کشمیر کی آزادی، مولانا کا دھرنا اور موجودہ حکومت


لیجیے! قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری صاحب ایک سال بعد اس عہدہ جلیلہ کے لئے نا اہل قرار پائے ہیں جس پر وہ پچیس اکتوبر دوہزار اٹھارہ کے انتخاب کے نتیجے میں فائز ہوئے تھے۔ قانون کی کتاب میں لکھے گئے الفاظ کے مطابق تو الیکشن ٹریبونل کو یہ فیصلہ بہت پہلے کر نا تھا لیکن چلئے ہمارے ملک میں کوئی عدالت ایک سال میں بھی فیصلہ کرے تو ہم اسے غنیمت سمجھتے ہیں۔

دوسری طرف جمعیت علماء اسلام کے مولانا فضل الرحمن نے بھی بالآخر آزادی مارچ کی تاریخ کا اعلان کردیا ہے۔ بعض کم فہم قاسم سوری صاحب کی نا اہلی اور مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ میں رشتہ ازدواج تلاش کرتے ہوئے اس میں سے نئی حکومت کی پیدائش کی فال نکال رہے ہیں لیکن پاکستانی کاتب تقدیر نے مریض پر خرچہ کرنے والوں کو بتایا ہے کہ ابھی نہیں۔

تادم تحریر یہ واضح نہیں کہ ان کا یہ مارچ سکھر سے لاہور یا فیصل آبادکے راستے اسلام آباد جائے گا یا ملتان سے میانوالی اور پھردارالحکومت کا راستہ پکڑے گا۔ اسلام آباد کے ڈی چوک میں موجودہ حکومت کے دھڑن تختہ تک دھرنا دے گا یا ایک دودن کا لاک ڈاؤن اور جلسہ میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے تک محدود رہے گا۔ ایک چیز مگر خاکسار کے ذہن میں واضح ہے کہ پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ن اور دوسری اپوزیشن جماعتیں مولانا کی اس سیاسی بارات میں اپنی شرکت محدود رکھیں گی۔ اس کی وجہ یہ ہرگز نہیں کہ میاں نواز شریف اور شہباز شریف میں اس بارے کوئی سنگین اختلاف ہے۔ اختلاف رائے کی حد تک یہ کوئی بڑی بات بھی نہیں لیکن فیصلہ ساز قوت بہرحال اب بھی میاں نواز شریف ہی ہیں۔

دھرنے کی تاریخ کا اعلان کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے ایک بار پھر یہ الزام عائد کیا ہے کہ موجودہ حکومت نے کشمیر کو بیچ دیا ہے۔ دوسری طرف فیس بک اور ٹوئٹر پر یہ غلغلہ اب بھی جاری ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جو خطاب کیا ہے اس کی کوئی مثال ملکی تاریخ میں موجود نہیں ہے۔ محترمہ زرتاج گل صاحبہ نے مجھ جیسے لاعلموں کو جو وزیراعظم کی تقریر ٹیلی ویژن پر دیکھ اورسن نہیں پائے آگاہ کیا ہے کہ عمران خان وہ واحد وزیراعظم ہیں جنہوں نے سفید رنگ کا قومی لباس شلوار قمیض اورواسکٹ زیب تن کر کے قومی زبان اردومیں تقریر کی۔

تحریک انصاف کے کارکن وزیراعظم عمران خان کی اس تقریر کو بنیاد بنا کر میاں نواز شریف کو مطعون کر رہے ہیں کہ وہ کشمیر پر ایسی دلیرانہ تقریر کر ہی نہیں سکتے۔ اس بارے کچھ کہنے کی بجائے میں قارئین کو صرف یہ مشورہ دوں گا کہ وہ برطانوی نشریاتی ادارے انڈی پینڈنٹ پرسا بق وزیراعظم میاں نواز شریف اور وزیراعظم عمران خان کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر کا تقابلی جائزہ ملاحظہ فرما لیں۔

بہر حال، سو اختلافات ہوں لیکن سچی بات یہ ہے کہ مجموعی طور پر وزیراعظم کی اقوام متحدہ میں تقریر قومی امنگوں کے عین مطابق تھی۔ نیویارک یا امریکہ کا دورہ بھی کامیاب تھا لیکن کچھ سوال طالب علم کے ذہن میں ایسے ہیں جو سمجھ نہیں پا رہا۔

وزیراعظم عمران خان اور وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کی طرف سے مسئلہ کشمیر پر پچا س اور اٹھاون ملکوں کی حمایت کے دعوے کے باوجود اقوام متحدہ کی انسانی حقوق سے متعلق کونسل میں پاکستان نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے خلاف قرارداد کیوں نہیں پیش کی؟

ہمارے وہ مسلمان عرب بھائی کیا ہوئے جو کسی بھی علاقائی یا عالمی تو کیا دوطرفہ پلیٹ فارم پر بھی کشمیر کا نام تک لینا گوارا نہیں کرتے؟

اگر آپ مجھے مودی کا یار اور غدار نہ کہیں تو میں یہ بھی سوچتا ہوں کہ اقوام متحدہ میں کھڑے ہوکر نریندرا مودی کو دہشت گرد تنظیم آر ایس ایس کا تاحیات رکن بتانے والے یہ حقیقت اس وقت نہیں جانتے تھے جب وہ شکوہ کناں تھے کہ مودی فون نہیں اٹھا رہا؟

معاف کیجئے گا، میں اس حقیقت سے انکارہر گز نہیں کررہا لیکن ہر حقیقت کو بیان کرنے کاکوئی وقت اور مقام بھی ہوتا ہے یا نہیں؟ کون سا الزام ہے جو مودی نے پاکستان پر نہیں دھر ا؟ لیکن کسی نے اس کے منہ سے پاکستان کا نام سنا؟ کسی نے اس کے منہ سے عمران خان کا نام سنا؟ یہ سفارتی طریقے ہیں بات کرنے کے۔ سربراہان مملکت اور حکومت بیانات دیتے ہوئے ایک دوسرے کو نام لے کر ایسے نہیں لتاڑتے کیونکہ انہوں نے کل کلاں کو مل بیٹھ کو قوموں کی تقدیر کے فیصلے کرنا ہوتے ہیں۔ ایسے کاموں کے لئے دوسرے درجے کی سیاسی قیادت یا وزرا کی ڈیوٹی لگائی جاتی ہے۔

پانچ اگست کے بعد ایٹمی جنگ کے امکان بارے جتنے بیان وزیراعظم نے دیے ہیں اتنے شاید ملکی تاریخ میں نہیں دیے گئے ہوں گے۔ اس پر بس نہیں کیا اقوام متحدہ میں بھی یہی کچھ دہرانا لازمی تھا؟ وزارت خارجہ میں بیٹھے پالیسی ساز وزیراعظم کو یہ کیوں نہیں بتاتے کہ فریق مخالف اس کو عالمی برادری کے سامنے ہمارے خلاف ایٹمی جنگ کی دھمکیوں کے طور پر بھی استعمال کرسکتا ہے۔

نمازیں بخشوانے گئے تھے روزے گلے پڑگئے! کشمیر یوں کی زندگی میں کوئی آسانی کیا پیدا ہونی تھی الٹا افغانستان بھی ہمارا مستقل درد سر بن گیا ہے۔ حالت یہ ہے کہ طالبان روس، ایران یا چین کی قیادت سے ملتے ہیں تو کسی کو مسئلہ نہیں ہوتا لیکن طالبان کا وفد پاکستان آئے تو افغانی حکومت کے پیٹ میں مروڑ اٹھنے لگتے ہیں اور اس کا ترجمان فورا بیان داغ دیتا ہے کہ یہ سفارتی آداب کے منافی ہے۔ اللہ اللہ! اوپر سے ہمیں ایران اور امریکہ کی بھی ثالثی کا شوق چرایاہے۔ کیا ہمارے اپنے سارے مسائل حل ہو چکے ہیں؟ حل تو بہت دور ہم تو ابھی تک یہ ہی طے نہیں کر پائے کہ ہمارا مسئلہ ہے کیا؟

جولائی دو ہزار اٹھارہ میں پاکستان کی شرح نمو کیا تھی اورآج کیا ہے یہ اگر کوئی دیکھ لے تو بجلی کا بل دیے بغیر اس کے چودہ طبق روشن ہو جائیں گے۔ جس کومزید نو ر باطن کی ضرورت ہو وہ عالمی مالیاتی اداروں کی ان رپورٹس کا مطالعہ کرے جس میں انہوں نے پاکستان کی آئندہ مالی سال کی صورتحال کا نقشہ کھینچا ہے۔

اس وقت اگر کشمیریوں کی کوئی مدد ہو سکتی ہے تو وہ یہ ہے کہ پاکستان اپنی توجہ آزادکشمیر اور مقبوضہ کشمیر کے شہریوں کی وادی کے ایک سے دوسرے حصے میں آسانی سے آمدورفت کو ممکن بنانے پر توجہ مرکوز کرے۔ سکھوں کے لئے سال ڈیڑھ سال میں کرتار پورہ راہداری بن سکتی ہے تو کشمیریوں کو بھی اپنے ہی گھر میں آمدورفت کی آزادی ہونی چاہیے۔

استصواب رائے کا حصول کشمیریوں کا مسلمہ حق ہے لیکن اس کے لئے پاکستان کو دنیا بھر میں اپنے معاشی مفادات میں اضافہ کرنا ہوگا اور خود اپنے ہاں دنیا کے معاشی مفادات پیدا کرنے ہوں گے۔ معیشت، مضبوط معیشت اور مزید مستحکم معیشت ہی کشمیر سمیت پاکستان کے تمام تر مسائل کا حل ہے۔ معاشی مفادات ہی ملکوں کو مجبور کریں گے کہ علاقائی اور عالمی فورمز پر پاکستانی موقف کی حمایت کریں۔

لیکن ہم پر چونکہ کرپشن کے خاتمے کا بھوت سوار ہے تو اسلام آباد سے صحافی دوست آصف بشیر چودھری نے خبر دی ہے کہ غیر ملکی کمپنیاں ادائیگیوں میں تاخیر سے تنگ آکر اپنا سود تک چھوڑنے پر تیار ہیں لیکن کم از کم چار وفاقی سیکرٹریز نے کسی بھی قسم کی ادائیگیوں کی فائلوں پر دستخط کرنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا ہے کہ نیب کسی بھگتنے سے بہتر ہے تبادلہ کرا لیں۔
باقی تقریروں سے اگر کشمیر آزاد ہونا ہوتا تو مولوی خادم رضوی سے زیادہ ولولہ انگیز تقریرکس کی ہوگی؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).