میڈیا کا احتساب کیوں نہیں؟


چند ہفتے قبل وفاقی حکومت نے میڈیا کے لئے خصوصی عدالتیں بنانے کا اعلان کیا تو حکومت کو کڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ اپوزیشن جماعتوں، میڈیا مالکان، صحافتی تنظیموں اور سول سوسائٹی نے اس فیصلے کو آزادی صحافت اور جمہوریت پر حملے کے مترادف قرار دیا۔ حکومت کی طرف سے اس قسم کی ایک کاوش جنوری 2019 میں بھی ہوئی تھی۔ وفاقی وزارت اطلاعا ت اس وقت فواد چوہدری کے سپرد تھی۔ وزیر موصوف نے پیمرا (Pakistan Electronic Media Regulatory Authority) اور پریس کونسل آف پاکستان کو ختم کر نے کا عندیہ دیا تھا۔

ارادہ ان کا یہ تھا کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کو بھی ایک ادارے تلے لایا جائے گا۔ اس ادارے کا نام پمرا (Pakistan Media Regulatory Authority) تجویز ہوا تھا۔ اس اعلان کو بھی مختلف حلقوں نے ہدف تنقید بنایا تھا۔ اس ضمن میں وزارت اطلاعات نے ایک مسودہ بھی تیار کر ڈالا تھا۔ تاہم بعد میں حکومت کو احساس ہوا کہ معاملہ اس قدر سادہ نہیں۔ مطلوبہ تبدیلی کے لئے پارلیمنٹ میں باقاعدہ قانون سازی کرنا پڑے گی۔ جس کے لئے اپوزیشن کا سہارا لازم ہے۔ لہٰذا وہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی تھی۔

میڈیا کورٹس کے شوشے کے بارے میں بھی پہلے دن سے ہی معلوم تھا کہ یہ بیل بھی منڈھے چڑھنے والی نہیں۔ اب اطلاع آئی ہے کہ یہ غنچہ بھی بن کھلے مرجھا گیا ہے۔ ممکن ہے اس اطلاع کے بعد کوئی اور اطلاع بھی آ جائے۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ نہ صرف میڈیا بلکہ سول سوسائٹی بھی اس طرح کے کسی شکنجے کو قبول (بلکہ برداشت) نہیں کرے گی جو میڈیا کی آزادی کو سلب کرے۔ ہمارا تجربہ یہی ہے کہ اس طرح کی قانون سازی بظاہر نہایت نیک نیتی کے ساتھ انتہائی اعلیٰ مقاصد کے لئے ہوتی ہے اور اس کے لئے بڑی اچھی دلیلیں بھی لائی جاتی ہیں لیکن جب قانون بن جاتا ہے تو اس کا استعمال بھونڈے انداز میں ہوتا ہے اور حکومتیں اسے اپنے مخالفین کے لئے استعمال کرتی ہیں۔ برسوں سے ہمیں یہی تجربہ ہو رہا ہے۔

لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا میڈیا کورٹس کا فیصلہ واپس لینے سے وہ تمام مسائل حل ہو گئے ہیں جن کے لئے ان عدالتوں کا جواز تلاش کیا جا رہا تھا؟ کیا الیکٹرانک میڈیا پوری طرح پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کے ساتھ اپنا کردار ادا کر رہا ہے؟ کیا اب لوگوں کی پگڑیاں اچھالنے کا سلسلہ رک گیا ہے؟ کیا اب بے سوچے سمجھے الزامات نہیں لگائے جاتے؟ کیا اب ہمارے ٹاک شوز کی زبان شائستہ ہو گئی ہے؟ کیا اب لوگوں کی عزت نفس کی پاسداری ہونے لگی ہے؟

کیا اب اسکینڈلز کا چلن تمام ہو گیا ہے؟ کیا اب ہر خبر خوب چھان پھٹک کے بعد عوام تک پہنچائی جاتی ہے؟ کیا اب ڈرامے اور مزاحیہ پروگرام ہماری قومی اور تہذیبی اقدار کا احترام کرنے لگے ہیں؟ کیا الیکٹرانک میڈیا پر عوام کے اعتماد میں اضافہ ہو رہا ہے یا کمی واقع ہو رہی ہے؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کیا الیکٹرانک میڈیا اس ضابطہ اخلاق پر عمل کر رہا ہے جس کی تیاری میں اس نے خود بڑا سرگرم کردار ادا کیا تھا اور سرکاری کمیٹی کے ساتھ مل کر بڑی محنت سے مکمل اتفاق رائے کے ساتھ ایک مسودہ تیار کیا تھا۔ جو سپریم کورٹ کے احکامات سے نافذ العمل بھی ہو گیا تھا؟

سچی بات یہ ہے کہ یہ مشترکہ اور متفقہ ضابطہ اخلاق بھلایا جا چکا ہے۔ نہ مالکان کو اس کی کوئی فکر ہے نہ ملازمین اس سے واقف ہیں اور تو اور چینلز نے خود احتسابی کے لئے وہ داخلی کمیٹیاں بھی قائم نہیں کیں جو اس ضابطہ اخلاق میں لازمی قرار دی گئی تھیں اور جن کے قیام پر میڈیا مالکان نے اپنی کامل رضا مندی دی تھی۔

اگرچہ وفاقی حکومت نے میڈیا کورٹس کا اعلان واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے، تاہم صورتحال اس امر کی متقاضی ہے کہ میڈیا پوری دیانتداری اور ذمہ داری سے اپنا جائزہ لے۔ اپنے گریبان میں جھانکے اور اپنے ماضی پر نگاہ ڈالے۔ کوئی ذی شعور شخص آزادی صحافت اور آزادی اظہار رائے پر لگنے والی قدغن کی حمایت نہیں کر سکتا۔ لیکن بے مہار آزادی کی حمایت بھی ہرگز نہیں کی جا سکتی۔ ہر آزادی کو سماجی اور اخلاقی حدود کا پابند ہو نا چاہیے۔

میڈیا پر بھی لازم ہے کہ صحافتی اخلاقیات کو ملحوظ رکھے۔ کسی حکومتی یا ریاستی ڈنڈے کے خوف سے نہیں بلکہ رضا کارانہ طور پر۔ اپنی ساکھ اور اعتبار کو قائم رکھنے کے لئے کیا ہم اس بات کی گواہی دے سکتے ہیں کہ پاکستانی میڈیا بالکل شفاف اور بے داغ کردار کا حامل ہے؟ اس کا جواب یقیناً نفی میں ہے۔ اگرچہ ہمارے ہاں پروفیشنل صحافی اور صحافتی ادارے موجود ہیں جو صحافتی، اخلاقی، جمہوری اور آئینی قواعد و ضوابط کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے بروئے کار آتے ہیں۔ مگر یہ بھی سچ ہے کہ میڈیا (خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا ) کے مخصوص حصے نے گالی گلوچ اور الزامات کی روایت کو شعوری طور پر فروغ دیا ہے۔ نام نہاد صحافی سر عام غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹتے اور کفر کے فتوے صادر کرتے رہے، مگر ان کی گرفت نہیں کی گئی۔

یہ بات بھی ہماری یاداشت میں تازہ ہے کہ کس طرح مخصوص ٹی وی اینکرز قرآنی آیات کے حوالے دے کر حلفاً اور قسماً یہ دعویٰ کیا کرتے تھے کہ بیگم کلثوم نواز کی بیماری شریف خاندان کو مقدمات سے بچانے کے لئے رچایا گیا ڈھونگ اور ڈرامہ ہے۔ یہ وہی میڈیا ہے جس نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں کو گرانے کے لئے ڈاکٹر طاہر القادری کے غیر جمہوری اقدامات کا جھنڈا اٹھائے رکھا تھا۔ یہ وہی میڈیا ہے جو منتخب وزیر اعظم کو گریبان سے پکڑ کر گھسیٹنے کے بیانیے کو فروغ دینے میں پیش پیش رہا۔ یہ وہی میڈیا ہے جس نے سی پیک جیسے اہم منصوبے کو متنازعہ بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی۔ یہ وہی میڈیا ہے جس نے اسکندر نامی محبوط الحواس آدمی کوگھنٹوں براہ راست دکھا کر ملک بھر میں خوف و ہراس پھیلائے رکھا۔ یہ وہی میڈیا ہے جو مولوی خادم رضوی کے ملفوظات سناتا اور مذہبی منافرت کی آگ بھڑکاتا رہا۔ آج تک میڈیا مالکان اور صحافتی تنظیموں نے ایسے صحافیوں کا احتساب اورمحاسبہ کرنے کی زحمت کیوں نہیں کی؟

آج کل بہت سے صحافیوں کو سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی یاد آنے لگے ہیں۔ انہیں احساس ہونے لگا ہے کہ اس جیسا سادگی پسند وزیر اعظم تو ملکی تاریخ میں نہیں گزرا۔ بطور وزیر اعظم یہ آدمی ایک رات کے لئے بھی وزیر اعظم ہاؤس میں نہیں رہا۔ نہ اس نے اندرون ملک یا بیرون ملک کوئی پروٹوکول لیا۔ حالانکہ اس دور میں یہی شاہد خاقان جب عام شہری کی طرح اپنا سوٹ کیس گھسیٹتا ہوا ائیر پورٹ پر دکھائی دیتا تھا تو انہی صحافیوں کو وزیر اعظم پاکستان کی یہ ”حرکت“ ملک و قوم کی بدنامی اور بے عزتی معلوم ہوا کرتی تھی۔

ٹی وی پروگراموں میں یہ مناظر بار بار دکھا کرشاہد خاقان پر تنقید کے تیر برسائے جاتے تھے۔ آج یہی شاہد خاقان ان صحافیوں کو سادگی کا پیکر دکھائی دینے لگا ہے۔ بات یہ ہے کہ میڈیا جب صحافتی اصولوں کے بجائے کسی کے اشاروں پر چلنے لگے۔ جب حقائق پر ذاتی پسند نا پسند حاوی ہو جائے، تب اسی قسم کی صحافت جنم لیتی ہے۔

سینئر صحافی اور سی۔ پی۔ این۔ ای (Council of Pakistan newspapers editors) کے صدر جناب عارف نظامی کی یہ اطلاع بڑی خوش آئند ہے کہ میڈیا خود اپنے احتساب اور ناقدانہ جائزے کے لئے ایک نظام وضع کرنا چاہتا ہے۔ ایسا ہو جائے تو خود بخود ان قوتوں کو پیچھے ہٹنا پڑے گا جو اپنے مقاصد کے لئے میڈیا کورٹس جیسے شکنجے کسنا چاہتی ہیں۔ اس سے پہلے کہ ریاست کو کسی قانونی گرفت کا ٹھوس جواز فراہم ہو، لازم ہے کہ دوسروں کی گرفت کرنے والا میڈیا اپنے محاسبے کا اہتمام کرے۔ اگر خود احتسابی کے عمل میں مزید تاخیر ہوتی ہے اور ریاست کو بروئے کار آنے کا موقع فراہم ہوتا ہے تو خدشہ ہے کہ میڈیا اپنی بچی کچھی آزادی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے گا۔

بشکریہ روزنامہ نئی بات


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).