نکا نیکر اور بندوق


’نکیا، اُتار نیکر، دکھا اسے‘‘۔ نکے کو عامی نے اشارہ کیا۔ اس نے منٹ مارا، نیکر اتار کر کندھے پر رکھی۔ دکھا دیا جو دکھانا تھا۔ موکھا یہ نظارہ دیکھ کر سن سا ہو گیا۔ سنبھلا، لیکن ذرا دیر سے، اور گالیوں کی بوچھاڑ کر دی۔ عامی سمیت سبھی ہنسنے لگے۔ موکھے کی گالیوں کو بریک تب لگی، جب ماما ڈیرے پر، ہماری طرف آتا دکھائی دیا۔ مامے کو آتے دیکھا تو نکے نے پھر منٹ مارا، نیکر پہن لی۔ نکے کی پھرتی اس کے کسی کام نہ آئی۔ مامے نے اس کو آتے ہی اک چماٹ ماری۔ ’’دفع ہو حقہ لے کر آ‘‘۔ عامی بولا، ’’چودھری اسے نہ مارا کر۔ گونگا تو ہے بیچارہ‘‘۔

ماما بولا، ’’تم اسے الٹی مت دیتے رہا کرو‘‘۔ عامی بولا، ’’چودھراہٹ گالاں بغیر چلتی ہے بھلا!؟ زمیندارہ کیسے کرے گا یہ! اسے ایسا عمل سکھایا ہے، کہ بہترین چودھری بنے گا۔ یہ نیکر اتار کر جب کندھے پر رکھتا ہے، تو اگلا سب سمجھ جاتا ہے، کہ یہ کیا کہہ رہا ہے‘‘۔ ماما بولا، ’’او کنجرو، کوئی وڈا فساد کراؤ گے۔ اس کو پتا نہیں کیا سکھا رہے ہو‘‘۔ یہ سب باتیں میں سائڈ پر لیٹا دیکھ سن رہا تھا۔ نکا میرا کزن ہے۔ تب آٹھ نو سال کا تھا۔ اسے سنائی بہت کم دیتا تھا۔ آوازیں اس نے کم کم سنی تھیں، اس لیے بولنا سیکھا نہیں گیا۔ نکا شرارت اور شیطانی کی مٹی سے گندھ کر بنا تھا۔

بہت کری ایٹو تھا۔ قسما قسم کی غلیلیں بنا لیتا تھا۔ طرح طرح سے پرندے پکڑ لیتا تھا۔ سب سے زیادہ ٹکریں مارنے والا  بیل بھی کھول کر انہیں لے کر گھومتا رہتا تھا ۔  اپنی بات کہنا، سمجھانا اسے مشکل لگتا تھا  اس لیے چپ رہتا تھا۔ خاموشی سے کچھ ایسا کرتا، کہ ہر طرف ’’ہا لا لا لا‘‘ ہو جاتی۔ سب سمجھ جاتے کہ نکے نے کچھ کر دیا ہے۔ ہماری زمین کے پاس ہی سرکاری زمین تھی۔ اس زمین پر فصل کاشت کرنے کے لیے، دو گھروں کا مقابلہ رہتا تھا۔ ظاہر ہے ایک میرے ماما لوگ تھے۔ ان کے مسلسل پھڈوں سے تنگ آ کے، آخر کار گاؤں والے یہ فیصلہ کرانے کی کوشش کر رہے تھے، کہ اس زمین پر دونوں گھرانے باری باری کاشت کر لیا کریں۔

اس طرح لڑائی ٹلے گی، پنڈ میں فساد نہیں ہوگا۔ ہمارے مامے کی لڑائی والی بوٹی کو آرام تھا ہی نہیں ۔ پنڈ کی اکلوتی بندوق اسی کے پاس تھی۔ اس کا اسے مان بھی بہت تھا۔ ہر وقت گولی چلانے کی دھمکی دیتا رہتا تھا۔ مامے نے عامی سے پوچھا، ’’پریا (جرگے) میں کیا کرنا ہے؟ عامی نے کہا، ’’کرنا کیا ہے۔ دونوں گھر باری باری کاشت کر لیں۔ اچھی آفر ہے قبول کر لینی چاہیے‘‘۔ ماما بولا، ’’ہاں! مجھے بھی مناسب ہی لگتی ہے، یہ بات۔ پر پہلی بار، کاشت ہم کریں گے‘‘۔ پھر مامے نے مجھ سے پوچھا، ’’اوئے پشوری، تو بتا، کیا کریں‘‘؟

میں‌ نے کہا، ’’جو مرضی کرو، بس بندوق نہ لے کر جانا، جرگے میں۔ یہ بری بات ہے‘‘۔ ’’وہ تو میں لے کر جاوں گا‘‘۔ ’’نکے کو بھی مت لے جانا‘‘۔ ’’اسے بھی میں لے کر جاوں گا‘‘۔ مامے کو میرا کوئی مشورہ قبول نہیں تھا۔ کل سے، ماما مجھے ویسے ہی زہر لگ رہا تھا۔ نکے نے میری تازہ تازہ بزتی، اسی مامے سے کرائی تھی۔ میں نے دو کزنوں کو سگریٹ پیتے پکڑا تھا۔ بڑے جوش سے نانا کو بتانے جا رہا تھا، کہ مامے کے ہتھ چڑھ گیا۔ اس نے میری بجائے نکے سے پوچھا، کہ کیا ہوا ہے۔ نکے نے میری طرف اشارہ کرتے، ہاتھ سے سوٹا لگا کر دکھایا۔

مامے نے اس کو اپنی طرف سے پکا سگریٹ بنا کر دیا، اور میری رج کے بزتی کی۔ لیٹا ہوا میں شکر ہی ادا کر رہا تھا، کہ کہیں گنے کے کھیت سے جو لڑکے پکڑے تھے، اس وقت نکا ساتھ نہیں تھا۔ تب مامے کا سامنا بھی نہیں ہوا۔ ورنہ نکے نے جو اشارے کرنے تھے۔ اس کے بعد مجھ پر، یہاں پاکپتن میں پشوری کیس بننا تھا۔

سچی بات ہے، یہی سوچ سوچ کر میں دہشت زدہ سا منجی پر گرا پڑا تھا ۔ مامے نے کہا، ’’پریا کا ٹائم ہو گیا ہے، میں بندوق لے کر آتا ہوں‘‘۔ وہ جیسے ہی گیا، میں نے عامی سے پوچھا، ’’یہ موکھے نے کیا کیا تھا‘‘؟ عامی بولا، ’’اسے تیسرے پنڈ معشوق سے ملانے لے گیا تھا۔ وہاں یہ غلط منجی پر جا پڑا۔ جس پر معشوق کی نانی مائی پھتو لیٹی ہوئی تھی۔ پھتو اسی پنڈ کی تھی ۔ اس نے ایسی چیخ ماری تھی، کہ سارے پنڈ کے کتے بھونکنے لگ گئے‘‘۔  عامی کا کہنا تھا کہ ایسی چیخ کوئی خوشی سے ہی مارتا ہے ۔ موکھا بولا، ’’یہ عامی ایسا بگیرت ہے، کہ یہ وہاں سے بھاگتے ہوئے بھی ان کا لیلا اٹھا کر لے آیا ، او ساڈے اپنے نے ‘‘۔

عامی بولا، ’’کجھ تے کرنا سی‘‘۔ (کچھ تو کرنا تھا) موکھے نے اسے منہ کھول کر دوبارہ بگیرت کہنے کا ارادہ ہی کیا تھا، کہ عامی نے نکے کی طرف اشارہ کیا۔ جو پھر نیکر اتار کر کھڑا، موکھے کو کچھ دکھا رہا تھا۔  پھر گالی گلوچ ہوتی، لیکن ماما بندوق لٹکائے پہنچ گیا۔ ’’چل چلیں‘‘۔ میں نے کہا، ’’نئیں جاتا‘‘۔  مامے نے کہا دیکھ جن سے رولا ہے وہ موکھے اور عامی کے اپنے ہیں ۔ یہ دونوں ہماری طرف سے جا رہے ہیں ۔ تم کو حیا نہیں کہ ساتھ چلو ۔ میں نے کہا مائی پھتو بھی آ رہی ۔ بتاتی ہے تم سب کو ۔

عامی بولا پھتو نے مڑ کجھ نہیں کہنا ، وہ کچھ نہیں کرے گی اسے موکھے سے عشق ہو چکا ہے ۔ موکھے نے پھر گالی دی ۔ ماما کو کہانی ہی پتہ نہیں تھی تو اسنے کہا بکواس بند کرو چلو اب دیر ہو رہی ۔ وہ سب تو آئے کھڑے ہیں ۔

دو کھیت دور جانا تھا ۔ یہ سب لوگ وہاں چلے گئے ادھر چالیس پچاس بندہ اکٹھا تھا۔ مخالف پارٹی بھی کہیں سے کلاشنکوف والے بندے لے کر آئی ہوئی تھی۔ مامے کی بندوق کا ڈاڈھا جواب دینے کو۔ مامے نے کسی کا بھی انتظار کیے بغیر  خود ہی خطاب شروع کر دیا ، کہ اسے پریا (جرگے) کا فیصلہ منظور ہے۔ پہلی کاشت وہ خود ہی کرے گا۔ کیوں کہ بندوق اس پنڈ میں، صرف اس کے پاس ہے۔ ساتھ ہی اشارہ کیا، کہ یہ جو مشینیں (کلاشنکوف) لے کر بیٹھے ہیں، یہ میں نے انہی کو دے دینی ہیں ۔

یہ سب میں بھی اپنے کھیت کی حد پر بیٹھ کر سن رہا تھا ۔ دنگے والی زمین پر پیر تک نہیں رکھا تھا ۔ ۔ پنڈ کے بہت لوگ آئے ہوئے تھے۔ دو تین بہت بوڑھی مائیاں، مائی پھتو کی قیادت میں پریا سے کچھ فاصلے پر بیٹھی تھیں، کہ ان لڑاکوں کو مت دیں ، یا ایسا  فساد کرائیں کہ ان سب کی تسلی ہو جائے ۔

مامے کی بات سن کر جو سناٹا چھایا تھا، اسے مائی پھتو کی آواز نے توڑا۔ ’’او کنجرو‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے بعد پتا نہیں کیا ہوا۔ عامی نے مدد کے لیے میری طرف دیکھا تھا۔ میں نے عامی کو دیکھتے، نکے کی طرف اشارہ کیا۔ نکے نے جیسے ہی عامی کو دیکھا، اس نے نیکر اتار کر کندھے پر رکھ لی۔ اس کے بعد کیا بندوق اور کیا مشین (کلاشنکوف)، سب کا استعمال لاٹھیوں کی طرح ہوا۔  کس نے کس کو مارا کوئی پتہ نہ لگا ۔ میری طرف کوئی نہ آیا ۔ مائی پھتو ہی آئی کہ پت توں نہ ڈر تو تو پروہنا (بیٹا تو نہ ڈر، تو تو مہمان ) ہے ۔ کنجر تے اے سارے نے (کنجر تو یہ سارے ہیں) ۔

گھنٹے ڈیڑھ بعد، ماما پارٹی بہت ٹٹ بھج کے، ڈیرے پر بیٹھی ٹکور کرانے کو آوازیں دے رہی تھی ۔ ماما بندوق ڈیرے ہی پر پھینک کر، گھر کی دہلیز میں گم ہو چکا تھا۔ عامی نے پوچھا، ’’یار وسی، اے ہویا کی سی؟ لڑائی نکے دی نیکر تے ہوئی سی، یا مامے دی بندوق والی گل تے‘‘؟ (یار وسی، یہ ہوا کیا تھا؟ لڑائی نکے کے نیکر اتارنے پر ہوئی، یا ماموں کی بندوق والی بات پر؟)

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi