چونیاں میں بچوں کے قتل: مفروضے اور حقائق


پنجاب

اصل مجرم تک پہنچنے کے لیے پولیس کو طویل اور صبر طلب تحقیقات کرنی پڑی

پاکستان کے ضلع قصور کی تحصیل چونیاں میں فیضان سمیت 4 بچوں کو زیادتی کے بعد قتل کردیا گیا۔ ملزم سہیل شہزادہ کی گرفتاری کے بعد بہت سے مفروضے گردش کر رہے ہیں۔ ان مفروضوں سے جوڑے چند ایسے ہی سوالوں کے جواب بی بی سی نے تلاش کرنے کی کوشش کی۔

1- ملزم کا نام کیا ہے؟
2- ملزم کا پیشہ کیا تھا؟
3- تحقیقات کے اعداد و شمار کیا ہیں؟
4- گرفتار کہاں سے کیا گیا؟
5- کیا ملزم کی بچوں کے ساتھ جان پہچان تھی؟

ان سوالات کے جوابات کے لیے ہم نے اہل علاقہ، مختلف بیانات، شواہد اور پولیس کے افسران سے گفتگو کی۔ ان جوابات کی روشنی میں جو تصویر سامنے آتی ہے وہ کچھ اس طرح ہے۔

1- ملزم کا نام کیا ہے؟

جون 2019 سے لے کر ستمبر 2019 کے درمیان چویناں میں چار بچے جن میں محمد عمران، فیضان، علی حسنین اور سلمان اکرم شامل ہیں، انہیں تین مہینے کے دورانیے میں چونیاں سے اغوا کیا گیا۔ جس کے بعد ان کے ساتھ زیادتی کرکے انہیں قتل کر دیا گیا۔ فیضان کے قتل کے بعد چونیاں کے رہائشیوں نے شدید احتجاج کیا جس کے بعد پولیس نے ملزم کی تلاش شروع کر دی۔

بچوں سے زیادتی کے خلاف مظاہرہ

یکم اکتوبر 2019 کو وزیر اعلی پنجاب نے پریس کانفرس میں اعلان کیا کہ ’ہم نے چونیاں واقعے کے ملزم سہیل شہزاد نامی 27 سالہ شخص کو گرفتار کر لیا ہے۔‘

جبکہ شناختی کارڈ کے ریکارڈ کے مطابق ملزم کا نام سہیل شہزاد نہیں بلکہ سہیل شہزادہ ہے۔

2- ملزم کا پیشہ کیا تھا؟

ملزم سہیل شہزادہ کے پیشے کے حوالے سے بھی مختلف تفصیلات سامنے آئیں جن سے یہ واضح نہیں ہو پایا کہ آخر سہیل کرتا کیا تھا۔ آئی جی پنجاب عارف نواز نے بتایا ’کہ ملزم تندور پر کام کرتا تھا۔‘

تاہم اہل علاقہ اور دیگر پولیس حکام کے مطابق سہیل شہزادہ چونیاں میں رکشہ چلاتا تھا جو اس نے شکیل نامی شخص سے 300 روپے روزانہ کے کرایے پر لیا تھا۔ اس کے علاہ سہیل شہزادہ مزدوری بھی کرتا تھا جیسا کہ گندم کی صفائی چھٹائی اور سامان اٹھانا (جیسا کہ دکانوں پر سامان کی بوریاں اٹھاتا تھا)۔

کانسٹیبل حاکم( جسے سہیل کا سراغ ملا) نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ملزم وارداتیں کرنے کے بعد چونیاں سے لاہور منتقل ہوگیا جہاں وہ ہائیکورٹ کے پاس کسی تندور پر روٹیاں لگاتا تھا‘ تاہم ملزم کا چونیاں اور لاہور میں آنا جانا رہتا تھا۔

3- تحقیقات کے اعداد و شمار کیا ہیں؟

وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے آئی جی پنجاب کے ہمراہ کی جانے والی پریس کانفرس میں کیس کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے بتایا کہ ’اس کیس کے لیے ہم نے 1543 لوگوں کا ڈی این ٹیسٹ کیا جبکہ 1649 افراد کی جیو فینسنگ کی گئی‘۔

جبکہ آر پی او شیخوپورہ سہیل تاجیک کے مطابق انہوں نے مردم شماری کے محکمے سے چونیاں کے 57 بلاکس کا ڈیٹا لیا جو کہ 60 ہزار کی آبادی کا ڈیٹا تھا۔ 57 بلاکس میں سے 25 بلاکس کو چیک کیا گیا۔ جس میں غوثیہ کالونی، رانا ٹاون اور دیر علاقے شامل تھے۔

پنجاب

فیضان کی والدہ نے پولیس اور اعلی حکام سے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر پولیس پہلے اپنا کام درست انداز میں کرتی تو ان کے بچے کو بچا سکتی تھی

جبکہ 26 ہزار لوگوں کا سروے کیا گیا اور 4500 گھروں کو چیک کیا۔ آرپی او سہیل تاجیک نے یہ بھی بتایا کہ زیادہ تر شامل تفتیش افراد کی عمر 18 سے 40 سال کے مردوں کی تھی جن کی تعداد 3500 ہے۔

تاہم 1700 سے زائد افراد کے ڈی این اے کے نمونے لیے گئے جس میں سے 1649نمونوں کی جانچ مکمل کی گئی۔

ان میں سے ملزم سہیل شہزادہ کا 1471واں نمبر تھا جس پر ڈی این اے کا نمونہ میچ ہوا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اس کیس میں ڈی این اے چیکنگ پر ہی صرف 24 کڑور کا خرچہ آیا ہے جبکہ دیر اخراجات الگ ہیں۔

4- ملزم کو گرفتار کہاں سے کیا گیا؟

ملزم سہیل شہزادہ کی گرفتاری کے بعد کچھ ایسی خبریں بھی سامنے آئیں کہ ملزم کو جنوبی پنجاب کے شہر رحیم یار خان سے گرفتار کیا گیا۔

تاہم پولیس حکام کے مطابق ملزم کی شناخت کے بعد اسے چونیاں کے علاقے رانا ٹاؤن میں ملزم کے گھر سے گرفتار کیا گیا۔

5- کیا ملزم کی بچوں کے ساتھ جان پہچان تھی؟

چونیاں واقعے کے ملزم سہیل شہزادہ کے گرفتار ہونے کے بعد ایسی خبریں بھی سامنے آئیں کہ ملزم کی قتل ہونے والے بچوں سے جان پہچان تھی اور وہ ان کا محلےدار تھا۔ لیکن حقائق کی تحقیق کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ جان پہچان ہونے کی خبریں غلط ہیں۔

ملزم سہیل شہزادہ چونیاں میں رانا ٹاون کا رہائشی تھا۔ یہ جگہ جائے وقوعہ سے پانچ کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ محمد عمران نامی بچہ جسے ملزم سہیل نے زیادتی کے بعد قتل کیا وہ بھی رانا ٹاؤن کا ہی رہائشی تھا۔

محمد عمران کے والد نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ شخص ہماری گلی سے دو گلیاں چھوڑ کر رہتا تھا اور ہماری اس سے کسی قسم کی کوئی جان پہچان نہیں تھی۔‘

جائے وقوعہ سے ساڑھے تین کلو میڑ کے فاصلے پر واقعہ غوثیہ کالونی سے اغوا کیے جانے والے بچوں کے والدین کا کہنا ہے کہ ہم اس شخص کو نہیں جاتے۔ آر پی او سہیل تاجیک نے بتایا کہ ’ملزم نے اعتراف کیا ہے کہ اس کی بچوں سے کوئی جان پہچان نہیں تھی۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp