پاکستان میں خواتین ہراسانی کے خلاف آواز کیسے بلند کرسکتی ہیں؟


پاکستان

پاکستانی گلوکارہ اور ماڈل میشا شفیع نے ساتھی گلوکار علی ظفر پر جنسی ہراسانی کے الزامات عائد کیے ہیں

پاکستان میں گذشتہ ہفتے سوشل میڈیا پر چند ویڈیوز وائرل ہوئیں، جن میں دو بنیادی باتیں مشترک تھیں۔ ایک یہ کہ یہ تمام ویڈیوز خواتین نے بنائی تھیں۔ دوسرا یہ کہ ان میں مرد یا نوجوان لڑکے خواتین کو ہراساں کر رہے تھے۔

سوشل میڈیا صارف زمل (فرضی نام) نے گذشتہ ہفتے اس وقت ویڈیو بنائی جب ان کے کالج کے باہر ایک نوجوان لڑکے نے خود کو نازیبا انداز میں چھونا شروع کیا۔ اپنا تجربہ بتاتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ ‘یہاں پیدل چلنے والوں کے لیے ایک پل بنا ہے، جہاں اب مجھے پتا چلا کہ کچھ لوگ نشہ بھی کرتے ہیں۔

میں عام سے کپڑوں میں تھی، سر پر دوپٹہ اوڑھے ہوئے تھی۔ مجھے شک ہو گیا تھا کہ یہ ‘لڑکا’ کچھ غلط کر رہا ہے لیکن تب تک میں بہت قریب آ چکی تھی اور میں جلد از جلد یہاں سے گزر جانا چاہتی تھی۔’

یہ بھی پڑھیے

آؤ تمھیں ہراساں کروں!

MosqueMeToo#: ’مقدس مقامات پر بھی ’جنسی ہراسانی‘

’ہراسانی کا شکار مرد ہوں یا خواتین، خاموش رہنا حل نہیں’

وہ کہتی ہیں کہ انھیں اندازہ نہیں تھا کہ یہ شخص ان کے سامنے آ جائے گا، ‘اس نے اپنا ٹراؤزرز نیچے کیا تھا، اور وہ مجھ سے محض ایک قدم کے فاصلے پر تھا، میں بہت ڈر گئی تھی، لیکن دو، تین سیکنڈز بعد میں نے اپنا بیگ کھولا’۔ زویا کے مطابق انھوں نے فوری طور پر اپنا موبائل فون نکالا تاکہ وہ اس شخص کا چہرہ کیمرے میں محفوظ کر سکیں۔

‘جب میں کیمرہ آن کرنے لگی تو وہ سمجھ گیا اور پھر تھوڑا پیچھے ہو گیا۔’ وہ کہتی ہیں ‘اس وقت مجھے بہت غصہ آیا اور میں نے کہا ‘کرو، کرو’، لوگ اس بات کا مذاق اڑا رہے ہیں، لیکن میں اس وقت خود سے کانپ رہی تھی، مجھے اس وقت نہیں پتا تھا کہ میں نے کیا کہنا ہے، یا کیا الفاظ استعمال کرنے چاہیں، جو مجھے سمجھ آیا میں نے کہہ دیا’۔

ماضی میں بھی ایسی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں اور ان پر متعلقہ تھانے کی پولیس نے نوٹس بھی لیے۔ اسی دوران ایک اور فیس بک صارف نے کریم سروس کے ایک ڈرائیور کی ویڈیو شیئر کی اور ساتھ بتایا کہ وہ اپنے بیٹے اور ملازمہ کے ساتھ گاڑی میں سوار گھر کی جانب جا رہی تھیں، جب ڈرائیور نے ان کی ملازمہ کو ان سے متعلق کہا کہ ‘باجی بہت گرم ہیں’۔

وہ لکھتی ہیں کہ ان کے لیے یہ الفاظ ناقابل برداشت تھے کہ کیا کوئی خاتون ‘گرم ہونے کے علاوہ ماں، بہن اور بیٹی نہیں ہو سکتی؟’ اس ویڈیو میں آواز نہیں تاہم دیکھا جا سکتا ہے کہ گاڑی کا ڈرائیور معذرت کی کوشش بھی کرتا ہے۔

جویریا (فرضی نام) نے لکھا کہ اس کے باوجود کہ وہ ایک شادی شدہ عورت ہیں اور اپنے بچوں کے ہمراہ تھی، ایک مرد نے انہیں ہراساں کرنے کی کوشش کی۔

میں ذاتی طور پر بہت سی ایسی خواتین کو جانتی ہوں جنھیں کئی بار بچپن سے بازاروں میں، بسوں پر، ٹیکسیوں میں، شاپنگ مالز پر، عبادت گاہوں میں ہراسیت کا سامنا کرنا پڑا۔

کچھ عرصہ پہلے تک یہ ایک قابل قبول سماجی رویہ بن چکا تھا یا کم از کم خواتین سمجھتی تھیں کہ اس مسئلے کا کوئی حل نہیں۔

سماجی کارکن اور ڈپریشن اور ذہنی امراض سے متعلق کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم دی کلر بلیو کی سربراہ دانیکا کمال کہتی ہیں کہ خواتین سے ایسے موقعوں پر ہمیشہ ثبوت مانگے جاتے ہیں۔

‘بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں خواتین کی بات پر یقین نہیں کیا جاتا، ان سے ہراسیت کے بھی ثبوت مانگے جاتے ہیں، ہمارے قوانین میں ایک مرد کی گواہی کے برابر دو عورتوں کی گواہی ہے تو ایسے میں یقینی طور پر ہمارے ہاتھ میں پکڑے فونز کے کیمرے بہت اہم ہیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ یہ ان خواتین کی بہادری اور حاضر دماغی ہے جو بروقت کیمرہ استعمال کرتی ہیں، اور سڑک پر، پبلک مقامات پر ہراساں کرنے والوں کو بے نقاب کر رہی ہیں’۔

جب کالج کی طالبہ کو پُل پر چلتے نوجوان نے ہراساں کرنے کوشش کی تو اس ویڈیو پر بھی زیادہ تر کمنٹس اس قسم کے تھے کہ آپ نے اس لڑکے کی پرائیویسی کی خلاف ورزی کی، اس کی اجازت کے بغیر ویڈیو بنائی۔ کسی نے کہا کہ ایسے افراد کی ویڈیو بنانے کی بجائے انھیں سدھارنے کی کوشش کی جائے اور انھیں سمجھایا جائے۔

اس سوال پر کہ سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز وائرل ہونے کے بعد بھی اکثریت خواتین کو ہی مورد الزام ٹھہراتی ہے، اس رویے کے خلاف کیسے لڑا جا سکتا ہے،

دانیکا کہتی ہیں ‘یہ سب غلط ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں یہ رویے ہمیشہ سے قابل قبول رہے ہیں۔ لیکن میں سمجھتی ہوں کہ یہ خواتین منظر عام پر آ کر بہادری اور ہمت کا مظاہرہ کرتی ہیں، انھیں ایک تنگ نظر معاشرے کا حصہ ہونے کی وجہ سے اس قسم کی منفی باتوں کے لیے ذہنی طور پر تیار رہنا چاہییے کیونکہ معاشرے کی مجموعی سوچ تبدیل ہونے میں ابھی خاصا وقت لگے گا’۔

پنجاب پولیس کے ترجمان نایاب حیدر کہتے ہیں کہ پولیس نے ایسی ویڈیوز پر ایکشن لیا ہے، اور سوشل میڈیا پر ایسے واقعات منظر عام پرآنے کے بعد ایسے افراد کو گرفتار کیا جاتا ہے، ‘ہمارے پاس سوشل میڈیا کی مانیٹرنگ کی جاتی ہے اور ہم ہراسیت کے خلاف آگہی مہم بھی چلاتے رہتے ہیں۔

یہ ویڈیوز سوشل میڈیا پر نہ ڈالنا چاہیں تو پنجاب پولیس کی مختلف ہیلپ لائینز بھی موجود ہیں جہاں رابطہ کر کے شکایت درج کرائی جا سکتی ہے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32498 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp