہی دیکھی۔ چین کی زرعی معیشت کو صنعتی معیشت میں تیزی سے بدلنے کی ماؤ زے تُنگ کی پالیسی ناکام ہوگئی جس کے نتیجے میں سنہ 1959-1961 کے عشرے میں 10 سے 40 ملین افراد ہلاک ہوئے۔ یہ انسانی تاریخ کا سب سے بڑا قحط تھا۔

اس کے بعد ساٹھ کی دہائی میں ثقافتی انقلاب نے معاشی خلل پیدا کیا۔ اس مہم کے ذریعے ماؤ کمیونسٹ پارٹی کی صفوں سے مخالفین کا صفایا کرنا چاہتے تھے، مگر اس سے قوم کا سماجی شیزاہ بکھر کر رہ گیا۔

’دنیا کا کارخانہ‘

تاہم 1976 میں ماؤ کے انتقال کے بعد ڈینگ ژیاؤ پنگ کی طرف سے شروع کی گئی اصلاحات نے معیشت کی شکل بدلنا شروع کر دی۔ کسانوں کو خود اپنی زمین پر کھیتی باڑی کی اجازت ملی جس سے معیار زندگی بلند ہوا اور خوراک کی کمی بھی دور ہوئی۔

1979 میں چین اور امریکہ کے درمیان معمول کے سفارتی تعلقات کی بحالی کے بعد بیرونی سرمایہ کاری کے لیے راستہ کھولا گیا۔ سستی لیبر اور سہولیات کا فائدہ اٹھانے کے لیے بیرونی سرمایہ کاری کی ریل پیل ہو گئی۔

سٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک کے گلوبل چیف اکانومسٹ ڈیوڈ مین کا کہنا ہے کہ ’1970 کی دہائی کے آخر سے آگے ہم نے جو دیکھا ہے وہ بلا شبہ دنیا کی کسی بھی اقتصادی تاریخ کا سب سے متاثر کن معجزہ ہے۔‘

2001 میں چین نے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں شمولیت اختیار کر لی جس سے اسے مزید فائدہ ہوا۔ دوسرے ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات میں آسانیاں پیدا ہوئیں، بہت سی رکاوٹیں دور ہو گئیں اور جلد ہی چینی مصنوعات دنیا بھر میں پھیل چکی تھیں۔

ڈیوڈ مین کے مطابق ’چین دنیا کی ورکشاپ بن گیا۔‘

چینی برآمدات

لندن سکول آف اکنامکس کے 1978 کے اعداد و شمار کے مطابق اس کی برآمدات 10 ارب ڈالر تھیں جو دنیا کی تجارت کے ایک فیصد سے بھی کم تھیں۔

1985 تک یہ بڑھ کر 25ارب ڈالر کی ہو چکی تھیں، اس کے بعد تقریباً دو دہائیوں میں ان کی مالیت 4.3 ٹرلین ڈالر تک پہنچ چکی تھی اور اس طرح چین دنیا کا اشیاء میں تجارت کرنے والا سب سے بڑا ملک بن چکا تھا۔

غربت کا خاتمہ

اقتصادی اصلاحات نے کروڑوں چینی شہریوں کی زندگی بدل دی۔ عالمی بنک کے اعداد و شمار کے مطابق 85 کروڑ افراد کو غربت سے نکالا گیا اور 2020 تک ملک میں غربت مکمل طور پر ختم ہو نے جا رہی ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ شرح خواندگی میں بھی بہتری آئی ہے۔ سٹینڈرڈ چارٹرڈ کے مطابق سن 2030 تک چین کی 27 فیصد ورک فورس یونیورسٹی کی تعلیم سے آراستہ ہو گی اور آجکل جرمنی میں یہی شرح ہے۔

چین کی اقتصادی ترقی کے ثمرات

بڑھتا ہوا عدم مساوات

اس سب کے باوجود چینب کی اقتصادی ترقی کے ثمرات اس کی تمام آبادی تک نہیں پہنچے۔ ایک طرف انتہائی امیر لوگ اور تیزی سے ابھرتی ہوئی مڈل کلاس تھی تو دوسری طرف غریب دیہاتی آبادیاں اور اور کم ہنر جاننے والی بڑی عمر کی ورک فورس۔

دیہات اور شہروں میں خاص طور پر فرق بہت بڑھ گیا ہے۔ ڈیوڈ مین کا کہنا ہے کہ تمام معیشت ترقی یافتہ نہیں ہے بلکہ مختلف حصوں میں بہت فرق ہے۔

عالمی بینک کا کہنا ہے کہ چین کی فی کس آمدنی اب بھی ترقی پذیر ممالک والی ہے اور ترقی یافتہ ممالک کی اوسط سے ایک چوتھائی سے بھی کم ہے۔

چین کی سالانہ اوسط فی کس آمدنی تقریباً 10 ہزار ڈالر ہے جبکہ امریکہ میں یہ 62 ہزار ڈالر ہے.

ارب پتی

ترقی کی سست رفتار

چین میں اب ترقی کی رفتار سست ہو رہی ہے۔ برسوں سے وہ کوشش کر رہا ہے کہ وہ اپنی ترقی کا انحصار برآمدات سے ہٹا کر ملک کے اندر کھپت پر کر دے۔ اسے نئے چیلنجوں کا سامنا ہے کیونکہ عالمی سطح پر اس کی مصنوعات کی مانگ کم ہو رہی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس کی امریکہ کے ساتھ تجارتی جنگ بھی جاری ہے۔

لیکن اس سب کے باوجود بھی اگر اس کی ترقی کی شرح 5 سے 6 فیصد کے درمیان رہتی ہے، چین دنیا میں عالمی اقتصادی ترقی کا سب سے طاقتور انجن ہو گا۔

ڈیوڈ مین کا کہنا ہے کہ اس رفتار کے ہوتے ہوئے عالمی ترقی کا 35 فیصد حصہ چین کا ہو گا جو اسے امریکہ کے مقابلے میں عالمی ترقی کے لیے تین گنا زیادہ اہم ملک بنا دے گا۔

اگلی معاشی سرحد

چین عالمی معاشی ترقی میں ایک نیا محاذ قائم کر رہا ہے۔ ملک میں قوم سازی کا ایک نیا باب کھل رہا ہے جس میں بیلٹ اینڈ روڈ اِنیشی ایٹیو جیسے عالمی پیمانے کے منصوبے کے تحت سرمایہ کاری کی ایک لہڑ اٹھائی جا رہی ہے۔

بیلٹ اینڈ روڈ سرمایاکاری

سلک روڈ یا شاہراہ ریشم کا مقصد دینا کی تقریباً آدھی آبادی اور عالمی جی ڈی پی کے پانچویں حصے کو دنیا بھی میں تجارت اور سرمایہ کاری کے ذریعے مربوط کرنا ہے۔

DO NOT DELETE – DIGIHUB TRACKER FOR [49879923]


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32496 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp