منو گاندھی: مہاتما گاندھی کے مشکل ایام کو قلمبند کرنے والی لڑکی
30 جنوری 1948 کی شام مہاتما گاندھی ایک مالدار انڈین تاجر کے گھر کی عمارت سے جہاں وہ رہائش پذیر تھے، سے احاطے میں بنے چبوترے کی جانب چل پڑے تاکہ عبادت میں شرکت کر سکیں۔
ان کی نواسیاں منو اور آبھا، حسب معمول ان کے ہمراہ تھیں۔
جیسے ہی 78 برس کے رہنما چبوترے پر چڑھے تو خاکی کپڑوں میں ملبوس ایک شخص مجمعے میں سے آگے بڑھا، منو کو ایک طرف دھکا دیا، پستول نکالا اور اس نحیف رہنما کے سینے اور پیٹ میں تین گالیاں پیوست کر دیں۔
گاندھی گر پڑے، ایک ہندو دیوتا کا نام لیا اور اس عورت کی بانہوں میں دم توڑ دیا جو ان کی ہمراز، دیکھ بھال کرنے والی اور ان کے آخری مشکل برسوں کی وقائع نگار تھیں۔
یہ بھی پڑھیے
ایک لاپروا نوجوان سے ’مہاتما گاندھی‘ تک کا سفر
جناح نہ اکیلے، نہ گاندھی کے ساتھ
ہمارا بابا جیت گیا، گاندھی ہار گیا!
مئی 1947 میں یعنی تقریباً آٹھ ماہ پہلے، گاندھی نے منو سے یہ دل دھلا دینے والی فرمائش کی تھی کہ جب ان کو موت آئے تو منو ان کے پاس موجود ہوں۔
14 برس کی عمر ہی میں منو برصغیر کی تحریک آزادی کی سب سے کم سن قیدی بنیں۔ وہ گاندھی کے پاس چلی گئیں جو انگریز حکمرانی کے خاتمے کا مطالبہ کرنے کی پاداش میں جیل میں تھے۔ وہاں انھوں نے سنہ 1943 سے 1944 تک تقریباً ایک سال گزارا۔
انھوں نے ڈائری بھی لکھنا شروع کر دی۔
اگلے چار برسوں میں یہ کم سن قیدی گاندھی کی زندگی کے اہم واقعات کو قلمبند کرنے والی لکھاری بن چکی تھیں۔
منو گاندھی کی یاداشتوں کے بارہ نسخے انڈیا کی تاریخی دستاویزات میں محفوظ ہیں۔ لیکروں والی کاپیوں میں درج یہ تفصیلات گجراتی میں ہیں، جن میں ان کی اپنی تحریریں، گاندھی کی تقاریر (جو وہ ان کے بولنے کے ساتھ لکھتی جاتیں) اور خطوط شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی انگریزی کی مشق کی ورک بک بھی محفوظ ہے۔
اب گاندھی پر تحقیق کرنے والے محقق تریدیپ سہرد نے پہلی بار ان کا ترجمہ شائع کیا ہے۔
جب گاندھی پر جان لیوا حملہ ہوا تو منو گاندھی کی ڈائری، جو ہمہ وقت ان کے پاس رہتی تھی، گر پڑی۔ اس دن کے بعد سے انھوں نے ڈائری لکھنا بند کر دی اور اس کی جگہ کتابیں لکھیں اور گاندھی کے بارے میں تقریریں کیں۔ ان کا انتقال سنہ 1969 میں صرف 42 برس کی عمر میں ہوا۔
ان کی ڈائریوں کی ابتدائی یادداشتوں سے ایک نوجوان لڑکی کی باریک بینی جھلکتی ہے، جو عقیدت مند بھی ہے اور وقائع نگار بھی اور جو قید کے دوران زندگی کی معمولی حیثیت کا گہری نظر سے جائزہ لیتی ہے۔
وہ گاندھی کی بیوی کستوربا کی تیزی سے گرتی ہوئی صحت کے دنوں میں ان کی انتھک دیکھ بھال کے بارے میں بھی انکشاف کرتی ہیں۔
ڈائری کے ابتدائی مندرجات سے زندگی کا پھیکا پن جھلکتا ہے۔
کولو کے بیل کی طرح روز کا ایک ہی معمول: سبزی کاٹنا، کھانا بنانا، کستوربا کی مالش، ان کے سر میں تیل ڈالنا، دھاگا بنانا، بھجن گانا، برتن دھونا، بعض دنوں میں اپنا وزن کرنا، وغیرہ۔
مگر یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ وہ گاندھی، ان کی بیوی اور ساتھیوں سمیت جیل میں تھیں۔ ڈاکٹر سہرد نے مجھے بتایا ’بطور قیدی ان پر رضاکارانہ ذمہ داریاں تھیں۔ زندگی بے مزہ اور مجبور رہی ہو گی، مگر وہ اشرامِک (وہ طرزِ زندگی جس پر گاندھی عمل پیرا تھے) کے قواعد و ضوابط سیکھ رہی تھیں۔
منو نے رسمی تعلیم حاصل نہیں کی تھی، مگر گاندھی کے زیرِ سایہ انھوں نے انگریزی، گرامر، جیومیٹری اور جیوگرافی جیسے علوم سیکھے۔ انھوں نے ہندو مذہبی کتابوں کا مطالعہ کیا۔ نقشوں کا ایک مجموعہ دیکھ کر انھوں نے جانا کہ دوسری جنگِ عظیم کہا لڑی جا رہی ہے۔ اس کم سنی میں ان کو مارکس اور اینگلز سے واقفیت ہوئی۔
گرامر کے اسباق کے لیے خاصا وقت درکار ہوتا ہے۔ ایک مقام پر انھوں نے لکھا: ’آج میں نے بدلنے اور نہ بدلنے والی اور دوسری صفات کے بارے میں سیکھا۔‘
مگر گاندھی اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ قید میں زندگی مکمل طور پر پھیکی نہیں ہے۔
منو گرامو فون پر موسیقی سنتی ہیں، لمبی چہل قدمی کرتی ہیں، گاندھی کے ساتھ ٹیبل ٹینس اور کستوربا کے ساتھ کیرم کھیلتی ہیں اور چاکلیٹ بنانا سیکھتی ہیں۔
وہ لکھتی ہیں کہ کیسے گاندھی کے ساتھیوں نے جیل کے اندر بھڑکیلے لباس کی ایک تقریب میں شرکت کے لیے روز ویلٹ، چرچل اور مادام چیانگ کائے شیک جیسا لباس پہنے کے منصوبے بناتے تھے۔ مگر گاندھی نے اس خیال کو مسترد کر دیا تھا ’کیونکہ یہ بات انھیں پسند نہیں تھی۔‘
ان کی ڈائریوں میں غم و الم بھی ہے جو دو اہم شخصیات کے مرنے سے پیدا ہوا۔ ایک گاندھی کے قریبی ساتھی اور ان کے سوانح نگار مہادیو ڈیسائی کی موت اور دوسرے کستوربا کی موت۔
فروری 1944 میں کستوربا کی موت سے پہلے کے واقعات کی دل جھنجھوڑنے والی تفصیلات بھی قلمبند کی گئی ہیں۔
’ایک رات انھوں نے اپنے شوہر سے کہا کہ انھیں بہت درد ہو رہا ہے، اور یہ ان کی آخری سانسیں ہو سکتی ہیں۔‘
گاندھی ان سے کہتے ہیں: ’جاؤ، مگر سکون سے جاؤ، ہے نا۔‘
اور ایک سرد شام جب کستوربا گزر جاتی ہیں تو ان کا سر اپنے شوہر کی گود میں ہوتا ہے تو گاندھی ’اپنی آنکھیں بند کرکے اپنا ماتھا ان کی پیشانی پر رکھ دیتے ہیں، جیسے ان کے لیے دعا کر رہے ہوں۔‘
منو لکھتی ہیں: ’انھوں ایک ساتھ زندگی گزاری، اب وہ معافی چاہتے ہوئے انھیں الوداع کر رہے ہیں۔ ان کی نبض بند اور سانس رک گئی ہے۔‘
عمر کے ساتھ منو کی ڈائری میں ان کی تحریریں لمبی اور پُرفکر ہوتی گئیں۔
سوانح نگار رام چندر گوہا کے الفاظ میں انھوں نے گاندھی کے اس متنازع اور ناقابل فہم تجربے کے بارے میں کھل کر بات کی ہے، جب دسمبر 1946 میں گاندھی نے منو کو اپنے ساتھ سونے کا کہا ’ تاکہ وہ دیکھ سکیں کہ انھیں اپنی جنسی پر قابو ہے یا نہیں۔ (گاندھی کی شادی 13 برس کی عمر میں ہوگئی تھی اور 38 سال کی عمر میں جب وہ چار بچوں کے باپ تھے تو انھوں نے اپنی جنسی زندگی کو ترک کرنے کی قسم کھائی تھی۔)
یہ تجربہ محض دو ہفتے جاری رہا اور ہر وسیع پیمانے پر رسوائی کا سبب بنا۔ مگر اس کے بارے میں منو کے خیالات جاننے کے لیے ہمیں انتظار کرنا ہو گا جب ان کی ڈائری کے بعد کے حصے شائع ہوں گے۔
اپنی ڈائریوں کے تناظر میں منو گاندھی مجموعی طور پر ایک سنجیدہ اور بالغ النظر شخصیت کے طور پر ابھرتی ہیں۔ وہ اس بات کی اہل تھیں کہ دنیا کے چند طاقتور ترین رہنماؤں کے سامنے اپنی بات پرزور انداز میں کہہ سکیں۔
ڈاکٹر سہرد کہتے ہیں ’گاندھی کے آخری برسوں میں ان کے ساتھ رہنا آسان نہیں تھا، وہ بوڑھے ہو چکے تھے، حالات مشکل تھے، ان کی بیوی اور دیگر قریبی رفقا کا انتقال ہو چکا تھا۔ گاندھی کے آخری ایام کے بارے میں ہماری معلومات منو کے ہی مرہونِ منت ہیں۔ وہ ان کی وقائع نگار، ان کی مورخ اور ریکارڈ کیپر ہیں۔‘
یہ بالکل سچ ہے۔
گاندھی نے منو کو 1944 میں بتایا، ’چرچل مجھے اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتے ہیں۔ میں کیا کروں؟ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر مجھے جیل سے رہا کر دیا گیا تو وہ ملک کو نہ دبا سکیں گے اور نہ کنٹرول کر سکیں گے۔ مگر ویسے بھی وہ ملک کو دبا نہیں سکیں گے۔ ایک بار لوگوں میں اعتماد پیدا ہو جائے تو پھر ختم نہیں ہوتا۔ میں نے اپنا کام کر دیا ہے۔‘
تین برس بعد، ایک خونی تقسیم کے بعد انڈیا کو آزادی مل گئی۔
- میٹا کو فیس بک، انسٹاگرام پر لفظ ’شہید‘ کے استعمال پر پابندی ختم کرنے کی تجویز کیوں دی گئی؟ - 28/03/2024
- ’اس شخص سے دور رہو، وہ خطرناک ہے‘ ریپ کا مجرم جس نے سزا سے بچنے کے لیے اپنی موت کا ڈرامہ بھی رچایا - 28/03/2024
- ترکی کے ’پاور ہاؤس‘ استنبول میں میئر کی نشست صدر اردوغان کے لیے اتنی اہم کیوں ہے؟ - 28/03/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).