عذاب سے ڈرتے ہو یا سوال سے ڈرتے ہو؟


\"hashir\"

یہی مہینہ تھا پر گیارہ سال پرے۔ جگہ تھی پاکستان ٹیلی ویژن کا میک اپ روم۔ ایک کرسی پر میں تھا اور دوسری کرسی پر ایک مشہور مذہبی رہنما۔ نام میں کیا رکھا ہے۔ رہنما اور رہزن کو جس نام سے پکارو، لٹنا تو راہگیر نے ہی ہوتا ہے۔ اس لیے ان کے نام کی بات نہیں کرتے۔ پروگرام شروع ہونے میں کچھ دیر تھی جس میں مجھے میزبانی کرنی تھی اور اعلی حضرت مہمان تھے۔ 8 تاریخ کو گزرے چند دن ہوئے تھے۔ ہر طرف تباہی اور بربادی کی داستانیں تھیں۔ زلزلہ گزر گیا تھا پر ملبہ ہٹانے میں ابھی برسوں لگنے تھے۔ بچوں کے چہروں سے دہشت مٹی نہیں تھی۔ ماؤں کی آنکھوں میں ویرانی کے ڈیرے تھے۔ جو کچھ روز پہلے سہاگنیں تھیں اب ان کی کلائیاں سونی پڑی تھیں۔ لوگ ابھی بھی ڈھیر ہوئی عمارتوں کو ایک مرتی ہوئی آس کے سہارے کریدتے تھے۔ ہسپتالوں کے کمروں اور برآمدوں میں، ننگے فرشوں پر موت روز ناچتی تھی اور ہم، ہم اسٹوڈیو میں بیٹھ کر قیامت پر دانشوران امت کی ماہرانہ رائے سنتے تھے۔ تو وہ بھی ایسا ہی ایک دن تھا۔

آنکھوں کے نیچے پفنگ کراتے رہنمائے ملت نے ذرا سی گردن میری طرف گھمائی اور سرگوشی میں بولے۔

”پروگرام میں تو کہنا مشکل ہو جائے گا پر آپ کو بتاؤں یہ زلزلہ کیوں آیا تھا“

میں نے سائنس کی کتاب کے سبق یاد کرنے کی کوشش کی۔ کچھ ٹیکٹانک پلیٹیں اور زیر زمین حرکت اور ٹکراؤ ، آتش فشانی تغیرات وغیرہ ذہن میں آئے پر سمجھ نہ آیا کہ ایسی کون سی وجہ ہے ان میں سے جو پروگرام میں نہیں بتائی جا سکتی۔ اس لیے ”جی“ کہنے پر اکتفا کیا۔

”ایک ہفتہ پہلے پشاور میں دو مردوں نے باقاعدہ نکاح کیا“ حضرت گویا ہوئے ”باقاعدہ نکاح۔ قوم لوط کے ان پیروکاروں کوکوئی شرم نہ آئی۔ سوچیں ذرا۔ مجھے تو جس دن یہ پتہ لگا اسی دن میں نے سب کو خبردار کیا کہ عذاب الہی اب آیا ہی آیا“۔

ابھی میں اپنا کھلا منہ بند نہ کر پایا تھا کہ میک اپ مین نے انتہائی تیقن سے نہ صرف اس خبر کی تصدیق کی بلکہ ان دو بدبختوں کے نام بھی بتا ڈالے۔ اس کے بعد کمرے میں موجود کوئی نصف درجن لوگوں نے ” اللہ توبہ“ اور ”اللہ کی پناہ“ کا ورد شروع کر دیا۔

تھوڑے دن اور گزرے تو ایک مشہور کالم نگار پروگرام میں تشریف لائے۔ حق گوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہوں نے اپنی رائے کا اظہار سر کیمرہ کیا جس کا خلاصہ کچھ یوں تھا کہ مغرب کی اندھا دھند نقالی، فحاشی اور عریانی کے سیل رواں اور دین سے دوری کی وجہ سے ہم پر یہ زلزلے کا عذاب نازل ہوا ہے اور اگر ہم نے اب بھی اپنی اصلاح نہ کی تو ایسے اور عذاب ہم پر ٹوٹیں گے۔ اپنی رائے میں وزن پیدا کرنے کے لیے انہوں نے لاہور بیدیاں روڈ پرموجود ایک فارم ہاؤس کی تقریب کی کچھ تصاویر بھی وقفے میں نکالیں جنہیں کیمرہ مین سمیت تمام عملے نے کانوں کو ہاتھ لگا لگا کر اور آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر بار بار دیکھا۔

ایک مشہور جامعہ کے سربراہ سے انہی دنوں ملاقات ہوئی کیونکہ زلزلے کی تباہ کاری کے بعد کچھ دوست جامعات میں ایک مہم چلا رہے تھے کہ پیسہ اکٹھا کر کے کچھ تعمیراتی کاموں کا نجی سطح پر آغاز کیا جا سکے۔ اس سلسلے میں ان کی اجازت درکار تھی۔ اس ملاقات میں انہوں نے ایک ماہ پرانا اخبار ہماری نذر کیا جس میں کراچی میں ہونے والے فیشن ویک کی کچھ تصاویر تھیں۔ استادوں کے استاد نے پھر اپنا فلسفہ گوش گزار کیا جس کی رو سے اسلام کے نام پر حاصل کی گئی مملکت میں ایسی حرکتوں کی وجہ سے ہمیں 8 اکتوبر کا دن دیکھنا پڑا۔ بات سنی اور چپ کر کے وہاں سے اٹھ آئے۔

اس کے بعد ایسی باتیں سننے کی عادت سی ہوگئی۔ ارباب غلام رحیم نے کراچی کے طوفان کا ذمہ دار بل بورڈز پر لگی اشتعال انگیز تصاویر کو ٹہرایا۔ یوسف رضا گیلانی کی بے بسی دیدنی تھی جب سیلاب کو قہر خداوندی قرار دے کر انہوں نے اپنا دامن چھڑا لیا۔ میاں صاحب نے تاسف سے قوم کو بتایا کہ اللہ کے کاموں میں کس کا دخل ہے۔ ایک ہمارے غزوہ ہند گیریژن کے چوکیدار ہیں اور ایک منصفی کے واحد علمبردار، دونوں برسوں سے اس قوم کو بتا رہے ہیں کہ زلزلہ ہو یا سیلاب ، طوفان ہو یا قحط، گیسٹرو پھیل جائے یا پشتے ٹوٹ جائیں۔ بم دھماکے ہوں یا بے نام قتل ، سب ہمارے گناہوں کی سزا ہے اور سب کا علاج قذافی اسٹیڈیم میں اجتماعی توبہ ہے، ملالہ سے برات ہے،شرمین کی مذمت ہے، سود سے پرہیز ہے، عورتوں کا پردہ ہے، فلموں کی نس بندی ہے، ٹی وی، ڈش اور کیبل کی جراحی ہے اور ان کے اپنے لکھے ذاتی لفظ کو ویسا ہی ماننا ہے جیسا کہ وہ آسمانی صحیفہ ہو۔

مجھے مرجان یاد آتی ہے۔ مرجان باغ کی رہائشی تھی۔ سات سال کی بچی جسے میں نے اسلام آباد کے ایک مشہور سرکاری اسپتال میں دیکھا تھا۔ 8 اکتوبر کو زلزلے نے اس کے چھ بہن بھائی، ماں باپ اور دونوں ٹانگیں چھین لی تھیں۔ مرجان کو گناہ اور ثواب کے فلسفے کا کوئی علم نہیں تھا۔ اسے توبہ کا مطلب بھی نہیں آتا تھا۔ دین اور مذہب میں کیا فرق ہے ، تقدیر مبرم کیا ہے، اخلاقی قدریں کیا ہوتی ہیں، خدا عرش بریں پر ہے کہ شہہ رگ کے قریب۔ لوگوں کی قسمت ان کی گردن سے بندھی ہے کہ لوح محفوظ پر لکھ دی گئی ہے اسے ان سب باتوں سے کوئی مطلب نہیں تھا۔ وہ تو بس باپ کے کندھے پر پھر سے چڑھنا چاہتی تھی، ماں کی گود میں سر رکھنا چاہتی تھی۔ بھائی سے لڑنا چاہتی تھی، بہنوں کے سنگ ہنسنا چاہتی تھی، کھلے میدان میں تتلیوں کے پیچھے بھاگنا چاہتی تھی پر ان میں سے کچھ اب ممکن نہیں تھا۔ یا شاید وہ صرف یہ چاہتی تھی کہ اس کے درد کی شدت ہی کم ہو جائے۔ وہ اس جگہ خالی چادر کو چھوتی تھی جہاں کبھی اس کے جسم کا ایک حصہ تھا اور آنسو اس کی آنکھوں کے کناروں سے پھوٹتے تھے۔ خاموش مرجان نے کبھی مجھ سے کچھ نہیں پوچھا۔ کسی سے بھی نہیں پوچھا۔ وہ اتنی چھوٹی، اتنی معصوم، اتنی لاعلم تھی کہ سوال نہیں تراش سکتی تھی پر مجھے یقین ہے کہ اگر وہ پوچھ سکتی تو زمینی خداؤں اور آسمان کے قادر مطلق سے ضرور بہت سے سوال پوچھتی۔

وہ پوچھتی کہ عذاب کی کونسی تعریف تھی جس کے مطابق اس پر قیامت ٹوٹی تھی۔ آزمائش کا وہ کون سا پیمانہ تھا جس نے اس کی زندگی کا ہر رنگ اس سے چھین لیا تھا۔ پشاور کے ہم جنس پرست کیوں زندہ ہیں اور اسکے سر پر فگن درخت کیوں کٹ گیا ہے۔ بیدیاں لاہور میں ابھی بھی لوگ کیوں محو رقص ہیں اور وہ کیوں اب کبھی کھڑی بھی نہیں ہو سکتی۔ کراچی کے فیشن ویک کی روشنیاں ابھی بھی چمکتی ہیں پر اس کے گھر کے ملبے تلےایک عمر کی راتیں اب کیوں مدفون ہیں۔

وہ پوچھتی کہ عذاب کچے گھروں پر پہلے کیوں اترتے ہیں۔ سیلاب کی باڑھ مزارع کے مویشی ہی کیوں بہا لے جاتی ہے۔ طوفان سے غریب کے گھر کی چھت ہی کیوں اڑتی ہے۔ قحط مفلس کے بچوں کی بھینٹ ہی کیوں لیتا ہے۔ لاس ویگاس، مانٹی کارلو اور مناکو کے جوا خانے اور قحبہ خانے کبھی زمین میں کیوں نہیں دھنستے۔ قحط یورپ میں کیوں نہیں آتا۔ سیلاب سے ایمسٹرڈم اور پیرس تباہ کیوں نہیں ہوتے۔ پاکستان میں ریکٹر سکیل پر 7.8 کے زلزلے سے 75000 لوگ مر جاتے ہیں پر جاپان میں 7.8 کے 2015 کے زلزلے میں ایک بھی شخص نہیں مرتا۔ یہ کیسا مبینہ عذاب ہے جو کہ اچھی انجینیرنگ اور منصوبہ بندی سے ٹل جاتا ہے۔ اگر زمین پر زلزلے گناہوں کی زیادتی سے آتے ہیں تو مشتری اور مریخ پر کون سے گناہوں کا بوجھ ہے جو زمین سے زیادہ ہولناک زلزلے وہاں آتے رہتے ہیں۔

وہ پوچھتی کہ مرنے والے تو چلے گئے پر یہ گناہوں کی سزا کا فتوی جاری کرنے والے بچ جانے والوں کو نفسیاتی مریض کیوں بنانے پر تل جاتے ہیں۔ یہ روز قیامت کی نشانیاں دکھانے والے، توبہ کے درس دینے والے، دین سے دوری کی سندیں جاری کرنے والے اپنے حکمرانوں کے گریبانوں پر ہاتھ ڈالنے سے کیوں کتراتے ہیں۔ اپنی کجی اور کوتاہی کا بوجھ خدا کے سر ڈال کر ہاتھ جھاڑنے والے یہ دانشور تو جو ہیں سو ہیں پر ان کے پیچھے چلنے والے کیا اتنے ہی بڑے مجرم نہیں ہیں۔

مرجان پوچھتی پر اس مشہور ہسپتال کے اسی بستر پر آپریشن کے بعد کی پیچیدگیوں،دوائیوں کی کمی، ماحول کی آلودگی اور کچھ طبی عملے کی لاپرواہی سے اس کے زخم خراب ہونے شروع ہوئے۔ انفیکشن بڑھتا گیا۔ کچھ نے کہا کہ اس کو زایدالمعیاد انجکشن لگا دیے گئے۔ پھر سنا کہ آپریشن تھیٹر کے آلات مکمل طور پر جراثیم سے پاک نہیں تھے۔ ایک تیماردار نے مجھے انتہائی نگہداشت کے کمرے میں کاکروج اور چوہے دکھائے۔ بستر کی چادریں کئی کئی دن نہ بدلی جاتیں۔ مرجان آپریشن کے بعد دو ماہ سسکتی زندگی جیتی رہی اور پھر ایک دن مر گئی۔ چھوٹی سی لاش کفن میں لپٹی ہسپتال کے بستر پر پڑی تھی۔ اس کے ساتھ موجود تیماردار روتے ہوئے میرے گلے لگا اور کہا

”چلی گئی مرجان۔۔۔۔ اللہ کے کاموں میں کس کا دخل۔ جو اس کی مرضی“

نہیں، میرا نہیں خیال کہ مرجان کسی سے کچھ بھی پوچھتی۔۔۔۔۔۔۔

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments