سعودی عرب اور ایران میں جنگ کے امکانات


سعودی عرب اور ایران کے مابین جاری کشیدگی خطرناک رخ اختیار کرتی جارہی ہے۔ سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان نے اپنے تازہ ترین بیانات میں براہ راست دنیا کو خبردار کیا ہے کہ اگر ایران اور سعودی عرب کی جنگ ہوئی تو اس سے عالمی معیشت بری طرح متاثر ہوگی۔

ولی عہد محمد بن سلمان کا لب و لہجہ تقریباً ویسا ہی ہے جیسا کہ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی مجلس عامہ یا جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران اختیار کیا تھا۔ عمران خان نے بھی دنیا کو یاد دلایا تھا کہ اگر پاک بھارت جنگ ہوتی ہے تو اس کے نہ صرف اس خطے، بلکہ دنیا پر تباہ کن اثرات ہوں گے۔

پاک بھارت جنگ کی صورت میں اگر جوہری ہتھیار استعمال ہوسکتے ہیں تو ایران اور سعودی عرب کی جنگ میں تیل کا ہتھیار استعمال ہوگا اور محمد بن سلمان کے بیان کے مطابق تیل کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ ہوگا جو عالمی معیشت کی تباہی کا باعث ہوگا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس طرح کے بیانات سے دنیا کو ڈرایا جاسکتا ہے یا عالمی برادری کو مجبور کیا جاسکتا ہے کہ وہ ایران اور سعودی عرب یا بھارت اور پاکستان کے بیچ میں کود پڑے اور دنیا کو اس ممکنہ تباہی سے بچانے کی کوشش کرے۔

فی الحال تو ایسا کچھ نظر نہیں آرہا۔ عالمی طاقتیں جن میں زیادہ تر مغربی طاقتیں ہی ہیں زیادہ دل چسپی اس بات میں رکھتی ہیں کہ دیگر ممالک خاص طور پر مسلم اکثریتی ممالک میں کشیدگی رہے تاکہ ان کے ہتھیار فروخت ہوتے رہیں اور اربوں ڈالر کے سودے ہوں۔

جس طرح وزیر اعظم پاکستان عمران خان کا مطالبہ دنیا سے یہ تھا کہ وہ بھارت کو روکے اور اس کے خلاف اقدامات کرے تاکہ کشمیر میں جاری ظلم و ستم بند ہو۔ اس طرح محمد بن سلمان کو دنیا سے توقع ہے کہ وہ ایران کو مزید حملوں سے روکے ورنہ تیل کی فراہمی میں تعطل آسکتا ہے۔

یاد رہے کہ ستمبر میں سعودی عرب کے بقیق اور خریص کے علاقوں میں سعودی تیل کمپنی ”آرام کو“ (Aramco) کی تنصیبات پر حملے ہوئے تھے، بقیق سعودی عرب کے مشرقی ساحل پر خلیج فارس سے ملحق علاقہ ہے جو دمام سے تقریباً ساٹھ کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہاں پر ’آرام کو‘ کی بڑی تنصیبات ہیں۔

’آرام کو‘ سعودی عرب کی قومی پیٹرولیم اور گیس کی کمپنی ہے جس کا مرکزی دفتر ظہران میں واقع ہے۔ اس طرح دمام اور الخبر کے ساتھ مل کر یہ تین شہروں کا مجموعہ بن جاتا ہے جسے مشترکہ طور پر دمام میٹرو پولیٹن ایریا کہا جاتا ہے، جس کی مجموعی آبادی تقریباً پینتالیس لاکھ ہے۔

’آرام کو‘ اس وقت دنیا کی سب سے زیادہ منافع بخش کمپنی ہے، جس کے پاس دنیا کے دوسرے سب سے زیادہ تیل کے ذخائر ہیں، جن کا تخمینہ دو سو ستر ارب بیرل لگایا گیا ہے، جو سو سے زیادہ تیل کے کنوؤں پر محیط ہیں۔

لیکن مسئلہ یہ ہے کہ سعودی عرب کے جس مشرقی صوبے الشرقیہ میں یہ مقامات ہیں وہاں سعودی عرب کی مجموعی اکثریتی سنی آبادی کے ساتھ خاصی بڑی تعداد میں شیعہ آبادی بھی رہتی ہے، جس کی ہم دردیاں ایران کے ساتھ ہیں جس سے اس علاقے میں کشیدگی رہتی ہے۔ سعودی عرب اپنی مردم شماری میں مذہب یا اس کی تفصیلات کا شمار اور اجراء کرنے سے گریز کرتا ہے لیکن ایران کے دعوؤں کے مطابق سعودی عرب میں دس سے بیس فی صد آبادی شیعہ ہے یعنی اگر سعودی عرب کی آبادی تقریباً ساڑھے تین کروڑ ہے تو اس میں تقریباً تیس سے پچاس لاکھ تک شیعہ آبادی ہوسکتی ہے۔ یہ علاقہ وہ ہے جو بحرین سے بھی متصل ہے، بحرین میں بھی شیعہ آبادی اکثریت میں ہے جنہیں ”بحارنہ“ کہا جاتا ہے۔ اسی طرح سعودی عرب کے مشرقی صوبے میں قطیف کا علاقہ ہے جو جبیل تک پھیلا ہواہے۔

لیکن بقیق کے جس علاقے میں حملہ ہوا وہ دمام اور بحرین سے زیادہ قریب ہے، یہیں پر چودہ ستمبر کو تیل کی تنصیبات پر حملے ہوئے تھے، جن کی ذمہ داری حوثی قبائل نے قبول کی تھی جو خود کو ’انصاراللہ‘ بھی کہتے ہیں۔ انصاراللہ یا حوثی شمالی یمن کے صعدہ علاقے میں 1990 کے عشرے میں نمودار ہوئے تھے انہوں نے یمن کے سابق صدر علی عبداللہ صالح کے خلاف طویل جدوجہد کی۔

حوثیوں کے موجودہ سربراہ عبدالمالک حوثی نے سعودی عرب کو نشانہ بنایا ہوا ہے، جواب میں سعودی عرب بھی حوثیوں کے زیر اثر علاقوں میں حملے اور دیگر کارروائیاں کرتا رہتا ہے، جس سے پورا خطہ ایک طویل جنگ کی زد میں آیا ہوا ہے۔ اس طرح سے دیکھیں تو ایران سے بحرین، سعودی عرب اور یمن تک کا علاقہ ایک فرقہ وارانہ آگ میں جل رہا ہے جس کا بڑا معاشی فائدہ مغربی طاقتیں اٹھا رہی ہیں۔

ایران اور سعودی عرب کے موجودہ تنازع کی جڑیں دراصل یمن کی جنگ سے منسلک ہیں جس کا آغاز 2015 میں ہوا تھا جب سعودی عرب باقاعدہ یمن کے تنازع میں الجھا۔ سعودی عرب کی اتحادی افواج میں مشرق وسطی اور افریقہ کے نو ممالک شامل ہیں جو سعودی حمایت یافتہ یمن کے صدر عبدالرب منصور ہادی کی فوجی مدد کررہے ہیں۔ جب یمن کے سابق صدر علی عبداللہ صالح نے 1990 سے 2012 تک یمن پر آمرانہ حکومت کرنے کے بعد اقتدار چھوڑا تو اس وقت سے منصور ہادی یمن کی صدارت کے دعوے دار ہیں، جن کو سعودی عرب کی حمایت حاصل ہے۔

واضح رہے کہ بقیق پر حالیہ حملے کے بعد سعودی عرب میں تیل کی تنصیبات تو تباہ ہوئیں، جنہیں بحال کردیا گیا ہے مگر کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا اور نہ ہی اب تک اس بات کے کوئی واضح ثبوت آئے ہیں کہ یہ حملے واقعی ایران نے ہی کرائے، کیوں کہ خود امریکا متضاد بیانات دے کر کبھی کہتا ہے کہ یہ حملے شمال کی طرف یعنی کویت وغیرہ اور کبھی عراق کی طرف سے ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔

سعودی عرب کا دعویٰ ہے کہ اس حملے کے بعد تیل کی پیداوار کا نصف حصہ متاثر ہوا تھا جو کہ دنیا بھر کی پیداوار کا تقریباً پانچ فی صد بنتا ہے۔ دوسری طرف امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام کرتے رہے ہیں اور انہوں نے یہاں تک دعویٰ کیا ہے کہ ایران کی طرف سے حملہ دراصل ایک جنگی اقدام ہے جس کا سدباب ہونا چاہیے جس پر محمد بن سلمان متفق ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ آگے کیا ہوگا یا کیا ہونا چاہیے؟ جس طرح پاک بھارت تنازع کا حل جنگ نہیں ہوسکتی اس طرح ایران اور سعودی عرب کے باہمی اختلافات کو ایک بڑی جنگ میں بدلنا دانش مندی نہیں ہوگی۔ لگتا ہے کہ امریکا اور دیگر بڑی طاقتوں کی یہ خواہش ہے کہ اس خطے کو بھارت سے بحرین تک اور ایران سے یمن تک ایک بڑی جنگ کی آگ میں جھونک دیا جائے اس لیے سعودی عرب اور ایران سمیت دیگر تمام متعلقہ اور ملحقہ ممالک کو پھونک پھونک کرقدم رکھنے کی ضرورت ہے۔

ایک بڑی جنگ کا امکان بہرحال موجود ہے جس کو صدر ٹرمپ اپنے انتخاب سے پہلے چھیڑنے کا ارادہ رکھتے دھائی دیتے ہیں۔ جیسا کہ ان سے پہلے کے، ری پبلکن صدر جارج بش جونیئر نے 2001 میں افغانستان اور 2003 میں عراق میں کیا تھا۔ اس ممکنہ جنگ میں سب سے بڑا نقصان مسلم ممالک اور عوام کا ہوگا، چاہے وہ کسی بھی فرقے سے تعلق رکھتے ہوں۔

ایسے میں بین المذاہبی سوچ کی ضرورت ہے، جو فرقوں سے بالاتر ہوکر مسائل کا حل نکالے۔ بظاہر ایران اور سعودی عرب کا کوئی براہ راست تنازع نظر نہیں آتا، نہ ایران سعودی عرب کے کسی علاقے پر قابض ہے، مگر دونوں نے یمن کو اپنی جنگ کا محور بنایا ہوا ہے اب ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم ممالک کے حکم ران بجائے دھمکیاں دینے کے ایک دوسرے سے بات چیت کرکے مسائل کا حل نکالیں۔
”ہم سب“ کے لئے خصوصی طور پر ارسال کردہ تحریر۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).