کیا ملازمت پیشہ مائیں واقعی گھریلو ماؤں سے کم تر ہوتی ہیں؟


ماں

ماں کے قدموں تلے جنت ہے۔ اس فقرے کے پس منظر میں عورت کے بطور ماں کے کردار، اس کردار کی اہمیت جیسے عوامل پنہاں ہیں۔ اب اگر کسی ماں کو یہ کہا جائے کہ تم ملازمت کرتی ہو اور اپنے بچوں کو ڈے کیئر سینٹرز چھوڑتی ہو، تم تو اچھی ماں نہیں ہو، تمھارے قدموں تلے جنت نہیں ہے یا پھر ان کی ممتا میں کسی مثالی ممتا کے تقاضے کم تر ہیں، تو ایسی مائیں کیسے زندگی میں کچھ مثبت اور اچھا کرنے کی ہمت کرتی ہیں۔

پاکستان میں بچوں کی مناسب دیکھ بھال سے متعلق ایسی باتیں اکثر ملازمت پیشہ ماؤں کو سننا پڑتی ہیں اور ان دنوں پھر سے موضوع بحث بنی ہیں جب پی آئی اے ڈے کیئر کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔

اس ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک ڈے کیئر میں بچوں کی دیکھ بھال کرنے والی خاتون ایک چھوٹے بچے کو مار رہی ہے۔ اس ویڈیو کو متعدد فیس بک گروپس میں شیئر کیا گیا جس کے بعد کچھ حلقوں کی طرف سے وہی تاثر ابھارنے کی کوشش کی گئی کہ جو مائیں ملازمت کرتی ہیں، وہ شاید اچھی مائیں نہیں ہوتِیں۔

بی بی سی نے اس سلسلے میں چند ملازمت پیشہ ماؤں یعنی ورکنگ مدرز سے بات کی اور جاننے کی کوشش کی کہ کیا ملازمت پیشہ مائیں واقعتاً معاشرتی سوچ کی طرح گھریلو ماؤں سے کم تر ہیں؟

یہ بھی پڑھیے

’مجھے دیکھیں، مجھے فخر ہے اپنےآپ پر!‘

’اپنے بچے کو ایوان میں لے جانا ایک تلخ تجربہ ثابت ہوا‘

’جیسے کچن میں کام کرتے ہوئے ایک نظر بچوں پر ہو‘

کراچی میں مقیم، کریم آن لائن ٹیکسی سروس کی ہیڈ آف کمیونیکیشن مدیحہ جاوید قریشی تین سال سے اپنے بچے کو ڈے کیئر سینٹر چھوڑ رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم صرف ماؤں کو ہی کیوں الزام دیتے ہیں۔ بچوں کی پرورش میں ماں اور باپ دونوں کا کردار ہوتا ہے۔

مدیحہ جاوید قریشی اس معاملے کو مثبت نقطۂ نظر سے دیکھنے کی بات کرتی ہیں نا کہ ورکنگ مدرز کے کام کو منفی انداز میں دیکھنے کی۔

’ہماری بحث ڈے کیئر سینٹرز کو بہتر بنانے کے لیے ہونی چاہیے جبکہ ہم ان کے اندر صرف تصویر کے منفی پہلوؤں کی طرف دھیان رکھ کر دل سے لگا بیٹھے ہیں۔ کہیں پیش آنے والے ایسے واقعات کو سامنے رکھ کر ورکنگ مدرز کے پروفیشن کو ان کے لیے ذہنی کوفت اور ضمیر کی خلش بنانے کی بجائے ان کے لیے بہتر سوچنے، ان کے کردار کو سراہنے، اور ان کے کام کرنے کے لیے سازگار حالات پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔‘

مدیحہ جاوید کا خیال ہے ’ہونا تو یہ چاہیے کہ ہماری توجہ ڈے کیئر سینٹرز کو بچوں کے لیے محفوظ اور اچھے بنانے پر ہو، نا کہ ان خواتین پر اخلاقی تنقید کی جائے جو اپنے بچوں کو وہاں چھوڑتی ہیں۔ ڈے کیئر سینٹر میں سروس اچھی بھی ہو سکتی ہے اور بری بھی۔ اس لیے ہمیں سروس پر سوال اٹھانا چاہیے، نا کہ ان لوگوں پر جو اس سروس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔‘

ماں

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس کی مثال تو ایسے ہی ہے جس طرح کسی عورت کو ہراساں کیا جائے اور ہم ہراساں کرنے والے کو الزام دینے اور برا بھلا کہنے کی بجائے اس عورت کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کر دیں جو خود ہراسگی کا شکار ہوئی ہو۔

مدیحہ کا یہ بھی کہنا ’ہمیں کوئی حق نہیں کہ ہم کسی کے بارے میں اس کے مخصوص حالات جانے بغیر کوئی رائے قائم کریں۔ ہر ایک کا اپنا انتخاب ہوتا ہے۔ اگر ایک ماں کو لگتا ہے کہ وہ تعلیم یافتہ ہے اور اس کو کام کرنا چاہیے تو یہ اس کا انتخاب ہے۔ اگر کسی کو لگتا ہے کہ اسے گھر میں رہ کر اپنے بچوں کی دیکھ بھال کرنی ہے تو اس میں بھی کچھ غلط نہیں ہے۔ ہمیں دونوں طرف کی دلیل کو ساتھ لے کر جانا چاہیے۔‘

شہمین اشرف بھی ایک ورکنگ مدر ہیں اور سوشل انٹرپرائز سافٹ وئیر میں ماہر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ملازمت کرنے کی وجہ سے ان کو فیملی اور کولیگز کی طرف سے بار بار یہ سننا پڑتا ہے کہ وہ کیسی ماں ہیں جو بچوں کو چھوڑ کر آتی ہیں۔؟

ان کا کہنا تھا کچھ لوگ یہاں تک کہتے ہیں کہ آپ جیسی ماؤں کے پاؤں کے نیچے جنت نہیں ہوتی۔

شہمین کا کہنا ہے کہ وہ کم بجٹ پر اپنا ڈے کیئر سینٹر کھول کر ان ماؤں کے لیے اپنے طور پر کچھ اچھا کرنا چاہتی ہیں جو کام کرتی ہیں۔ ڈے کیئر سینٹرز کو رجسٹر کروانے کے لیے کوئی ریگولیٹری اتھارٹی ہونی چاہیے تاکہ ان کی نگرانی کی جا سکے۔

سحر ارشد ایک موبائل فون کمپنی میں ڈیجیٹل ڈیوائس اینالسٹ کے طور پر کام کر رہی ہیں اور اس کے علاوہ ماؤں کے لیے فیس بک پر سپورٹ گروپ بھی چلاتی ہیں۔

سحر کے دو بچے ہیں اور وہ آٹھ سال سے ملازمت کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے ’اگر ڈے کیئر سینٹر میں بچے کے ساتھ کچھ برا ہو رہا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم بچے کو کسی بھی ڈے کیئر سینٹر چھوڑیں ہی نہیں۔ یہ تو ایسے ہی ہے کہ اگر کسی کا گاڑی چلاتے ایکسیڈنٹ ہو جائے تو وہ گاڑی چلانا ہی چھوڑ دیں۔ اسی طرح بجائے اس کے کہ ہم ڈے کیئر سینٹر میں بچے چھوڑنے والی ماؤں کو الزام دیں، ہمیں یہ خیال کرنا چاہیے کہ جس سینٹر میں بچوں کو بھیج رہے ہیں وہ اچھی جگہ ہو۔‘

’اگر کوئی کہتا ہے کہ جو مائیں نوکری کرتی ہیں وہ اچھی مائیں نہیں ہیں اور ان کو اپنے بچوں کا بالکل خیال نہیں ہے ایسا کہنے اور سوچنے والے بالکل غلط ہیں۔‘

’کیا ہم جانتے ہیں کہ وہ ایسا کیوں کر رہی ہیں۔ ہو سکتا ہے وہ اکیلی اپنے بچوں کی پرورش کر رہی ہوں یا ہو سکتا ہے ان کے ساتھ بچے کے والد نا ہوں اور ان کے لیے اپنے بچوں کو پالنے کے لیے کام کرنا اشد ضروری ہو۔‘

سحر اہم معاشرتی و سماجی ضرورت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے دوسروں کے بارے رائے قائم کرنے میں جلدی کرنے جیسے رویے کو ناپسند کرتی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ وہ ایسی چند ماؤں کو بھی جانتی ہیں کہ جنھوں نے اپنی نوکریاں اس لیے چھوڑ دیں کہ وہ اپنے بچوں کو زیادہ وقت دے سکیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ وہ اپنے گھر کے کاموں میں اتنی مصروف ہو گئیں کہ وہ بچوں پر مناسب توجہ نہیں دے سکیں۔

’ملازمت چھوڑ کر انھیں اپنے گھریلو کام اور بچوں پر توجہ دینے میں ٹائم مینیجمنٹ میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ سست ہونا شروع ہو گئیں۔‘

ہم نے ایک ایسی ہی ماں، قرۃ العین سے بھی بات کی جو اب ملازمت نہیں کر رہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہر ماں کے حالات مختلف ہوتے ہیں اور یہ ان پر منحصر ہے کہ وہ کیا فیصلہ کرتی ہیں تاہم کسی کو ان کے بارے میں رائے قائم کرنے کا حق نہیں ہونا چاہیے۔

قرۃ العین کا تعلق گوجرنوالہ سے ہے اور وہ مشروب ساز کمپنی کوکا کولا میں اسسٹںٹ ایچ آر مینجر تھیں۔ وہ سوشل میڈیا پر ماؤں کے بہت سے سپورٹ گروپس کا حصہ ہیں۔ انھوں نے اپنے بچے کی پیدائش کے بعد نوکری چھوڑ دی کیوںکہ گوجرانوالہ میں ان کے پاس تسلی بخش ڈے کئیر سینٹر کی سہولت میسر نہیں تھی اور نا ہی ان کے پاس اپنا بچہ گھر میں کسی کے پاس چھوڑنے کی سہولت تھی۔

قرۃ العین کا کہنا ہے کہ انھوں نے اس لیے نوکری چھوڑی کیوںکہ انھیں آمدنی کی اتنی زیادہ ضرورت نہیں تھی لیکن اس پر بھی بعض اوقات انھیں یہ سننا پڑتا ہے کہ اتنا پڑھنے لکھنے کے بعد گھر کیوں بیٹھی ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp