حزبِ اختلاف کی حکومت مخالف تحریک: اگر مولانا فضل الرحمٰن مان جاتے ہیں؟


حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتوں کی طرف سے دھرنے کی باتوں کے حوالے سے ایک تاثر یہ بھی پایا جاتا ہے کہ اس طرح وہ محض حکومت پر دباؤ قائم رکھنا چاہتی ہیں، شاید سنجیدگی سے اس پر عمل درآمد نہیں چاہتیں۔

حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتوں کی طرف سے دھرنے کی باتوں کے حوالے سے ایک تاثر یہ بھی پایا جاتا ہے کہ اس طرح وہ محض حکومت پر دباؤ قائم رکھنا چاہتی ہیں، شاید سنجیدگی سے اس پر عمل درآمد نہیں چاہتیں۔

پاکستان میں حزبِ اختلاف کی جماعتیں ایک مرتبہ پھر سے حکومت کو گرانے کا ارادہ لے کر ایک مشترکہ لائحہ عمل تیار کرنے کی کوشش میں ہیں۔

ایک طرف جمعیت علما اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن ہیں۔ رواں ماہ ان کا ارادہ تھا کہ ایک حکومت مخالف ریلی لیے وہ اسلام آبادہ پر چڑھائی کریں گے اور دھرنا دیں گے۔ حزبِ اختلاف کی بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ ن ان کا ساتھ دینے کو تیار تھی۔

پاکستان پیپلز پارٹی ابتدا میں تیار نہیں تھی، پھر جزوی طور پر تیار ہوئی تاہم اب ان کا کہنا ہے کہ وہ حکومت مخالف کسی ریلی یا احتجاج میں شامل ہوں گے تاہم ‘ایسا ایک متحدہ حزبِ اختلاف کی جانب سے ہونا چاہیے، محض ایک جماعت اس کا فیصلہ نہ کرے۔’

اب دونوں جماعتیں چاہتی ہیں کہ مولانا فضل الرحمٰن مارچ اور دھرنے کا منصوبہ اکتوبر سے آگے منتقل کریں کیونکہ ‘انہیں تیاری کے لیے وقت درکار ہے۔’ اس کے لیے وہ آئندہ چند روز میں جمیعتِ علما اسلام کے قائد سے ملاقاتیں کریں گے۔

حالیہ پیش رفت منگل کے روز اسلام آباد میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی ن لیگ کے صدر شہباز شریف سے ملاقات کے بعد سامنے آئی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

سیاست کے کھیل کا بارہواں کھلاڑی

’ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم کی مینیجر کو ہٹا دیا گیا‘

اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا مولانا فضل الرحمٰن اپنا ارادہ ملتوی کرنے پر راضی ہوں گے؟ اگر نہیں ہوتے تو کیا دونوں جماعتیں ان کا ساتھ دیں گی؟ اور اگر ساتھ نہیں دیتیں تو کیا سیاسی طور پر انہیں فائدہ ہو گا یا نقصان؟

کیا ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی قیادت کو یقین ہے کہ موجودہ حالات اس قدر موزوں ہیں کہ حزبِ اختلاف کی حکومت گرانے کی کوشش کامیاب ہو پائے گی؟

’سیاسی جماعتیں دباؤ بڑھانا چاہتی ہیں‘

حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتوں کی طرف سے دھرنے کی باتوں کے حوالے سے ایک تاثر یہ بھی پایا جاتا ہے کہ اس طرح وہ محض حکومت پر دباؤ قائم رکھنا چاہتی ہیں، شاید سنجیدگی سے اس پر عمل درآمد نہیں چاہتیں۔

صحافی و تجزیہ کار مجیب الرحمٰن شامی خصوصاً ن لیگ کی سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ ان کے خیال میں یہ تاثر کافی حد تک درست ہے۔ ‘لگتا یوں یہ کہ بڑی سیاسی جماعتیں جو ہیں وہ دباؤ بڑھانا چاہتی ہیں اور ان کا خیال ہے کہ معاملات آخری نقطے تک نہ پہنچیں۔’

ان کا کہنا تھا کہ اس قسم کی خبریں آ رہی ہیں کہ پیپلز پارٹی یہ چاہتی ہے کہ حکومت مخالف مارچ کو آئندہ برس مارچ کے مہینے تک ملتوی کیا جائے۔

تاہم مارچ کی باتوں سے ‘وہ چاہتے ہیں کہ دباؤ بڑھا کر حکومت یا جو ادارے ہیں ان کے ساتھ جو معاملات کیے جا سکتے ہیں وہ کر لیے جائیں۔’

پیپلز پارٹی کا مفاد کیا ہے؟

مجیب الرحمٰن شامی کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت میں بڑے نام پہلے ہی سے جیل میں ہیں۔ صوبہ سندھ میں ان کی جماعت کے وزیرِ اعلٰی مراد علی شاہ کو بھی گرفتار کرنے کی باتیں چل رہی ہیں۔

‘میرا خیال یہ ہے کہ وہ چاہتے یہ ہیں کہ دباؤ بڑھایا جائے اور اس کے ذریعے کوئی ریلیف حاصل کیا جائے تاکہ ان کو کسی انتہائی اقدام تک نہ جانا پڑے۔ انتہائی اقدام کے نتیجے میں جو غیر یقینی کی صورتحال پیدا ہوتی ہے اس کو سنبھالنا کسی کے بس میں نہیں ہوتا۔’

پاکستان کے معتبر جریدے دی نیوز آن سنڈے کی ایڈیٹر فرح ضیا اس بات سے اتفاق کرتی ہیں کہ دونوں جماعتیں حکومت پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ‘سیاست میں ایسا تو ہوتا ہے۔ پیپلز پارٹی اس طرح کے اور دوسرے تمام سیاسی حربِ استعمال کرے گی۔’

تاہم ان کے خیال میں پاکستان پیپلز پارٹی مولانا فضل الرحمٰن کی دھرنے والی بات پر ساتھ دینے سے ہچکچا بھی رہی ہے جس کی وجہ اور بھی ہے۔

‘وہ اس لیے بھی دور رہنا چاہتے ہیں کہ اگر اس قسم کے کسی دھرنے میں مذہبی نوعیت کے مطالبات کو سامنے لایا جاتا ہے تو وہ اس کا حصہ نہیں بننا چاہیں گے۔’ ان کا کہنا تھا کہ یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی آل پارٹیز کانفرنس بلانے پر زور دے رہی ہے۔

پیپلز پارٹی کی رہنما سینیٹر شیری رحمان نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے درمیان کوئی ابہام موجود نہیں اور ان کی قیادت مولانا فضل الرحمٰن سے بات کر کے انہیں مشترکہ حزبِ اختلاف کے ساتھ چلنے پر راضی کرے گی۔

ن لیگ کے سینیئر رہنما احسن اقبال نے منگل کے روز ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ 'دونوں جماعتوں کے درمیان اس بات پر اتفاق ہے کہ حکومت کا جانا ٹھہر چکا اور اس کے لیے جدوجہد مشترکہ حزبِ اختلاف کے پلیٹ فارم سے ہو گی۔'

ن لیگ کے سینیئر رہنما احسن اقبال نے منگل کے روز ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ‘دونوں جماعتوں کے درمیان اس بات پر اتفاق ہے کہ حکومت کا جانا ٹھہر چکا اور اس کے لیے جدوجہد مشترکہ حزبِ اختلاف کے پلیٹ فارم سے ہو گی۔’

‘اس حوالے سے ن لیگ کے اندر دو گروپ موجود ہیں’

مجیب الرحمٰن شامی کے مطابق ‘جو خبریں آ رہی ہیں ان کے مطابق اس حوالے سے ن لیگ کے اندر دو گروپ موجود ہیں ۔’

‘بعض بڑے جوش و خروش سے دھرنے میں شریک ہونا چاہتے ہیں اور بعض احتیاط کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن چاہتی ہے کہ وہ مولانا فضل الرحمٰن سے اس طرح معاملہ کریں کہ ان کی صفوں میں دراڑ بھی نہ پڑنے پائے اور یہ جلدی معاملہ محاذ آرائی تک بھی نہ آئے۔’

مجیب الرحمٰن شامی کے مطابق ‘یہ تنے ہوئے رسے پر چلنے والی بات ہے۔ اب اس میں کتنا ریلیف ن لیگ کو مل سکتا ہے اور ان کی قیادت کے لیے کتنی آسانی پیدا ہو سکتی ہے، میرا خیال ہے کہ یہ کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ تو بات چیت اس پر ضرور چل رہی ہو گی۔’

تاہم ان کے خیال میں آخری فیصلہ ن لیگ کے تاحیات قائد نواز شریف کے ہاتھ میں ہے۔ ‘وہ جو فیصلہ کرتے ہیں یا کریں گے وہ جماعت کے کسی مکاتبِ فکر کے لیے رد کرنا ممکن نہیں ہو گا۔’

ن لیگ کے سینیئر رہنما احسن اقبال نے منگل کے روز ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ‘دونوں جماعتوں کے درمیان اس بات پر اتفاق ہے کہ حکومت کا جانا ٹھہر چکا اور اس کے لیے جدوجہد مشترکہ حزبِ اختلاف کے پلیٹ فارم سے ہو گی۔’

‘دونوں جماعتوں کو یقین نہیں کہ وہ لوگ نکال پائیں گے’

تجزیہ نگار و صحافی فرح ضیا کے مطابق ‘مولانا فضل الرحمٰن کے پاس اسٹریٹ پاور یعنی لوگوں کو سڑکوں پر نکال لانے کی صلاحیت تو ہے مگر حزبِ اختلاف کی دونوں بڑی جماعتوں کو یقین نہیں ہے کہ اس وقت ان کے پاس یہ صلاحیت ہے اور وہ اتنی تعداد میں لوگوں کو نکال سکتے ہیں۔’

تاہم ان کا کہنا ہے کہ دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہو گی۔

مجیب الرحمٰن شامی سمجھتے ہیں کہ ‘مذہبی کارکنان جتنے ٹھوس ہوتے ہیں، سیاسی کارکن اس نوعیت کے نہیں ہوتے۔ اس لیے سیاسی جماعتوں کو ان کا ساتھ چاہیے ہوتا ہے۔

‘آپ دیکھ لیں کہ عمران خان صاحب نے جب دھرنا دیا تھا تو علامہ طاہر القادری نے ان کا ساتھ دیا تھا اور ان کے کارکنان وہاں ڈٹ کر بیٹھ گئے تھے۔’

ان کے خیال میں مولانا فضل کی جماعت اور عمران خان کے درمیان معاملہ سیاسی سے زیادہ ذاتی نوعیت کا بن چکا ہے۔

یہاں سوال یہ بھی ہے کہ اگر مولانا فضل الرحمٰن حکومت مخالف دھرنے میں ‘لوگوں کو مذہب کی بات کر کے باہر نکالتے ہیں تو کیا ن لیگ اور پیپلز پارٹی ان کے ساتھ کھڑے ہوں گے؟

‘معاملہ پھر مذہبی نوعیت کا نہیں ہو گا’

مجیب الرحمٰن شامی کے مطابق دھرنے کے دوران اگر مطالبہ یہ ہوتا ہے کہ نئے انتخابات کروائے جائیں اور حکومت استعفٰی دے تو یہ ایک سیاسی مطالبہ ہو گا۔

‘مذہبی حمایت حاصل ہو جائے، مطالبہ تاہم مذہبی نوعیت کا نہیں ہوگا۔ یعنی مطالبہ یہ نہیں ہو گا کہ ملک میں کوئی اسلامی نظام نافذ کیا جائے۔ مطالبات یا نکات سیاست ہی کے گرد گھومیں گے۔’

فرح ضیا اس حد تک اتفاق کرتی ہیں کہ اگر مولانا فضل الرحمٰن دونوں جماعتوں کو ساتھ ملانا چاہیں گے تو وہ مذہب کی بات نہیں کریں گے۔ ورنہ تو وہ جماعتیں ساتھ نہیں چلیں گی۔

‘لیکن اگر وہ اکیلے جانے کا فیصلہ کرتے ہیں تو پھر مذہب کی بات ضرور کریں گے، پھر انہیں کوئی نہیں روک سکتا۔’

‘ہنگامہ تو اٹھ کھڑا ہو گا’

تاہم سوال یہ ہے کہ اگر مولانا فضل الرحمٰن راضی ہو جاتے ہیں تو کیا ہو گا؟ کیا سیاسی جماعتیں ان کے ساتھ اسلام آباد دھرنے کے لیے جائیں گی؟

ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے منگل کے روز سینیٹر شیری رحمٰن اور ن لیگ کے رہنما احسن اقبال کا کہنا تھا کہ اس صورت میں اگر بات نئے انتخابات تک پہنچتی ہے تو ان کی جماعتیں تیار ہیں۔

مجیب الرحمٰن شامی کا کہنا تھا کہ ‘اگر یہ ساری جماعتیں مل جائیں تو ہنگامہ تو اٹھ کھڑا ہو گا۔ لیکن اس کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ اگر آپ لوگ اکٹھے کر لیں اور حکموت کو مجبور کر لیں کہ وہ گھٹنے ٹیک دے، تو یہ بھی کوئی آسان بات نہیں ہے۔’

ان کا کہنا تھا کہ ‘عام طور پر پاکستان میں جب بھی کسی تحریک کے نتیجے میں تبدیلی آئی ہے تو فوج ہی نے کوئی اقدام کیا ہے تو تبدیلی سرے چڑھ سکی ہے۔ اس لیے معاملہ اب ایسا نہیں ہو گا کہ یہ باہر نکلیں اور حکومت بھاگ جائے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32508 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp