سمیع چوہدری کا کالم: مصباح سرفراز کو ٹِم پین بننے دیں گے؟


سرفراز

پاکستان ٹی ٹونٹی کی بین الاقوامی درجہ بندی میں پہلے نمبر پر ہے جبکہ سری لنکا اس درجہ بندی میں آٹھویں نمبر پر ہے۔

طُرّہ یہ کہ جو ٹیم آٹھویں نمبر پر ہے، اس کے بھی صرف پانچ کھلاڑی اس سکواڈ میں ہیں جو ٹی ٹوئنٹی سیریز کھیلنے لاہور میں موجود ہیں۔

سرفراز احمد کی قیادت میں پاکستان نے مسلسل گیارہ سیریز میں ناقابلِ شکست رہنے کا ریکارڈ بنایا تھا لیکن سال کے آغاز میں جنوبی افریقہ کے خلاف ٹی ٹونٹی سیریز میں قیادت شعیب ملک کو سونپی گئی اور پاکستان کی پرفارمنس مایوس کُن رہی۔

مزید پڑھیے

’اگر ہماری فیلڈنگ کا یہی حال رہا۔۔۔‘

’جے سوریا کیا سوچ رہے ہوں گے!‘

انٹرنیشنل کرکٹ چاہیے بھلے ’بی ٹیم‘ ہی سہی

آج طویل عرصے بعد ٹی ٹونٹی ٹیم ایک بار پھر سرفراز کی قیادت میں میدان میں اترے گی۔ ویسے تو پاکستان کا وننگ کمبینیشن بنا ہوا تھا لیکن چیف سلیکٹر اور ہیڈ کوچ مصباح کی نگاہِ انتخاب نے عمر اکمل اور احمد شہزاد کو چُن کر کچھ سوالات پیدا کر دیے ہیں۔

بد قسمتی یہ ہے کہ ہمارے یہاں ٹیم سلیکشن کے ہنگام واحد پیمانہ ڈومیسٹک کرکٹ کی کارکردگی کو مانا جاتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ پاکستان کی ڈومیسٹک کرکٹ اور کوالٹی انٹرنیشنل کرکٹ کے درمیان معیار کی بہت بڑی خلیج حائل ہے۔

یہ وہی پیمانہ ہے جس سے محمد حفیظ جیسے کھلاڑی سال ہا سال مستفید ہوئے ہیں مگر پھر بھی انٹرنیشنل لیول پہ کوئی تگڑے نام نہیں بن پائے۔ یہی پیمانہ احمد شہزاد اور عمر اکمل پر لاگو کر کے مصباح نے کہا ہے کہ حالیہ ڈومیسٹک سیزن میں اچھی کارکردگی دونوں کے انتخاب کی وجہ بنی۔

سوال یہ نہیں ہے کہ آج شام کے میچ یا اس سیریز میں یہ دونوں کھلاڑی کیسی کارکردگی دکھاتے ہیں کیونکہ موجودہ سری لنکن ٹیم اپنی قوت میں کسی ایسوسی ایٹ ٹیم سے زیادہ نہیں ہے۔ سوال تو یہ ہے کہ ان دونوں کی سلیکشن آئندہ آنے والے چیلنجز میں کس حد تک درست ثابت ہو گی۔

لستھ ملنگا کی عدم موجودگی میں دسون شناکا کو اپنی قومی ٹیم کی قیادت کا موقع دیا گیا ہے۔ دونوں ون ڈے میچوں میں شناکا نے تباہ کن بیٹنگ کا مظاہرہ کیا جبکہ پاکستان نے بدترین فیلڈنگ کا مظاہرہ کیا۔

اب دیکھنا یہ ہو گا کہ ون ڈے سیریز کے تلخ تجربے کے بعد پاکستان کا تھنک ٹینک کیا نئی حکمتِ عملی لائے گا کہ جس کے تحت شناکا کی منہ زور جارحیت کے آگے بند باندھا جا سکے۔

لیکن شاید اس سے کہیں زیادہ غور طلب پہلو سرفراز احمد کی بیٹنگ فارم ہے۔ پہلے وکٹ کیپر بلے بازوں کو عموماً شک کا فائدہ ملتا تھا کہ وہ مکمل بیٹسمین نہیں ہوتے۔ اب مگر معاملہ برعکس ہے۔ جوس بٹلر سے ڈی کوک تک سبھی وکٹ کیپر بلے باز اپنے مکمل بیٹسمین ہونے کا ثبوت دے رہے ہیں۔

سرفراز کا معاملہ یکسر مختلف ہے جو اپنی جارحانہ بیٹنگ کی بدولت کپتان بنے تھے مگر کپتانی ملنے کے بعد بوجوہ اپنی بیٹنگ کا ویسا جادو نہیں جگا پائے جو قیادت کے دباؤ سے پہلے ان کی ہر اننگز میں جھلکتا تھا۔

پچھلے دنوں ایشز سیریز کے دوران آسٹریلوی کپتان ٹِم پین نے بہت اچھی بات کہی کہ اپنے کوچ اور پوری ٹیم کے سامنے تھنک ٹینک نے ان پہ واضح کر دیا ہے کہ سب سے پہلے وہ ایک وکٹ کیپر اور کپتان ہیں، اس کے بعد بلے باز۔

پین کا کہنا تھا کہ کوچ جسٹن لینگر نے واضح کیا ہے کہ وہ انھیں دنیا کا بہترین وکٹ کیپر دیکھنا چاہتے ہیں لہٰذا ان کے رنز کی اہمیت محض ثانوی سطح کی ہو گی۔

سرفراز کا معاملہ خاصا عجیب ہے۔ بلے بازی تو خیر دور، گزشتہ تین سال میں وہ خود کو بہترین وکٹ کیپر بھی ثابت نہیں کر سکے۔

اگر سرفراز اپنی کپتانی سے جُڑی افواہوں کا خاتمہ چاہتے ہیں تو انہیں بھی ٹِم پین کی طرح سوچنا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp