محسن داوڑ کی سپینے سپینے (کھری کھری) باتیں


” کھری اورسچی باتیں ( سپینے سپینے ) کہنے والے کا تعلق خواہ کسی بھی زبان، نسل اور مذہب سے ہو، میرے لئے قابل احترام ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اس ملک میں اگر سپینے سپینے کہنے کی رَیت چل پڑی تو اس کے اصل مخاطبین بھی ایک دن راہ راست پر آجائیں گے۔

سپینے سپینے سنانا اگرچہ ایک رسکی کام ضرور ہے لیکن خدا کے ہاں اس کا جزا اور پھل بھی بڑا میٹھا ہوتا ہے کیونکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے افضل جہاد قرار دیا ہے ( اَفْضَلُ الْجِھَادِ کَلِمَۃُ حَقٍّ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ ) ۔

پیر کو ایوان زیریں میں قبائلی علاقے سے ایک منتخب رکن اسمبلی نے جو باتیں کیں وہ بھی سپینے سپینے تھیں۔ ان باتوں کی سچائی کی پہلی دلیل یہ تھی کہ دیگر تقاریر کے برعکس اس قبائلی نوجوان کی تقریر کو قومی ٹیلی ویژن پی ٹی وی پر چلانے سے گریز کیا گیا، جبکہ دوسری دلیل یہ تھی کہ اس اثناء میں وزیرداخلہ صاحب نے ایوان سے واک آؤٹ کرکے اسے سچا ثابت کر دیا۔

بات ایم این اے محسن داوڑ کی کررہا ہوں جو خڑ کمر چیک پوسٹ واقعے کی پاداش میں اپنے ایک اور ایم این اے ساتھی علی وزیر کے ساتھ چار مہینے ہری پور جیل میں پابند سلاسل رہے تھے۔ سزا پانے کے بعد یہ دونوں منتخب اراکین پیر کو پہلی مرتبہ ایوان میں آئے۔ اپوزیشن جماعتوں کے اراکین کی طرف سے ان کو خوش آمدید کہاگیا جبکہ مقتدرہ ٹولے پر ان کی آمد شاق گزری۔

اسپیکر اسد قیصر کی طرف سے جب محسن داوڑ کو بات کہنے کا موقع ملا تو انہوں نے اپنی تقریر کی ابتدا بھی پشتون زبان کے ایک شعر سے کی،

زما تړلی لاس او ستا درنی درنی څپیړی
یو ورځ خو بھ جانانھ دا حساب کی راولم

” میرے بندھے ہوئے ہاتھ اور تمہارے بھاری بھاری مکے
یاد رکھو! ایک دن تجھے اس کا حساب دینا ہوگا ”۔

شعر سنانے کے بعد محسن داوڑ نے جو باتیں کیں وہ ساری سپینے سپینے اور کھری کھری باتیں تھیں۔

محسن بتارہے تھے کہ ”پچیس جولائی کو وہ علی وزیر کے ہمراہ شمالی وزیرستان کے ان ستم رسیدہ لوگوں کے احتجاجی دھرنے میں شرکت کے لیے جارہے تھے جنہیں سرچ آپریشن کے نام پر سیکورٹی فورسز نے دق کیاہوا تھا۔ راستے میں ان کو پہلے خڑ کمر چیک پوسٹ پر روکا گیا۔ بعد میں جب وہ اگلے بیریئر پر جب ان کے حق میں قبائلی نوجوانوں نے سلوگن بلند کیے اور ان کو ہار پہنائے تو پیچھے سے اندھا دھند فائرنگ شروع ہوئی جس کے نتیجے میں پندرہ قبائلی نوجوان شہید اور چالیس کے قریب زخمی ہوئے۔ علی وزیر موقع پر گرفتار کرلیے گئے جبکہ اس نے چار دن بعد علاقے کے امن کی خاطر رضا کارانہ طور پر گرفتاری دے دی۔

چیک پوسٹ پر حملہ کرنے کے دعوے کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیتے ہوئے داوڑ کا کہنا تھا کہ اگر ہم میں سے کسی پر وہاں ایک گولی فائر کرنا ثابت ہوا تو ہمیں ڈی چوک پر پھانسی دے دی جائے۔

وہ کہہ رہے تھے کہ ہمارے خلاف تو ایف آئی اے کاٹی گئی لیکن ان فوجی اہلکاروں کے خلاف ایف آئی آر کا پارچہ درج کیوں نہیں ہوا جن کی گولیوں سے پندرہ قبائلی شہید اور چالیس کے قریب زخمی ہوئے تھے؟

سپینے سپینے کو جاری رکھتے ہوئے محسن داوڑ نے اسپیکر کو مخاطب کیا کہ ”لطف کی بات تو یہ بھی ہے کہ ہماری گرفتاری کے بعد خڑ کمر کے قریب پیش آنے والے دہشتگردی کے ایک اور واقعے کی ایف آئی آر بھی ہمارے خلاف درج کی گئی، حالانکہ سچی بات یہ ہے کہ یہ دھماکہ بھی ان لوگوں نے کیا تھا جن سے ریاست مذاکرات کر رہی تھی اور عمران خان صاحب انہیں پشاور میں دفتر دینے کا مطالبہ کر رہے تھے۔

اپنی تقریر کے دوران وہ بھکے ہوئے میڈیا اور شرم سے عاری ٹی وی چینلز مالکان پر بھی برس پڑے جن کے نام نہاد چینلز نے صحافت کے مقدس پیشے کو بے آبرو کردیا ہے۔

ایک وفاقی وزیر، جس نے ان کی ( داوڑ اور وزیر) ریاست سے وفاداری مشکوک قرار دیا تھا کے بارے میں داوڑ نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ ”ہمیں مزید ریاست سے وفادرای کے سرٹیفیکٹ لینے کی ضرورت نہیں، بلکہ ریاست خود ہمارے ساتھ اپنی وفاداری کا سرٹیفکیٹ دکھائیں۔

اسپیکر اسد قیصر کے کہنے پر ”سپینے سپینے“ کو وائنڈ اپ کرتے ہوئے محسن داوڑ نے ایک بنیادی نکتہ یہ بھی اٹھایا کہ دہشگردوں کی تیاری کے بارے اگر وہ کچھ کہیں تو شاید ایک اور مقدمے کا سامنا کرسکیں تاہم اس ملک کا محب وطن وزیراعظم عمران خان صاحب خود فرماتے ہیں کہ ”القاعدہ اور دہشتگرد اس ریاست نے خود بنائے ہیں“۔

محسن داوڑ کی سپینے سپینے کا سلسلہ شاید اتنی جلد ختم نہ ہوتا کیونکہ قبائلی علاقوں میں ریاستی حماقتوں کی داستان بھی کافی طویل ہے، تاہم اسپیکر کے بار بار اصرار پر انہوں نے انہی باتوں پر اکتفاء کیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).