نمرتا کے خواب


رات کا جانے کون سا پہر تھا۔ نیند نمرتا کی پلکوں تلے آکر پھر سے اپنا راستہ بدل لیتی تھی۔ مسکان تھی کہ اس کے چہرے سے ایک لمحے کو جدا نہ ہوتی تھی۔ چھوٹے سے کمرے میں ڈھیر سارے ستارے اُتر آئے تھے۔ اب بھلا ستاروں کے ہوتے ہوئے آنکھیں بند ہو سکتی ہیں۔ کمرے میں بہت سے خواب بھی ان ستاروں کے ساتھ ہی خاموش کھڑے تھے۔ یہ کچی عمر کے شوخ رنگوں سے بھرے خواب تھے۔ یہ نمرتا کے خواب تھے۔ جنہیں ایک اجنبی نے خوشبوؤں بھرے چند لمحوں کے بدلے خرید لیا تھا۔

مڈیکل کالج کے ہاسٹل کا وہ کمرہ جو پہلے نمرتا کی کتابوں کے بوجھ سے بھرا رہتا تھا۔ اب کچھ خوفزدہ رہنے لگا تھا۔ ہاسٹل کے درودیوار آنے والے طوفان کی آہٹ سن کر سانس لینا بھول گئے تھے۔ کتنے حسین دن تھے وہ جب نمرتا نے مڈیکل کالج میں قدم رکھا تھا۔ دھیمی مسکان والی اس اپسرا نے لمحوں میں اپنے گرد ایک ہجوم اکٹھا کر لیا تھا۔ وہ اجنبی بھی اسی ہجوم کا حصہ تھا جو نمرتا کے اس کانچ جیسے وجود کو چھونے کا متمنی تھا۔

نمرتا کے خواب بہت اونچے تھے۔ اسے ڈاکٹر بننا تھا۔ اپنے لوگوں کے لئے بہت کچھ کرنا تھا۔ اس نے کتابوں سے دوستی کر لی مگر کوئی کتابوں کے اندر سے جھانکتا اسے کچھ حسین خواب دکھانے کی راہ پر گامزن تھا۔ اُس نے پہلے مزاحمت کی۔ اسے ان راستوں کی طرف نہیں جانا تھا۔ یہ راستے اس کے لئے نہیں بنے تھے۔ مگر اجنبی نے تو جیسے قسم کھائی ہوئی تھی کہ اسے انہی راستوں کا مسافر بنا ڈالے گا۔ وہ راستے جو کسی سراب کی مانند بہت دلکش مناظر دکھاتے تھے مگر قریب جانے پر پتا چلتا تھا کہ وہاں تو گہری کھائیاں ہیں۔

جو ایک بار ان کا مسافر بن جاے وہ پھر لوٹ کر نہیں آتا۔ نمرتا اکثر اجنبی کی باتوں پر ہنس پڑتی تھی۔ کتابوں کے ساتھ ساتھ اس نے اب اس اجنبی کے ساتھ بھی دوستی کر لی مگر اس دوستی میں نمرتانے ہمیشہ ایک فاصلہ رکھا۔ اجنبی کو یہ فاصلہ کب گوارا تھا۔ اس نے بہت بار کوشش کی کہ اس فاصلے کو کہیں دور جا کر پھینک آئے مگر نمرتا کو یہ فاصلے بہت عزیز تھے۔ اجنبی نے کچھ عرصہ تو اس بات کو برداشت کیا مگر پھر ایک روز وہ اجنبی اپنے اصلی چہرے کے ساتھ نمرتا سے ملنے چلا آیا۔

نمرتا اپنے اس دوست کو رات کے اس پہر دیکھ کر کچھ پریشان ہو گئی۔ جو شخص اس کے کمرے میں چوری چھپے دیوار پھلانگ کر آیا تھا وہ اس کا دوست تو ہرگز نہیں تھا۔ اس کے ساتھ کچھ اور بھیانک سائے بھی اس نے دیکھے۔ وہ چیخنا چاہتی تھی۔ وہ اپنے خوابوں کی بربادی پر ڈھیر سارا رونا چاہتی تھی۔ مگر اجنبی نے اس کو یہ موقع ہی کب دیا تھا۔ وہ تو اس کے وجود کو ناپاک کرنے کے ارادے سے آیا تھا۔ نمرتا کی دردبھری چیخیں سن کر اجنبی نے اس کے کانچ جیسے وجود کو لمحوں میں ریزہ ریزہ کر ڈالا۔

اس نے آنکھیں بند کرنے سے پہلے آخری نظر اپنے اس صیاد کی طرف ڈالی جو اس کے نیم مردہ وجود کو نجانے کس طریقے سے پنکھے کے نیچے لا رہا تھا۔ وہ شاید خودکشی کا رنگ دینا چاہتا تھا۔ نمرتاکی آنکھیں مکمل طور پر بند ہو چکی تھیں۔ اجنبی اور اس کے ساتھ دیگر بھیانک چہرے وہ کمرہ چھوڑ چکے تھے۔ تھوڑی ہی دیر میں پولیس اور ایمبولینس نے ہاسٹل کو گھیرے میں لے لیا۔ نمرتا کے مردہ وجود کو لے کر نجانے کتنی ہی کہانیاں ہر طرف پھیل گئیں۔ اس کے مردہ وجود کے ساتھ ہی اس کے خواب بھی بکھرے پڑے تھے اور ان خوابوں کے راکھ کو سمیٹنے والے وجود ان بھیانک چہروں کی تلاش میں ہیں جنہوں نے اس اپسرا کے خوشبووں بھرے وجود کو راکھ بناڈالا تھا۔ وہ اجنبی تو اپنے انجام کو پہنچ ہی

جاے گا مگر نمرتا اور اس جیسی معصوم اپسراؤں کے خواب اب دوبارہ کبھی ستاروں کو چھونے کی تمنا نہیں کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).