آرٹیکل 370: انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں وکلا کی ہڑتال اور ججوں کی کمی، لوگوں کی مشکلات میں اضافہ


سرینگر

انڈیا کی جانب سے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے اعلان کے بعد اب تک ہزاروں افراد کو حراست میں لیا چکا ہے۔

بی بی سی ہندی کے ونیت کھرے کے مطابق پریشان خاندانوں کے افراد عدالتوں میں اکھٹے ہو رہے ہیں تاہم انھیں اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو رہا۔

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے دارالحکومت سرینگر کی ہائی کورٹ کے بڑے ہال میں سرخ رنگ کے صوفے پر بیٹھے الطاف حسین لون پریشان نظر آتے ہیں۔

چونکہ وہاں کوئی پبلک ٹرانسپورٹ دستیاب نہیں ہے اور انھیں بارہ مولا میں واقع اپنے گھر سے 50 کلومیٹر دور کا سفر طے کرنے کے لیے بہت زیادہ رقم دینی پڑی۔

چار اگست کو کشمیر کی جزوی خـود مختاری سے محروم ہو جانے کے بعد یہاں کی زندگی تعطل کا شکار ہو چکی ہے۔

انٹرنیٹ اور موبائل فون سروس کے رابطے معطل ہیں۔ سٹرکیں اور گلیاں بڑی حد تک ویران ہیں اور وہاں دسیوں ہزاروں اضافی دستے تعینات کر دیے گئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

کشمیر: ’معمول کی زندگی‘ کے پس پشت پیچیدہ حقائق

’کشمیریوں کی نئی نسل میں موت کا خوف نہیں ہے‘

پابندیوں کے شکار کشمیری بچوں کا سہارا ٹیوشن سنٹر

حکومتی یقین دہانیوں کے باوجود کہ سکولز اور دفاتر عام دنوں کی طرح کام کر سکتے ہیں، ایسا نہیں ہوا۔

حکومت کے خلاف احتجاج کی ایک شکل کے طور پر زیادہ تر کاروباری مراکز بند رہے ہیں تاہم متعدد مالکان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر وہ معمول کے مطابق کاروبار میں واپس جاتے ہیں تو انھیں انڈین حکومت کے مخالف شدت پسندوں سے انتقامی کارروائیوں کا خدشہ ہے۔

ہزاروں مقامی افراد، سیاسی رہنما، کاروبار کرنے والے افراد اور کارکنوں کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔ بہت سے افراد کو ریاست سے باہر جیلوں میں منتقل کر دیا گیا ہے۔

الطاف حسین لون اپنے بھائی شبیر کا مقدمہ لڑنے کے لیے وکیل کی تلاش میں ہیں۔

ان کے بھائی کو انتہائی متنازع پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) کے تحت گرفتار کیا تھا۔ یہ ایکٹ دوسری چیزوں کے علاوہ کسی بھی شخص کو بغیر چارج کیے ہوئے دو سال تک قید کی بھی اجازت دیتا ہے۔

سرینگر میں جموں و کشمیر بار ایسوسی ایشن کے وکلا اپنے موجودہ اور سابق صدور میاں عبدل قیوم اور نذیر احمد رونگا کی گرفتاری کے خلاف گذشتہ 50 دنوں سے عدالتوں کا بائیکاٹ کر رہے ہیں۔

وکلا کے مطابق دونوں افراد کو پی ایس اے کے تحت گرفتار کیا گیا تھا اور انھیں ’علیحدگی پسندی کی وکالت‘ کرنے پر اترپردیش کی دو مختلف جیلوں میں بھیجا گیا تھا۔

کشمیر عدالت

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں پانچ اگست کے بعد سے 250 سے زیادہ پٹیشنز دائر کی گئی ہیں تاہم ان میں سے کسی کی بھی سماعت نہیں ہو رہی ہے

الطاف حسین لون کو معلوم نہیں کہ کسی وکیل کے بغیر ان کے بھائی کا کیس آگے کیسے چلنا ہے۔

انھوں نے اپنے بھائی شبیر کے خلاف لگائے گئے الزامات کو ختم کرنے کے لیے پہلے ہی حبس بے جا کی درخواست جمع کرائی ہے۔

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں پانچ اگست کے بعد سے 250 سے زیادہ پٹیشنز دائر کی گئی ہیں تاہم ان میں سے کسی کی بھی سماعت نہیں ہو رہی ہے کیونکہ عدالت نے ان کی سماعت کے لیے صرف دو ججوں کو مختص کیا ہے۔ وکلا کی کمی کے علاوہ عدالت 17 سے نو ججوں تک آ چکی ہے۔

الطاف حسین لون کا کہنا ہے ’مجھے نہیں معلوم کہ اس کے علاوہ کیا کرنا ہے۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ اب وہ شبیر کے کنبے کے ارکان جن میں ان کی بیوی، دو بچے اور اپنی 80 سالہ والدہ کی دیکھ بھال کر رہے ہیں۔

سرینگر

حکومتی یقین دہانیوں کے باوجود کہ سکولز اور دفاتر عام دنوں کی طرح کام کر سکتے ہیں، ایسا نہیں ہوا

دوسری جانب وکلا کا کہنا ہے کہ جب تک ان کے ساتھی رہا نہیں ہو جاتے اس وقت تک ان کی ہڑتال جاری رہے گی۔

چند وکلا اب بھی پٹیشنز دائر کرنے میں لوگوں کی مدد کر رہے ہیں لیکن بہت سے لوگ عدالت میں پیش نہیں ہوتے ہیں۔ درخواست گزار یا ان کے لواحقین صرف یہ جاننے کے لیے خود کو جج کے سامنے پیش کرتے ہیں کہ انھیں اگلی عدالت میں کب پیش ہونا چاہیے۔

طارق (بدلا ہوا نام) جو کہ سرینگر کی عدالت میں موجود تھے نے بتایا کہ وہ اپنے سسر کی نمائندگی کرنے کے لیے ایک وکیل کو تلاش کر رہے ہیں۔ طارق کے سسر کو سات اگست کو گرفتار کیا گیا تھا۔

انھوں نے بتایا کہ سکیورٹی فورسز ان کے 63 سالہ سسر کو آدھی رات کے قریب لے کر گیئں اور انھوں نے سرینگر کے سینٹرل جیل منتقل ہونے سے پہلے کئی دن تک مقامی پولیس سٹیشن میں گزارے۔

طارق کا کہنا تھا کہ ان کے سسر جماعت اسلامی (جو خطے میں انڈین حکمرانی کے خلاف ہے) کے نظریے کے پیروکار تھے تاہم وہ پانچ سال قبل اسے چھوڑ چکے ہیں۔

انھوں نے مزید کہا ’ہم ابھی ایک ماہ سے بھاگ رہے ہیں۔ ان کے دو آپریشنز ہو چکے ہیں۔‘

سرینگر ہائی کورٹ کے مایوس کن حالت کا معاملہ انڈین سپریم کورٹ میں اٹھایا گیا، یہاں تک کہ چیف جسٹس رنجن گوگوئی کو یہ اعلان کرنا پڑا کہ اگر سرینگر کی حالت اس قدر خراب ہے جتنی رپورٹ کی جا رہی ہے تو وہ یہ سب دیکھنے کے لیے سرینگر کا دورہ کریں گے۔

سینٹرل جیل سری نگر

انڈیا کی جانب سے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے اعلان کے بعد اب تک ہزاروں افراد کو حراست میں لیا چکا ہے

انھوں نے ابھی تک سرینگر کا دورہ کرنے کی تاریخ کا اعلان نہیں کیا ہے۔

جموں و کشمیر بار ایسوسی ایشن کے ایک وکیل اور رکن مدثر نے کہا ’عام طور پر عدالت کو حبسِ بے جا کی درخواست دائر ہونے کے 48 گھنٹوں کے اندر نوٹس جاری کرنا پڑتا ہے اور چوتھے دن اس کیس کو درج ہونے سے پہلے ریاست کو جواب دینا ہو گا۔ اس کے بعد اس کیس کا فیصلہ 15 دن کے اندر ہونا ہے۔ اب ہفتے، مہینے اور کبھی کبھی سال لگیں گے۔‘

جموں و کشمیر بار ایسوسی ایشن کے ایک سینیئر وکیل رفیق باز کا کہنا ہے ’ ہم موکلوں سے رابطہ نہیں کر سکتے۔ ابتدائی دنوں کے دوران یہاں ڈاک کے ٹکٹوں اور کاغذات کی کمی تھی۔ ہم نے عام کاغذوں پر ضمانت کی درخواستیں لکھیں۔ ‘

ان کا مزید کہنا تھا ’لوگ پولیس سٹیشنز اور رپورٹوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے طویل سفر کر کے آتے ہیں۔ ہمارے پاس سٹنوگرافروں کی کمی ہے۔‘

رفیق باز کا کہنا تھا کہ اس کے باوجود ہماری ہڑتال جاری رہے گی۔ کیونکہ ’یہ ہمارے حقوق اور شناخت کا مسئلہ ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp