سعودی عرب میں امریکی فوجی اور سعودی علماء کا فتویٰ


14 ستمبر 2019 کو نا معلوم گروہ کی طرف سے سعودی عرب کی تیل کی تنصیبات پر حملہ ہوا۔ سعودی عرب اور امریکہ کا الزام تھا کہ یہ حملہ ایران کی طرف سے کیا گیا ہے جبکہ ایران نے اس بات کی تردید کی تھی کہ ایران کا اس حملے سے کسی قسم کا کوئی تعلق تھا۔ امریکہ نے سعودی عرب کی حفاظت کے لئے فوری طور پر چند سو امریکی فوجی اور پیٹریاٹ میزائل کا نظام سعودی عرب بھجوانے کا اعلان کیا۔ 16 ستمبر کو وہائٹ ہاؤس میں ایک پریس کانفرنس میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ سعودی عرب کی بہت خواہش ہے کہ ہم ان کی حفاظت کریں لیکن ہم ان کے ساتھ بیٹھ کر کوئی راستہ نکالیں گے۔

اور اس کے ساتھ صدر ٹرمپ نے اس بات پر والہانہ خوشی کا اظہار کیا کہ سعودی عرب سے اتنے سالوں میں ہمیں چار سو ارب ڈالر مل چکے ہیں اور اس کی وجہ سے اتنے لاکھ امریکیوں کو روزگار ملا ہوا ہے۔ البتہ اس بات کا ذکر شاید وقت کی قلت کی وجہ سے نہیں کیا گیا کہ جو تنازعہ سعودی عرب کو امریکی اسلحہ خریدنے پر اکسا رہا ہے اس میں ہزاروں یمنی ہلاک ہو چکے ہیں اور ہزارہا خوراک یا ادویات کی کمی کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

گوکہ اس وقت سعودی عرب میں امریکی افواج علامتی انداز میں بھجوائی گئی ہیں۔ بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ اگر علاقے میں کشیدگی میں اضافہ ہوا تو امریکہ اپنے مزید افواج سعودی عرب بھجوا سکتا ہے اور سعودی فرمانرواؤں کی خواہش بھی یہی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس سے سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوگا۔

یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ امریکی افواج سعودی عرب میں اتاری جا رہی ہیں۔ 1991 میں خلیجی جنگ سے 2003 تک پانچ ہزار سے دس ہزار تک امریکی افواج سعودی عرب میں موجود رہی تھیں۔ یہ سلسلہ 2003 میں عراق کی شکست اور تباہی اور اس کے بعد عراق میں وسیع پیمانے پر تباہی مچانے والے ہتھیاروں کی ناکام تلاش پر ختم ہوا تھا۔ پھرایک کے بعد دوسرا عرب ملک کھنڈرات میں تبدیل ہوتا گیا۔ اب اس نئے قدم نے دنیا کے ذہن میں یہ تمام پرانی یادیں تازہ کر دی ہیں کہ خدا جانے یہ ’سبز قدم‘ اب کیا گُل کھلاتے ہیں۔

دنیا بھر میں ان حالات پر مختلف تجزیے ہو رہے ہیں اور آئندہ بھی ہوتے رہیں گے۔ لیکن ہمیں خیال آیا ہے کہ سعودی عرب تو ایک انتہائی مذہبی مملکت ہے۔ خواہ عورتوں نے گاڑی چلانی ہو یا گھر سے اکیلے باہر نکلنا ہو، ہر چیز کے متعلق کوئی نہ کوئی فتویٰ موجود ہے۔ سعودی عرب میں حکومت نے ایک مضبوط دارالافتاء بنایا ہو جو کہ بوقتِ ضرورت بلکہ بسا اوقات جب دنیاداروں کی ناقص آنکھ ضرورت محسوس کرنے سے قاصر ہو تو بھی فتوے صادر کرتا ہے۔

اور یہ فتاویٰ نہ صرف ملکی ضرورت پوری کرتے ہیں بلکہ بعد میں ترجمہ کرا کے پاکستان جیسے غریب ممالک بھی بھجوائے جاتے ہیں۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اس اہم مسئلہ پر کوئی فتویٰ موجود نہ ہو؟ چنانچہ تھوڑی سی تلاش کے بعد سعودی عرب کے دارالافتاء کے فتاویٰ کا اردو ترجمہ مل گیا۔ ظاہر ہے ان فتاویٰ کا اردو ترجمہ سعودی عرب میں مقامی استعمال کے لئے نہیں کیا گیا تھا بلکہ مقصد یہی تھا پاکستان کے رہنے والے ان سے فائدہ اُٹھائیں۔

ان فتاویٰ کا مجموعہ ”فتاویٰ دارالافتاء سعودی عرب“ کے نام سے شائع ہوا تھا۔ اور جس بورڈ نے ان فتاویٰ کو صادر کیا تھا ان کے سربراہ عبدالعزیز بن عبد اللہ بن باز صاحب تھے۔ ابنِ باز صاحب کا نامِ نامی بہت سی وجوہات کی بناء پر زیادہ تعارف کا محتاج نہیں۔ خوش قسمتی سے اس کی جلد دوئم میں ہمیں وہ باب مل گیا جس میں اس قسم کی صورتِ حال کے بارے میں فتاویٰ درج ہیں۔ لیکن اس کو کھولتے ہوئے خاکسار کی نظر جلد کی پشت پر پڑی جس پر جلی حروف میں یہ نوٹ لکھا تھا:

”اس جلد میں سعودی عرب کے کبار علماء کے راہنماء فتاوے، غلط عقائد اور منحرف نظریات کی دو ٹوک نشاندہی، طبع زاد وظیفوں اور بگڑے ہوئے اعمال پر نپا تلا تبصرہ۔ ورق ورق روشن دلائل سے آراستہ۔ پڑھیے اور ایمان ویقین کی قندیلوں سے دل و دماغ روشن کیجیئے۔ “

اس نوٹ نے اشتیاق کو اور بھی بڑھا دیا۔ اس جلد میں ایک باب ’الولاء والبراء‘ کے نام سے ہے جو صفحہ 49 سے شروع ہوتا ہے۔ اس کا پہلا فتویٰ جس کا فتویٰ نمبر 9607 اسی مسئلہ کے بارے میں ہے۔ اس کے الفاظ ہیں :

” مسلمان کے لئے مناسب نہیں کہ جزیرہ عرب میں کسی کافر کو بطور خادم یا ڈرائیور یا نوکر رکھے۔ “

اور اس کی وجہ یہ لکھی ہے کہ جزیرہ عرب میں سوائے مسلمان کے کوئی نہیں رہ سکتا۔ اس پر سوال یہ اُٹھتا ہے کہ سعودی عرب میں کسی غیر مسلم کو ڈرائیور یا نوکر رکھنے کی بھی گنجائش نہیں تو پھر امریکہ کے فوجی کیا سب مسلمان تھے جنہیں دعوت دے کر سعودی عرب کی حفاظت کے لئے بلایا گیا تھا؟

ان مجموعہ فتاویٰ کی جلد دوئم کے صفحہ نمبر 79 پر یہ فتویٰ درج ہے :

”اگر کوئی غیر مسلم کسی مسلمان ملک کی شہریت حاصل کرتا ہے تو یہ جائز ہے۔ بشرطیکہ اس سے فتنہ کا خطرہ نہ ہو اور اس سے بھلائی کی امید زیادہ ہو۔ البتہ اسے جزیرہ عرب میں رہائش کی اجازت اسی وقت دی جا سکتی ہے جب وہ اسلام قبول کر لے۔ “

سمجھ میں نہیں آتی کہ کیا وہ ہزاروں امریکی فوجی جو 1991 سے اب تک سعودی سلطنت کی حفاظت کرتے رہے ہیں، کیا ان سب نے اسلام قبول کر لیا تھا؟ لیکن اس میں مزید پیچیدگی یہ تھی کہ 1991 میں امریکہ کی افواج کو ایک مسلمان ملک یعنی عراق کے خلاف بلایا گیا تھا اور اب ایران سے تنازع کے پس منظر میں امریکی فوجی سعودی عرب میں داخل ہوئے ہیں۔ اس پہلو سے غور کیا تو اس جلد کے صفحہ 54 پر یہ فتویٰ لکھا ہوا تھا:

”کافروں سے جس قسم کی دوستی کفر تک پہنچاتی ہے وہ یہ ہے کہ ان سے محبت کی جائے اور مسلمانوں کے خلاف ان کی مدد کی جائے۔“

ان گزارشات کا مقصد ہر گز کسی شخص یا گروہ پر کسی فتوے کا اطلاق کرنا نہیں۔ لیکن ان کی عبارت کوپڑھ کر ہر شخص اپنی رائے خود قائم کر سکتا ہے۔

اس کے علاوہ اسی جلد میں قادری، نقشبندی، بوہرہ، شیعہ، بریلوی اور آغا خانی احباب کے متعلق بھی مختلف فتاویٰ درج کیے گئے ہیں۔ ان فتاویٰ میں کسی کو کفر کا مرتکب، کسی کو بدعتی، کسی کو مشرک، کسی طاغوت پرست قرار دیا، اور کوئی ایسا کے اُس کا ذبح کیا حلال نہیں وغیرہ وغیرہ۔ اور جن سوالات کے جواب میں یہ فتوے داغے گئے تھے ان میں سے بعض میں لکھا ہے کہ یہ لوگ پاکستان میں رہتے ہیں۔

یہاں پہلے سے موجود فتووں کی کوئی کمی تھی جو سعودی عرب سے برآمد کر کے یہ فتاویٰ لاہور میں شائع کیے گئے۔ شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز صاحب نے علم ِ فلکیات پر بھی بہت کچھ فرمایا تھا اور اپنے ایک مقالہ میں اس بات کے دلائل جمع کیے تھے کہ زمین ساکن ہے اور سورج اس کے گرد گھوم رہا ہے۔ بالآخر دونوں ممالک کی طرف سے جو تجویز سامنے آ رہی ہے نہایت مناسب ہے کہ سعودی عرب اور ایران آپس میں تمام اختلافات بات چیت سے طے کر لیں۔ کسی بڑی طاقت کو زحمت دینے کی ضرورت نہیں۔ ان خدمات کا بل بھی بہت زیادہ ادا کرنا پڑتا ہے اور اس میں نہ سعودی عرب کا فائدہ ہے اور نہ ایران کا۔ آپس میں مفاہمت کر کے امریکہ سے عرض کر دیا جائے کہ اب آپ کی مزید خدمات کی ضرورت نہیں ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).