یونیورسٹی تعلیم طلبہ کے مسائل


(مغیث علی)


\"Mughees-Ali\" یونیورسٹیوں میں سالانہ داخلوں کے بعد تعلیمی سرگرمیوں کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ یونیورسٹی میں قدم جمانے والے طالب علم بہت سے خواب اور امنگیں دلوں میں جگائے ہوئے ہیں اور انہیں سر کرنے کے لئے لازوال ہمت و حوصلہ بھی رکھتے ہیں۔ یونیورسٹی میں آنے والے طالب علموں سے کیسا گلہ شکوہ؟ گلہ شکوہ ہونا بھی نہیں چاہیے کیونکہ یہ ابھی تو بڑے ہوئے ہیں اور اس قابل بننا چاہتے ہیں کہ چاند پر کمند ڈال سکیں۔ لیکن شکوہ ان سے ضرور ہے جو یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہو چکے ہیں۔ بہت سے ایسے نوجوانوں سے ملنے کا موقع ملتا ہے جو اپنی نااہلی کا سارا ملبہ یونیورسٹی پر ڈالتے نظر آتے ہیں۔ اگر آپ ان کی ذرا سی مخالفت بھی کرنے کی جسارت کریں تو یہ فوراً توپوں کا رخ آپ کی جانب کر کے ہمارے تعلیمی نظام اور یونیورسٹیوں کی نااہلی کے بارے میں ایک بہترین لیکچر دیں گے۔ پھر جواب سنے بغیر آپ کو تنقید کا نشانہ بنانے کے بعد چلتے بنیں گے۔ میں ایسے کئی تلخ تجربوں سے گزرنے کے بعد اب احتیاط سے کام لیتا ہوں اور شہد کی مکھیوں کے ’چھتے‘ کو چھیڑنے سے کتراتا ہوں یعنی ’خاموشی‘ ہی میں اپنی بھلائی سمجھتا ہوں۔ یونیورسٹیوں سے ڈگری حاصل کرنے کے بعد بہت ہی کم ایسے لوگ ہوتے ہیں جو اپنی اپنی ’’فیلڈ‘‘ میں گئے ہوں۔ بیروزگاری، متعلقہ ڈگری کی فیلڈ میں مہارت کا نہ ہونا اور خود پر عدم اعتمادی کے باعث کسی غیر متعلقہ شعبے میں گھس بیٹھیے کی طرح قابض، مسلط یا پھر مجبوراً نوکری کرنے کے لئے خود کو آمادہ کر لیتے ہیں۔ نتیجتاً متعلقہ شعبے کی توقعات کے مطابق نتائج نہیں دے پاتے۔ پھر تناؤ بڑھتا ہے اور مذکورہ ڈگری ہولڈر جو غیر متعلقہ ’فیلڈ‘ میں مجبوراً آجاتا ہے، ساری زندگی اپنے آپ کو کوستے ہوئے گزار دیتا ہے۔ اس لئے اکثر طالب علموں کو یونیورسٹی سے گلہ شکوہ ہی رہتا ہے۔

میں اپنی ہی مثال سے بات واضح کرتا ہوں۔ یونیورسٹی کا پہلا دن تھا۔ ڈیپارٹمنٹ جاتے ہوئے راستے میں دو لڑکے ملے۔ میں نے ڈیپارٹمنٹ کا راستہ معلوم کیا تو انہوں نے میری بات کا جواب دینے کی بجائے فوراً کہا کہ ’’نیا داخلہ؟‘‘ میں نے بھی عاجزی کے ساتھ کہا کہ ’’جی جناب! نو وارد ہوں‘‘۔ خیر انہوں نے راستہ بتا دیا اور ساتھ ہی یہ جملہ بھی کس دیا ’’کوئی اور یونیورسٹی نہیں ملی تھی‘‘، یہ تو ’’کھجی مارکہ‘‘ یونیورسٹی ہے۔ میں نے ہنس کر جواب دیا کہ ’’جناب آپ بھی تو اسی یونیورسٹی میں پڑھتے ہیں۔ تبادلہ کرا لینا تھا یا کہیں اور داخلہ لے لینا تھا‘‘، یہ کہہ کر میں چل دیا۔ یونیورسٹی کے تین سمسٹر گزار چکا ہوں لیکن ایسی کوئی بات نظر نہیں آئی جس پر میں وہ جملے دہرا سکوں جو میرے یونیورسٹی آنے پر ان دونوں لڑکوں نے میرے گوش گزار کئے تھے۔

طالب علموں کو یونیورسٹی سے اس لئے بھی شکوہ ہے کہ انہیں صرف ’تھیوری‘ پڑھائی جاتی ہے، ’پریکٹیکل‘ نہیں کرایا جاتا، \’سلیبس\’ پرانے وقتوں کا ہے اور جدید \’سلیبس\’ نصاب میں شامل نہیں۔ اس میں دو رائے نہیں کہ یونیورسٹی میں اساتذہ کی \’دھڑے بندی‘، ’پسند نا پسند‘ اور’لسانی و مذہبی تعصب‘ کے علاوہ سہولتوں کا فقدان اور بہترین راہنمائی کا نہ ہونا طلبہ کے لئے پریشانی کا باعث بنتا ہے۔ ان سوالوں کے جوابات ڈھونڈنے سے پہلے ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ طلبہ سے ایسی کیا غلطیاں سرزد ہوتی ہیں کہ وہ فارغ التحصیل ہونے کے بعد یونیورسٹی سے گلے شکوہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ایک طالب علم سے سب سے پہلی غلطی یہ سرزد ہوتی ہے کہ وہ کسی سے متاثر ہو کر یا پھر کسی کے مشورے پر کسی نہ کسی شعبے میں داخلہ لے لیتا ہے۔ یا پھر وہ جس شعبے میں جانا چاہتا ہے وہاں داخلہ نہیں ملتا تو وہ کسی دوسرے کا انتخاب کرکے اس میں چلا جاتا ہے۔ یہ دو غلطیاں بہت اہم ہیں کیوں کہ یہیں سے غلطیوں کی ایک لڑی شروع ہوتی ہے اور پھر غلطی پر غلطی سرزد ہوتی چلی جاتی ہے۔ یونیورسٹی میں آنے سے پہلے طالب علم کو پوری طرح خود کو تیار کرنا چاہیے کہ وہ کس شعبے میں جا سکتا ہے اور اس میں کیا صلاحیتیں ہیں جن کی بدولت وہ اپنے شعبے میں جاکر بہترین طریقے سے کام سر انجام دے سکتا ہے۔ میٹرک، ایف اے اور بی اے سے پہلے طالب علم کو اس بات کا ہوش نہیں ہوتا کہ وہ کس شعبے کے لئے اہلیت رکھتا ہے۔ صرف دوسروں کے کہنے یا دوستوں سے بچھڑنے کے ڈر سے اپنی تعلیم جاری رکھتا ہے۔ ہاں کچھ ایسے طالب علم ضرور ہوتے ہیں جنہوں نے شروع سے ہی اپنے مقاصد متعین کئے ہوتے ہیں اور وہ اپنے مستقبل کو دیکھ کر ہی تعلیم حاصل کررہے ہوتے ہیں۔ ایسے اکثر طلبہ کو میں نے کامیاب ہوتے دیکھا ہے جنہوں نے اپنے اہداف پہلے ہی منتخب کر لئے ہوتے ہیں۔ یعنی ان کو اپنی منزل کی فکر ہوتی ہے اور وہ اپنی منزل کے حصول کے لئے ہر طرح کی مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔ بغیر کسی وجہ یا حادثاتی طور پر کسی شعبے میں داخلہ ملنے کے بعد طالب علم اپنا اعتماد کھو دیتا ہے اور اسی سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ اس کا شعبہ تو کوئی اور تھا لیکن وہ اب یہاں آگیا۔ یہ اس کا شعبہ نہیں اور وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ یہی منفی سوچ مایوسی پھیلاتی ہے جس سے طالب علم ذہنی طور پر مفلوج ہوجاتا ہے اور اپنی تخلیقی صلاحیتیں پسِ پشت ڈال کر صرف ڈگری کا حصول ہی اپنا ہدف بنا لیتا ہے۔ طالب علم کو یہ سوچنا چاہیے کہ اگر وہ اپنے من پسند شعبے میں کامیاب نہیں ہو سکا تو یہ اس کا ہی قصور ہے کیونکہ اب وہ منتخب شعبے کے لئے ناگزیر اہلیت نہیں رکھتا۔ اب وہ جس شعبے کا انتخاب کر چکا ہے وہ اسی کا اہل ہے، اور اپنی اہلیت ثابت کرنے کے لئے اسے یہاں پہلے والی غلطی نہیں دہرانی چاہیے، بلکہ اسی شعبے کو اپنا اوڑھنا بچھوڑنا بنانے میں عافیت ہے۔

لیکن طالب علم یہ بات ماننے کو تیار نہیں اور اسی لئے آخر میں سوائے مایوسی کے کچھ نصیب نہیں ہوتا۔ اگر یونیورسٹیوں کا سروے کیا جائے تو میں دعوی کر سکتا ہوں کہ کسی بھی ڈیپارٹمنٹ میں کوئی بھی طالب علم ایسا نہیں ملے گا جو آپ کو پہلے سمسٹر میں پڑھائے جانے والے مضامین کے نام بتا سکے۔ اگر بالفرض کوئی مل بھی جائے تو وہ ان مضامین میں کسی بھی موضوع کے بارے میں مطلوب روانی کے ساتھ نہیں بتا پائے گا۔ یونیورسٹی میں پڑھائے جانے والے نصاب کے علاوہ طالب علم کسی دوسری کتاب کو ہاتھ لگانا بھی گوارہ نہیں کرتے۔ یہاں تک کے دورانِ سبق نوٹ کئے ہوئے لیکچر کو بھی امتحانات کے دوران دیکھتے ہیں۔ اسی فیصد طلبہ یونیورسٹی لائبریری کارڈ استعمال تک نہیں کرتے۔ دو یا چار سال یونیورسٹی میں گزارنے کے بعد بھی ان کے لائبریری کارڈ کورے کاغذ کی مانند ہوتے ہیں۔ اگر یونیورسٹی میں عملی تجربات نہیں کرائے جاتے تو کبھی انہوں نے خود بھی کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اگر کوشش کی تو پھر کوئی نہ کوئی بہانہ سامنے آجاتا ہے جسے وہ اپنے اوپر بوجھ سمجھنے لگتے ہیں۔ صرف ایک رات کی تیاری کے بعد امتحان دینا اکثر طلبہ کا معمول ہوتا ہے۔ میں اس سے اختلاف نہیں کرتا لیکن طلبہ کا اتنا مطالعہ ضرور ہونا چاہیے کہ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد  نہ صرف نصاب پر گرفت ہو بلکہ دیگر کتابوں کے حوالے اور بنیادی عملی کام کا تجربہ بھی انہیں ہو۔ لیکن افسوس ایسا نہیں ہوتا۔

یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد طلبہ کا یہ گلہ کہ انہیں معیاری تعلیم نہیں دی گئی محض اپنی کوتاہیوں پر پردہ ڈالنے کے مترادف ہے۔ پہلا سوال یہ بنتا ہے کہ آپ ایسی یونیورسٹی میں آئے ہی کیوں جس میں تعلیم ٹھیک نہیں دی جاتی۔ اگر ایسا ہی ہے تو آپ کو پاکستان کی جو بھی اچھی یونیورسٹی لگتی ہے وہاں داخل ہونا چاہیے تھا۔ لہٰذا اگر آپ کسی ایسی یونیورسٹی میں آگئے ہیں جہاں پڑھائی کا معیار ٹھیک نہیں ہے تو اس میں یونیورسٹی نہیں بلکہ آپ خود قصوروار ہیں۔ اب دو ہی باتیں ممکن ہیں۔ یا تو آپ کسی دوسری یونیورسٹی کے لائق نہیں تھے یا پھر آپ کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ آپ مہنگی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرسکیں۔ جنوبی پنجاب کی ہی یونیورسٹی سے پڑھے ہوئے کئی ایسے ہیرو ہیں جو ملک و قوم کی خدمت کررہے ہیں۔ اگر یقین نہیں آتا تو جو بھی طالب علم یہ تحریر پڑھ رہا ہے وہ صرف اپنے ڈیپارٹمنٹ میں نظر دوڑائے یا پھر سینئر اساتذہ سے جا کر رہنمائی لے اور اپنے ڈیپارٹمنٹ کے ہونہار طالب علموں کی فہرست حاصل کر کے ان کے بارے میں تحقیق کرے کہ انہوں نے کامیابی کیسے حاصل کی۔ تحقیق سے ثابت ہو جائے گا کہ یونیورسٹی دور میں ان کی کوئی نہ کوئی تخلیقی صلاحیت ضرور ہو گی جو انہیں دیگر طلبہ سے ممتاز کرتی ہو گی اور انہوں نے اسی کے سہارے اپنی کامیابی کے جھنڈے ہر میدان میں گاڑے ہوں گے۔ اسلامیہ یونیورسٹی کے میڈیا ڈیپارٹمنٹ کی مثال دینا چاہوں گا جس سے میرا اپنا تعلق ہے۔ یہاں سے فارغ التحصیل طالب علم ملک کے نامور میڈیا ہاؤسز میں اہم ذمہ داریاں سر انجام دے رہے ہیں۔ اسلام آباد، لاہور اور کراچی کے میڈیا ہاؤسز میں ستر فیصد طالب علم اسلامیہ یونیورسٹی کے ہی ہیں اور بہترین پیشہ وارانہ ذمہ داریاں سر انجام دے رہے ہیں۔ آخر یہ بھی تو اسی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں جس کے بارے میں طالب علم گلے شکوے کرتے رہتے ہیں۔

یونیورسٹی تعلیم کا دوسرا پہلو بھی کافی غور طلب ہے جس کا ذکر میں ابتدائی سطروں میں کر چکا ہوں۔ سب سے بڑا مسئلہ اساتذہ کی دھڑے بندی اور تعصب ہے جس کی بھینٹ اکثر طالب علم چڑھ چکے ہیں اور شاید مستقبل میں بھی چڑھتے رہیں گے۔ پسند نا پسند کا پہلو بھی اہمیت کا حامل ہے جس کے باعث کئی طلبہ کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ یوں ایک مایوسی جنم لیتی ہے جو طلبہ کو اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہے۔ یونیورسٹی میں پرانا تعلیمی نظام بھی بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے۔ تعلیمی نظام میں کسی بھی قسم کی ترقی نہ ہونے سے طلبہ کو نقصان پہنچتا ہے جس کے باعث وہ دورِ حاضر کی کئی اہم جہتوں کو نہیں سمجھ سکتے۔ اس کا نقصان حتمی طور پر انہیں بیروزگاری کی شکل میں اٹھانا پڑتا ہے۔ سہولتوں کی عدم دستیابی یونیورسٹی تعلیم پر ایک اور اہم سوالیہ نشان ہے۔ جدید دور کے تقاضوں کے مطابق اساتذہ کی تربیت نہ ہونا بھی ایک سیاہ پہلو ہے۔ کئی ایسے اساتذہ ہیں جو خود کو دورِ جدید کے تقاضوں کے مطابق نہیں ڈھال سکے اور روایتی تدریسی طریقوں سے مضبوطی سے بندھے ہیں۔ پس ضروری ہے کہ اساتذہ کے لئے دورِ جدید کے تقاضوں کے مطابق تربیتی کورسز اور ورکشاپیں منعقد کرائی جائیں۔ ہو سکے تو بیرونِ ملک ہونے والی کسی بھی ورکشاپ میں شرکت یقینی بنائی جائے تاکہ پاکستان میں موجود تعلیمی خلا کو پر کیا جا سکے۔

ہم یقیناً یونیورسٹی کے تعلیمی نظام کی خرابیاں پسِ پشت نہیں ڈال سکتے لیکن اس کے حل کے بارے میں بھی ہمیں ہی  سوچنا ہوگا۔ اپنے آپ کو ایسے ماحول میں ڈھالنا ہوگا کہ اگر یونیورسٹی اس قابل نہیں تو پھر بھی ہم نے اپنے حوصلے بلند رکھنے ہیں۔ مشکل حالات کے باوجود طلبہ کو چاہیے کہ وہ اپنی تعلیمی قابلیت جانچتے ہوئے ان ہی یونیورسٹیوں میں رہ کر تعلیم حاصل کریں اور محنت سے جی نہ چرائیں۔ اگر یونیورسٹی ان کی خواہش کے مطابق تعلیم نہیں دے پا رہی تو وہ رہ جانے والے خلا کو انٹرنیٹ اور اساتذہ سے اضافی وقت مانگ کر پُر کریں تاکہ مایوسی ختم ہو سکے۔ اسی طرح باالآخر حالات تبدیل ہونے کی کوئی صورت نکلے گی اور تعلیمی نظام بھی تبدیل ہو گا۔ اگر ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے اسی امید کے سہارے بیٹھے رہے کہ کوئی مسیحا آئے گا اور یک لخت تعلیمی نظام بہتر کردے گا تو ایسا ممکن نہیں۔ اگر آپ بین الاقوامی یونیورسٹیوں کے بارے میں بھی تحقیق کریں گے تو وہاں بھی جو طالب علم آگے بڑھنا چاہتا ہے وہ صرف اور صرف اپنی محنت کے بل بوتے پر ہی آگے بڑھتا ہے۔ اساتذہ تو صرف راہنمائی فراہم کرتے ہیں اور محنت کرنا تو طلبہ ہی کا کام ہوتا ہے۔ وہاں بھی کئی ایسے طالب علم موجود ہیں جو تمام آسائشوں کے باوجود وہ مقام حاصل نہیں کر پاتے جو ان کا خواب ہوتا ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments