جب مفتی صاحب ہماری طرف منیب ہوئے!


\"firdous-jamal\"ہمارے ملک میں پائے جانے والے آثار قدیمہ  میں جہاں ایک نام سائیں قائم علی شاہ دائم صاحب کا ہے وہیں ایک نام مفتی منیب الرحمن صاحب المعروف چاند والی سرکار کا بھی ہے۔ مفتی صاحب کا ذکر بچپن میں ہم اپنے بزرگوں سے سنا کرتے تھے یہ وہ عمر تھی جب ہم گاؤں کے دیگر بچوں کے ساتھ مل کر سہانی شاموں اور چاندنی راتوں میں زمین پر جگنو ڈھونڈتے اور آسمان سے ستارے تلاش کرتے، اسی عمر سے مفتی منیب صاحب چاند ڈھونڈنے نکل پڑے تھے چاند انہیں کبھی وقت پر نظر نہیں آیا یہاں تک کہ چشمے پڑ گئے ادھر ہم جگنو مٹھیوں میں بھر کر اور ستارے بانٹ کر گھروں کو لوٹتے ہم بڑے ہوگئے مگر مفتی صیب بڑے نہیں ہوسکے، وہ بس بوڑھے ہوگئے۔ یہ مفتی صاحب کا ہی ذوق تھا کہ ہمارے پشتون دوستوں کو بھی چاند کے پیچھے لگا دیا۔ مفتی صاحب کا ہی کرشمہ تھا کہ ستاروں سے آگے کے جہاں دیکھنے والی دیدہ ور پاکستانی قوم کو کبھی وقت پر چاند نظر نہیں آیا۔ چاند کے معاملے میں ہمیشہ ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں کا مژدہ ہی سنتے خیر ہم بچپن لڑکپن سے ہوکر جوانی کی دہلیز میں قدم رکھ چکے اور بغرض تعلیم مدینہ منورہ آئے، لیکن مفتی صاحب آج بھی حبیب بنک کی چھت پر چاند دیکھنے کا وظیفہ فرماتے ہیں۔

یادش بخیر وہ عمرے کا موسم تھا اور ہم مکہ مکرمہ میں تھے، فجر کی اذان ہونے کو ابھی خاصا وقت پڑا تھا لوگ تہجد نماز پڑھ رہے تھے، میں حرم شریف میں مطاف میں بیٹھا فجر کی اذان اور نماز کا انتظار کر رہا تھا کہ میرے بائیں جانب ایک صاحب نے اپنا ہینڈ بیگ اور جوتے رکھ کر نماز شروع کردی۔ میں نے ان پر دھیان نہ دیا مگر جب وہ سلام پھیر کر ہلنے جلنے لگے تو ان پر میری توجہ پڑی غور سے اور مزید غور سے دیکھا تو انکشاف ہوا کہ ہمارے بچپن اور اپنے بڑھاپے کے ہمارے ہم شغل مفتی منیب صاحب ہمارے پہلو میں ہیں۔ اس دفعہ وہ چاند کو نہیں سامنے ایک افریقی کو دیکھنے کا شغل فرما رہے تھے جو نماز کی جگہ کے بارے ایک یمنی سے الجھ رہے تھے۔

ہم مفتی صاحب کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے کے لئے تھوڑا کھانسنے کی ایکٹنگ کرنے لگے مگر بے سود۔ اگلے لمحے ہم نے مفتی صاحب کے حضور مصافحہ داغ دیا مفتی صاحب ہماری طرف منیب ہوئے۔ علیک سلیک ہوئی، ہمارے تعارف کرانے پر کہ خاکسار مدینہ یونیورسٹی کا طالب علم ہے مفتی صاحب کا لہجہ کچھ سرد پڑگیا۔ چند لمحے پہلے والا وہ خوشگوار ماحول بدل سا گیا۔ تب انتہائی غیر متوقع سوال مفتی صاب نے میری طرف اچھالا کہ مدینہ یونیورسٹی میں تو طلبہ کی ذہن سازی کی جاتی ہے کہ وہابیوں کے علاوہ باقی سب مشرک، بدعتی اور اسلام سے خارج ہیں۔ میں سمجھ گیا کہ مفتی صاحب سنی سنائی باتوں پر کسی غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔ میں نے حکیمانہ اسلوب اپنایا، ان سے پوچھا کہ ہماری یونیورسٹی کی اور کیا کیا تعریف آپ نے سنی ہے؟ کہنے لگا آپ کی یونیورسٹی کے طلبہ حج سیزن میں حجاج کو ایک مخصوص عقیدے پر لانے کے مشن پر کام کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اسی دوران مفتی صاحب نے ایک بات ایسی کہی کہ میں چونک سا گیا، کہنے لگے آپ کی یونیورسٹی کے طلبہ روضہ رسول کے باہر کھڑے ہوکر حجاج کو تبلیغ کرتے ہیں کہ یا رسول اللہ کہنا شرک ہے جب کہ اندر روضہ رسول کی جالیوں میں سہانی تاروں سے یا محمد لکھا ہوا ہے کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟ میں اندر ہی اندر سوچنے لگا کہ ان کی غلط فہمی یوں باتوں سے تو دور نہیں ہوگی ان موصوف نے تو ہمیں چاند نہیں دکھایا البتہ ہم انہیں یونیورسٹی اور روضہ رسول دکھا کر، طلبہ سے ملا کر ان کی غلط فہمی دور کرنے کا سامان کرسکتے ہیں۔

\"Mufti-Muneeb\"خیر کچھ وقت تو لگا مگر فجر کی اذان تک میں انہیں قائل کرچکا تھا کہ وہ جب مدینہ منورہ آئیں گے تو ہم انہیں مدینہ یونیورسٹی دکھائیں گے اور وہ ہمیں روضہ رسول کی جالیوں میں لکھا یا محمد دکھائیں گے۔ ایک دوسرے کے نمبروں کا تبادلہ کیا، نماز فجر ہم نے مطاف میں اکٹھی پڑھی، فجر کے بعد میں ان سے گلے مل کر رخصت ہوا بلکہ یوں سمجھیں کہ گلے پڑ کر۔ چند دن بعد مفتی صاحب مدینہ منورہ آئے تو مجھے یاد کیا میں ہوٹل پہنچا عشاء کے بعد کا وقت تھا، رات دس بجے کے قریب حسب وعدہ میں مفتی صاحب کے ساتھ روضہ رسول پر سلام پیش کرنے چل دیا۔ جب کہ اس سے ایک آدھ دن پہلے میں جاکر روضہ رسول کی جالیوں کو باریک بینی سے دیکھ کر مفتی صاحب کی غلط فہمی کی بنیاد تک پہنچ چکا تھا۔

خیر ہم نے سلام پیش کیا اس کے بعد مفتی صاحب نے اپنی انگلی کے اشارے سے مجھے اشارہ کیا کہ وہ دیکھو \”یا محمد\” میں زیرلب مسکرایا، مفتی صاحب سے کہا مفتی صاحب وہ تو\” یا مجید\” لکھا ہوا ہے اور مجید اللہ کے مبارک ناموں میں سے ایک نام ہے۔ اب میں نے اشارے سے مفتی صاحب کو وہ تین نقطے دکھائے جو چاند کی طرح مفتی صاحب سے روٹھے ہوئے تھے۔ یہ رسم الخط اور جالیوں کی تزئین کے باعث نقطے کچھ ذرا فاصلے پر ہیں، خیر میں نے مفتی صاحب کو شرمندگی کا احساس نہیں ہونے دیا البتہ غلط فہمی واضح کر دی۔ پھر ہم ہوٹل چل دیے، میں نے دیکھا کہ مفتی صاحب کی رنگت اڑی اڑی سی تھی، ہوٹل پہنچ کر بیٹھے ہی تھے کہ مفتی صاحب اپنے خاص انداز میں مجھ سے مخاطب ہوئے کہ دراصل یہ لوگ محمد بن عبدالوہاب نجدی کے پیروکار ہیں جو بزرگوں اور اولیاء اللہ کے خلاف تھا انہوں نے صحابہ کرام کی قبروں کو منہدم کیا تھا وغیرہ وغیرہ۔ میں نے مفتی صاحب پر واضح کیا کہ یہ محض پروپیگنڈہ ہے اور جالیوں والی غلط فہمی کی طرح یہاں بھی آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے آپ تحقیق کریں۔ صبح میرے ساتھ یونیورسٹی چلیں وہاں لائبریری کا بھی وزٹ کرائیں گے، مشائخ سے ملاقاتیں بھی ہوں گی، مگر مفتی صاحب نے نہ صرف انکار کردیا بلکہ مجھے بھی دبے لفظوں میں وہابی ہونے کا خطاب دے کر مجھ پر اپنی باتوں سے یہ تاثر دیا کہ وہ اہل سنت اور ہیں اور وہابی الگ مخلوق۔

آج دو سال بعد پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا پر مفتی صاحب کا ایک کالم دیکھا جو ان صوفیوں کی تائید میں لکھا گیا تھا جنہوں نے گروزنی میں مغرب سپانسرڈ ایک کانفرنس کرکے وہابیوں کو اور دیگر کئی طرح کے دوسرے مسلمانوں کو اہل سنت سے خارج کردیا ہے تو مفتی صاحب سے وابستہ وہ واقعہ ذہن میں تازہ ہوا کہ فقیہ شہر اور مفتی وقت نے ہمیں تو اس کانفرنس سے چار سال پہلے ہی اہل سنت سے خارج قرار دیا تھا۔ مجھے ان کے کالم پر حیرت بالکل نہیں ہوئی البتہ افسوس ضرور ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب خوارج اور تکفیری امت مسلمہ کی وحدت کو ملت کے دائرے سے نکال رہے ہیں، مفتی صاحب نے بھی ان کا کام آسان کردیا ہے۔ کاش کوئی پکار اٹھے بس بہت ہوگیا دائرے سے نکالنے کا کام، ضرورت اس امر کی ہے کہ اب ہم اس دائرے اور دلوں میں وسعت پیدا کریں، اس دائرے میں لوگوں کو داخل کرنے کی کوشش کریں نہ کہ خوارج کی طرح اس دائرے سے نکالنے کا قبیح فعل ہم بھی سرانجام دینے لگیں !


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments