چونیاں: بچوں سے جنسی رغبت رکھنے اور انھیں اپنی ہوس کا نشانہ بنانے والوں کو کیسے پہچانا جائے؟


چونیاں

’پیڈو فائل‘ ایسے شخص کو کہا جاتا ہے جو بچوں سے جنسی رغبت رکھتا ہو۔
پاکستان کے ضلع قصور میں گذشتہ ڈیڑھ برس کے دوران پیڈو فائلز کے دو بڑے واقعات سامنے آئے جن میں زینب قتل کیس اور چونیاں میں چار بچوں کا اغوا اور قتل کا کیس شامل ہے۔

اگر قصور کے ان دونوں واقعات میں ملوث قاتلوں کی عادات و اطوار کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ عمران علی (زینب کا قاتل) اور سہیل شہزادہ (چونیاں واقعے کا ملزم) کی شخصیات میں بہت سی مماثلتیں ہیں۔

ان دونوں افراد کی شخصیات میں کیا قدریں مشترک ہیں، ذیل میں ان کا جائزہ لیا گیا ہے۔

اپنی عمر کے افراد کے بجائے بچوں کو ترجیح

عمران علی اور سہیل شہزادہ نے اپنی جنسی ہوس کی تسکین کے لیے ایک ہی (مخصوص) عمر کے بچوں اور بچیوں کا انتخاب کیا، یعنی پانچ سے 11 برس کی درمیانی عمر کے بچے۔

دونوں نے جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد بچوں کو قتل کیا۔

ماہرِ نفسیات ڈاکٹر فرح ملک نے بی بی سی کو بتایا کہ ’پیڈو فائلز میں یہ عادت پائی جاتی ہے کہ وہ اپنے ہم عمر افراد سے دوستی کے بجائے بچوں سے دوستی کرنا پسند کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ بچوں کو اپنے اچھے سلوک سے اپنی طرف راغب کرتے ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ایسے افراد جنسی طور پر غیر فعال ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ آسان ٹارگٹ ڈھونڈتے ہیں۔

لاوارث بچوں کو نشانہ بنانا

ڈاکٹر فرح ملک نے بی بی سی کو بتایا کہ ’تحقیق کے بعد ہمیں یہ پتا چلا ہے کہ ایسی جگہ جہاں مزار ہو گا وہاں ایسے لوگ زیادہ پائے جاتے ہیں کیونکہ مزار گھر سے بھاگنے والے اور لاوارث بچوں کی پناہ گاہ ہوتی ہے۔‘

سہیل کے محلے داروں کے مطابق سہیل چونیاں میں واقع ایک مزار پر زیادہ تر وقت گزارتا تھا اور منشیات کا استعمال کرتا تھا۔

قتل کی وجہ خوف

سہیل اور عمران نے بچوں کو زیادتی کے بعد اس ڈر سے قتل کیا کہیں بچے ان کی اس زیادتی کے بارے میں شکایت نہ کر دیں۔

اس خضلت سے متعلق ڈاکٹر فرح نے بتایا کہ پکڑے جانے کے ڈر سے وہ زیادتی کے بعد قتل کر دیتے ہیں۔ جبکہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی تکلیف دہ عمل ہوتا ہے اور پیڈو فائلز عموماً بچوں کی تکلیف سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

اکیلے رہنا

ہم نے سہیل شہزادہ کے محلے داروں اور اہل علاقہ سے دریافت کیا گیا تو معلوم ہوا کہ وہ کسی سے ملتا جلتا نہیں تھا جبکہ زینب کے قاتل عمران علی کے عزیزوں کے مطابق وہ بھی زیادہ ملنا جلنا پسند نہیں کرتا تھا۔

’بذات خود زیادتی کا شکار‘

وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے بتایا سہیل شہزادہ ایک سیریل کِلر ہے جبکہ زینب کے قاتل عمران علی کے حوالے سے سابق وزیر اعلی شہبار شریف نے بھی یہی بیان دیا تھا۔

پولیس حکام کے مطابق سہیل شہزادہ نے تمام قتل اکیلے ہی کیے جبکہ عمران علی نے بھی تمام بچیوں کے ساتھ زیادتی اور قتل کی وارداتیں اکیلے ہی کیں تھیں۔

ماہر نفسیات ڈاکٹر فرح ملک کے مطابق ’پیڈو فائلز اکیلے یہ کام اس لیے کرتے ہیں کیونکہ ان کو اس کام میں دلچسپی ہوتی ہے اور زیادہ تر یہ وہی شخص کرتا ہے جس کے اپنے ساتھ زیادتی ہوئی ہو۔ اسے ہم ایک سیکھا ہوا عمل کہتے ہیں۔‘

دوسری جانب آر پی او سہیل تاجک نے بی بی سی کو بتایا کہ ’سہیل شہزادہ کو 12 سال کی عمر میں زیادتی کو نشانہ بنایا گیا تھا۔‘

زینب

بچوں کو چھیڑنا

سہیل شہزادہ کے محلے دار اشرف نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ان کی 11 سالہ بیٹی نے شکایت کی تھی کہ ایک کالے کپڑوں والا شخص مجھے چھیڑتا ہے اور میرا پیچھا کرتا ہے۔ معلوم کرنے پر میری بچی نے سہیل کی نشاندہی کی جس پر میں نے اور میرے محلے داروں نے یہ کہہ کر نظر انداز کر دیا کہ یہ محلے دار ہے اور ایسا نہیں کر سکتا۔‘

عمران علی کے کیس میں بھی ایسے ہی واقعے کا ذکر اس کے اہل علاقہ نے بھی کیا تھا۔ انھوں نے بتایا تھا کہ یہ شخص کم عمر بچیوں کو چھیڑتا تھا جس پر محلےداروں سے مار بھی کھا چکا تھا۔

تاہم ماہرِ نفسیات کے مطابق پیڈو فائلز اپنے آپ پر قابو نہیں رکھ پاتے اس لیے اکثر اس کوشش میں رہتے ہیں کہ ’بچوں کو چھیڑیں۔ ان کے ساتھ کھیلیں اور دوستی کریں۔‘

سہیل شہزادہ نے سنہ 2011 میں اعظم نامی پانچ سالہ بچے کو بھی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔

پولیس کا اس ملزم کو تلاش کرنا کافی مشکل تھا اور تفتیش کے دوران کئی پولیس اہلکاروں کو بھیس بدل کر علاقے کی گلیوں میں گھومنا پڑا

پولیس کا اس ملزم کو تلاش کرنا کافی مشکل تھا اور تفتیش کے دوران کئی پولیس اہلکاروں کو بھیس بدل کر علاقے کی گلیوں میں گھومنا پڑا

اعظم کے والد سعید اختر کے مطابق ’انھوں نے سہیل شہزادہ کو اپنے بیٹے کے ساتھ زیادتی کرتے رنگے ہاتھوں پکڑا تھا۔‘

یاد رہے کہ یہ وہی کیس ہے جس میں سہیل ڈیڑھ سال کی قید بھی کاٹ چکا ہے۔

اپنے قریب کے بچوں کو نشانہ بنانا اور لالچ دینا

سہیل شہزادہ اور علی عمران نے تمام وارداتیں اپنے علاقے سے پانچ کلومیڑ کے فاصلے کے اندر اندر کیں، جبکہ یہ دونوں بچوں کو کسی نا کسی چیز کا لالچ دے اپنے ساتھ لے گئے۔

آر پی او شیخوپورہ سہیل تاجک نے بتایا کہ ’سہیل شہزادہ بچوں کو اپنے ساتھ یہ کہ کر رکشے پر لے جاتا تھا کہ میں تمہیں کوئی چیز لے کر دوں گا یا پھر میرے ساتھ لکڑیاں اٹھوا کر رکشے پر رکھوانے پر تمھیں 50 یا 100 روپے دوں گا جس کی وجہ سے بچے اس کے ساتھ چل پڑتے۔‘

ایسا ہی بیان پولیس حکام کی جانب سے زینب کے قاتل کے متعلق بھی آیا تھا کہ عمران علی بچیوں کو کھانے پینے کا لالچ یا پھر والدین کے پاس لے کر جانے کا کہہ کر بچیوں کو اپنے ساتھ لے جاتا تھا۔

تاہم ماہر نفسیات ڈاکٹر فرح ملک کے مطابق ’پیڈو فائلز زیادہ تر اپنے اردگرد موجود بچوں کو ہی اپنا نشانہ بناتے ہیں چاہے وہ ان کے چھوٹے بہن بھائی یا رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں۔‘

ضدی شخصیت

آر پی او سہیل تاجک نے بتایا کہ ’جب ہم نے سہیل شہزادہ کو گرفتار کیا تو اس نے جرم سے انکار کر دیا اور اس کے چہرے پر کسی قسم کی کوئی ندامت نہیں تھی جبکہ ثبوت سامنے رکھنے پر اس نے اعتراف جرم کر لیا۔‘

زینب کے قاتل عمران علی نے بھی پکڑے جانے پر جرم سے انکار کیا تھا تاہم ثبوت دیکھنے بعد اس نے بھی اعتراف جرم کر لیا تھا۔

قصور

ماہر نفسیات ڈاکٹر فرح ملک کے مطابق ’عموماً ایسے افراد عادت کے ضدی ہوتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہ جو عمل کر رہے ہیں وہ غلط نہیں ہے۔ اس لیے ایسا شخص کبھی بھی آسانی سے اپنا جرم قبول نہیں کرتا ہے کیونکہ وہ اس کو جرم یا غلط تصور ہی نہیں کرتا۔‘

چونیاں اور قصور کیس کی تفتیش میں مماثلت

ان دونوں کیسیز کے سلسلے میں ہونے والی تفتیش اور ملزمان تک پہنچنے کے عمل میں بھی کافی مماثلتیں ہیں۔

عمران علی اور سہیل شہزادہ کو گرفتار کرنے میں 14 دنوں کا وقت لگا۔

چودہ دن تک جاری رہنے والی تحقیقات کے بعد چونیاں واقعے کے ملزم سہیل شہزادہ کو ضلع قصور کی تحصیل چونیاں سے ہی گرفتار کیا گیا۔ جبکہ عمران علی کو بھی قصور میں اس کے گھر سے ہی گرفتار کیا گیا تھا۔

سہیل شہزادہ اور عمران علی کی نشاندہی ڈی این اے کے ذریعے ممکن ہو پائی تھی یعنی دونوں افراد کو فرانزک شواہد کی بنیاد پر پکڑا گیا۔

سہیل شہزادہ چونیاں کے رانا ٹاؤن کے رہائشی تھے اور محمد عمران (جس بچے کو زیادتی کے بعد قتل کیا) کے محلے دار تھے۔ جبکہ عمران علی کے ہاتھوں زیادتی اور قتل ہونے والی زینب بھی ایک ہی محلے میں رہائش پذیر تھے۔

پولیس ریکارڈ کے مطابق سہیل شہزادہ اور عمران علی دونوں کا پہلے سے مجرمانہ ریکارڈ موجود تھا۔

سہیل شہزادہ ایک پانچ سالہ بچے کے ساتھ زیادتی کر چکا تھا جبکہ عمران علی بھی چھوٹی موٹی چوریوں میں ملوث رہا تھا۔

پولیس

پولیس ریکارڈ کے مطابق سہیل شہزادہ اور عمران علی دونوں کا پہلے سے مجرمانہ ریکارڈ موجود تھا

پولیس کے مطابق سہیل شہزادہ چونیاں واقعات کے بعد لاہور فرار ہو گیا تھا جبکہ پولیس نے اسے لاہور سے چونیاں بلوایا تھا۔ جبکہ دوسری جانب عمران علی کو جب پہلی مرتبہ تفتیش کے لیے بلوایا گیا تو اس نے دل میں تکلیف کا بہانہ بنا کر ڈی این اے ٹیسٹ نہ کروانے میں کامیاب ہوا تھا۔

تاہم ماہرنفسیات ڈاکٹر فراح ملک کے مطابق ’ایسے افراد جرم کر کے تفتیش سے فرار اس لیے حاصل کرتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک یہ غلط فعل نہیں ہے۔‘

چونیاں واقعے کا ملزم سہیل شہزادہ کون تھا؟

چونیاں کا رہائشی 27 سالہ سہیل شہزادہ اپنے والدین کے ہمراہ رانا ٹاؤن کے علاقے میں رہتا تھا۔

سہیل شہزادہ کے پڑوسی امجد اور فاطمہ بی بی کے مطابق انھوں نے اس شخص کو اس گھر میں زیادہ آتے جاتے نہیں دیکھا جبکہ سہیل شہزادہ کے محلے دار اشرف نے بتایا کہ ’چند ماہ پہلے سہیل اور اس کے گھر والوں میں جھگڑا ہوا تو ہم نے ان کو چھڑوایا تھا۔ اس وقت ہم نے اسے (سہیل) دیکھا تھا۔‘

آر پی او سہیل تاجک کے مطابق سہیل شہزادہ کے کل نو بہن بھائی ہیں جن میں چھ بھائی اور تین تین بہنیں ہیں۔

سہیل شہزادہ تمام بہن بھائیوں میں سب سے بڑا ہے۔

سہیل شہزادہ اور اس کا چھوٹا بھائی رکشہ چلاتے تھے۔ رانا ٹاؤن کے دوکانداروں نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ سہیل ان کے پاس مزدوری کے غرض سے آتا تھا۔

تاہم اس واقعے کے بعد پولیس نے کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے بچنے کے لیے سہیل شہزادہ کے تمام گھر والوں کو چونیاں سے کسی محفوظ مقام پر منتقل کر دیا ہے جبکہ سہیل شہزادہ اب 15روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کی حراست میں ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp