میرا استاد مغرب


جس نے آپ کو پڑھنے لکھنے سے آشناکیا ہو، سب سے پہلے اور آج تک، کئی لوگ ہیں، کئی استاد ہیں۔ میرے لیے ہمیشہ ہی یہ ایک مشکل سوال ہے کہ آپ کا استاد کون ہے؟ میں نے درجنوں استادوں سے سکول، کالج، یونیورسٹی اور اس کے بعد اعلی تعلیم کے لیے پڑھا۔ میری پہلی استاد مس سالک تھیں، انہوں نے سرگودھا میں پہلا اعلیٰ معیار کا پرائیویٹ انگلش میڈیم سکول شروع کیا، اپنی بہن مس جوزف کے ساتھ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی سال جب انگلستان کے وزیر اعظم بورس جانسن کی سابقہ بیوی مرینہ وہیلر اپنی والدہ جن کی پیدائش سرگودھا کے ایک گاؤں میں ہوئی، کی Roots تلاش کرنے پاکستان تشریف لائیں تو میں انہیں سرگودھا لے گیا۔

انہوں نے کہا، ”میری والدہ جب سرگودہا کا ذکر کرتی ہیں تو اپنی ایک استانی مس سالک کا بہت ذکر کرتی ہیں۔ “
میں یہ سن کر میں چونک گیا ( اس واقعے کی تفصیل میری حالیہ شائع ہونے والے کتاب ”لوگ در لوگ“ میں ہے ) ۔

میرے پہلے استادوں میں محترم نانک مسیح تھے، دلچسپ بات یہ ہے وہ مجھے گھر پڑھانے آتے تو میرے والد صاحب بھی ان سے پڑھتے، میرے ابا جی نے ازخود پڑھنے کا عمل تب تک جاری رکھا۔

میری ایک استاد مس منظور، کینٹ پبلک سکول سرگودھا، جو اپنے وقت میں صوبے کے اعلیٰ ترین سکولوں میں شامل ہوتا تھا، مس منظور نے مجھے سات آٹھ سال پڑھایا، اگر ان کا ایک جملہ میں اپنے ذہن میں یاد نہ رکھتا تو 1992 ء کی ایک جہاں گردی کرتے ہوئے ترکی کے پہاڑی اور خطرات سے بھر پور علاقے میں موجود جھیل وان کی دلدل میں دھنس کر اس جہان سے ہی کوچ کر گیا ہوتا۔

انہوں نے کلاس میں ایک دن گفتگو کرتے ہوئے کہا، ”میرے والد دوسری جنگ عظیم میں برما کی سرحد پر لڑتے ہوئے دلدل میں دھنس کر ہلاک ہوگئے۔ بچو! اگر دلدل میں پھنس جاؤ تو قدم آگے بڑھانے کی بجائے وہیں رک جاؤ، ٹھہر کر، پھر پیچھے کی طرف الٹے قدم چلو۔ “ ( اس واقعے کی تفصیل میری کتاب ”ترکی ہی ترکی“ میں پڑھ لیجیے ) ۔

میں نے سکول سے کالج، یونیورسٹی اور بیرون ملک اعلیٰ تعلیمی سلسلے میں درجنوں اساتذہ سے پڑھا اور سیکھا۔ جی سیکھا، سیکھنا اہم ہے سیکھنا۔ پڑھنے سے زیادہ۔

ہمارے گھر میں تعلیم کا تمام تر سہرا میری والدہ کو جاتاہے کہ انہوں نے جس Devotion سے ہمیں تعلیم دلوانے کی جدوجہد کی، ہمارے ہاں اس کا رواج کم ہے۔ اور یہ ایک جذباتی جملہ ہے، ”بچہ ماں کی گود سے سب کچھ سیکھتا ہے۔ “ ہاں کسی حد تک درست ہے، گر مکمل نہیں، میں نے اپنی ماں اور والد صاحب سے بہت سبق حاصل کیے مگر جو سب سے بڑا سبق حاصل کیا وہ یہ کہ ”بیٹا پڑھنے اور سیکھنے کا عمل ہمیشہ جاری رکھنا۔ “

بس اور پھر میں سیکھتا چلا گیا، میرے درجنوں سے زیادہ تعلیمی استاد ہیں اور سینکڑوں سے زیادہ سماجی استاد۔

پنجاب یونیورسٹی پولیٹیکل سائینس ڈیپارٹمنٹ میں، میں نے ڈاکٹر حسن قزلباش، ڈاکٹر حسن عسکری رضوی، پروفیسر سجاد نصیر سے بہت کچھ پڑھا اور سیکھا۔

امریکہ میں 2002۔ 2003 ء میں نے Peace Studies کی اعلیٰ تعلیم کے دوران وہاں کئی استادوں سے پڑھا اور سیکھا، میری ایک استاد محترمہ پاؤلا گرین نے دوران تعلیم مجھے Conflict Resolution پڑھاتے ہوئے بہت کچھ پڑھایا اور میں نے سیکھا ان کے ایک جملے نے تو میری ساری ڈکشنری ہی بدل دی، جب میں نے کلاس میں کھڑے ہوکر اپنی گفتگو میں یہ کہا،

”We are fighting for Democracy۔ “

پروفیسر پاؤلا گرین نے بڑے پیار سے مجھے ٹوکتے ہو؟ کہا

“No Farrukh! You are not fighting for democracy, you are struggling for democracy. Fight is war terminology”

اوہ میرے خدایا! اس ایک جملے نے تو میری ساری ڈکشنری ہی بدل دی۔ ہمارے سماج میں کس قدر جنگی اور پُرتشدد اصطلاحیں استعمال کی جاتی ہیں۔

اخباروں کے نام، جنگ، یلغار، لشکر، غلبہ۔ کالموں کے نام تیر کمان، شمشیر بے نیام، بجلیاں۔ کتابوں، افسانوں، ناولوں کے نام۔ ہر جگہ جنگی وپُرتشدد اصطلاحیں عام ہیں۔

میں نے کتابوں سے سیکھا، ہزاروں کتابیں میری استاد، ہزاروں تحریریں، مقالے، کس کس کاذکر کروں۔ پڑھتے پڑھتے اکثر لگتا ہے، ابھی میں نے کچھ پڑھا ہی نہیں، ابھی میں نے جانا ہی کچھ نہیں۔ میرا سب سے بڑا Teacher سماج ہے، جی ہاں اس کو میں ہر لمحہ پڑھتا ہوں، یہ میری پسندیدہ کتاب ہے۔ اس کتاب میں پڑھنے کے لیے بہت کچھ ہے اور سیکھنے کے لیے بے انتہا۔ علم بھی ہے اور جہالت بھی۔ آپ دونوں سے سیکھتے ہیں۔

اور میں نے اس سماج میں، ماں باپ، سکول، کالج، یونیورسٹی اور بیرون ملک رسمی تعلیم کے علاوہ جن شخصیات سے سیکھا، ان میں لاتعداد لوگ شامل میں ہیں۔ کچھ۔ ملک معراج خالد، شیخ محمد رشید بابائے سوشلزم، حنیف رامے، راؤ رشید، ڈاکٹر مبشر حسن، ممتاز کاہلوں اور ذوالفقار علی بھٹو شہید اور لاتعداد لوگ۔

مگر میرا سب سے بڑا استاد مغرب (West) ہے۔ جسے علامہ اقبال نے روحانی جمہوریت قرار دیا ہے، مغربWEST۔ میں نے مغرب سے احترامِ آدمیت، جمہوری طرزِ زندگی، دلیل، منطق، سادگی اور ذات کی نفی سیکھی۔

مطالعے میں عالمی سیاست سے لے کر تاریخ تک۔ میرے مطالعے میں ننانوے فیصد مغرب کی تحریریں، علم، تحقیق اور معلومات سے مالا مال کتابیں ہیں۔ کوئی سیکھے تو سہی، آج علوم کے خزانے ہیں وہاں۔

آج دنیا میں ٹیچرز ڈے منایا جا رہا ہے۔

اس دن کے حوالے سے میں اپنے ایک اہم ترین ٹیچر محترم جناب رانا قیوم کا دن قرار دیتا ہوں، وہ کینٹ پبلک سکول سرگودھا میں میرے استاد تھے۔ واہ کیا استاد ہیں۔ فرخ سہیل گوئندی کے استاد۔ ان سے میں نے پڑھا بھی اور بولنا بھی سیکھا، انہوں نے مجھے سٹیج پر بولنا سکھایا، اور ایسا سیکھا کہ پھر بقول استاد دامن۔

سٹیجاں تے ہوئیے تے سکندر ہندے ہاں۔

سینکڑوں نہیں، لاکھوں کے اجتماعات سے خطاب کیا۔ دنیا بھر کے ان پلیٹ فارمز پر خطابات کیا جہاں بولنے کی بڑے بڑے لوگ خواہش رکھتے ہیں، جن میں امریکی کانگریس سے لے کر اقوامِ متحدہ کے تحت چھ ہفتے لیڈرشپ پروگرام تک شامل ہیں۔

سر رانا قیوم نہ ہوتے تو میں سٹیجوں کا سکندر نہ ہوتا۔ معذرت کے ساتھ بڑے بڑے لیڈر، راقم کی تقریر پر میں نے گھبراتے ہوئے دیکھے۔ کئی مرتبہ ان کی کوشش ہوتی کہ اس کی تقریر کو سکپ کرو۔

سر رانا قیوم میرے ایسے ٹیچر ہیں جن کو میں نے دنیا کے ہر سٹیج پر یاد رکھا۔

میں اس وقت دل میں مسکرا رہا ہوتا ہوں جب میری تقریر کے بعد دیگر مقررین یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ”اب ہمارے پاس کچھ کہنے کو نہیں، جو ہم نے کہنا تھا وہ گوئندی صاحب کہہ گئے۔ “

میں پھر بھی مسکرا دیتا ہوں دل ہی دل میں کہ بس تم اتنا ہی جانتے ہو۔ کہ جو کہنا تھا وہ گوئندی صاحب کہہ گئے۔

Teachers Day

سر رانا قیوم کے نام!
سر سلامت رہیں، آپ آج بھی درس و تدریس کے کارواں میں ہیں۔
خدا سلامت رکھے سر رانا قیوم آپ کو۔
آپ کے پاؤں چھوؤں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).